سندھ کی قیادت میں تبدیلی

July 29, 2016

کافی عرصے سے متوقع سندھ کی قیادت میں آخر تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا گیا‘ یہ فیصلہ پاکستان سے باہر دبئی میں پی پی پارلیمنٹرین کے چیئرمین آصف زرداری کی صدارت میں کیا گیا اور اس سلسلے میں اعلان پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے منگل کو بلاول ہائوس میں سندھ پی پی کے پارلیمنٹری اجلاس میں کیا‘ اس اعلان کے مطابق سندھ کے موجودہ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ بدھ کو استعفے کا اعلان کریں گے اور ان کی جگہ سندھ کے مالیاتی وزیر سید مراد علی شاہ جمعہ کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے‘ میں کیونکہ یہ کالم بدھ کی دوپہر کو لکھ رہا ہوں لہذا توقع کے مطابق بدھ کو کسی وقت سید قائم علی شاہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیں گے۔ واضح رہے کہ قائم علی شاہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر رہنے کے ساتھ سندھ پی پی کے صدر بھی ہیں‘ وہ کافی لمبے عرصے سے اس عہدے پر ہیں‘ اندازہ ہے کہ انہیں اس عہدے سے کم سے کم فی الحال نہیں ہٹایا جائے گا‘ عوام کی سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ سے کیا توقعات ہیں‘ اس سلسلے میں‘ میں اپنی معروضات پیش کرنے سے پہلے قائم علی شاہ کی اب تک کی کارکردگی اور سیاسی کردار کے بارے میں اپنی معروضات پیش کروں گا‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت سید قائم علی شاہ نہ فقط پی پی میں مگر شاید ملک کی ساری پارٹیوں کے رہنمائوں میں سینئر ترین رہنما ہیں‘ ان کا یہ اعزاز بھی ہے کہ پی پی بننے کے بعد جلد ہی پی پی میں شامل ہوئے اور پارٹی کے اندر اور ملک کی سیاست میں مختلف اونچ نیچ کے باوجود پارٹی کے ساتھ وفادار رہے اور پارٹی سے غداری نہیں کی‘ صرف ایک بار ان سے ’’ایک بڑی سیاسی خطا‘‘ ہوتے ہوتے رہ گئی جب ملک کے اس وقت کے صدر فاروق لغاری کی طرف سے اس وقت کی وزیر اعظم شہید بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کرنے کے بعد انہوں نے پی پی کے مختلف رہنمائوں کو اسلام آباد طلب کیا کہ ان میں سے کسی کو سندھ کا ’’کیئر ٹیکر‘‘ وزیر اعلیٰ بناسکیں‘ شاید اس سلسلے میں صدر فاروق لغاری یا ان کے حلقوں نے سندھ سے پی پی کے جن سینئر رہنمائوں سے رابطہ کیا اطلاعات کے مطابق سید قائم علی شاہ بھی ان میں شامل تھے۔ قائم علی شاہ بھی اسلام آباد پہنچ گئے مگر ان سے پہلے سندھ کے ایک اور سینئر رہنما ممتاز بھٹو کو سندھ کا ’’کیئر ٹیکر‘‘ وزیر اعلیٰ بنایا گیا‘ اس وقت کہتے ہیں کہ قائم علی شاہ بہت مایوس ہوئے کہ اب کیا کریں مگر خوش قسمتی سے اسلام آباد میں ہی ان کی پی پی سندھ کے ایک اور سینئر رہنما آفتاب شعبان میرانی سے ملاقات ہوگئی جو ان کو لیکر محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاس پہنچے اور سفارش کی کہ ان کو پی پی میں رہنے دیا جائے اور محترمہ بے نظیر بھٹو ان کی پی پی کی لمبی رفاقت کے مدنظر ان کے پی پی میں رہنے پر راضی ہوگئیں جہاں تک سید قائم علی شاہ کی بطور ایک سیاستدان اور پارلیمنٹرین کے کیا خوبیاں اور خامیاں تھیں توایک پارلیمنٹرین کی حیثیت میں یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سےوہ جب ہائوس میں تقریر کرتے تھے تو ’’ٹو دی پوائنٹ‘‘ اور آئین وقانون کے دائرے میں رہ کر بولتے تھے لہٰذا وہ بحیثیت ایک پارلیمنٹرین بے شک پاکستان کے چند بہترین پارلیمنٹرینز میں شامل کیے جاسکتے ہیں‘ ہاں البتہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت میں اپنے آخری دو رمیں جب سندھ اسمبلی میں بولتے تھے یا اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے تھے تو بڑھاپے کی وجہ سے یا تو ان کی زبان سلپ ہوجاتی یا غیر ضروری اور غیر متعلقہ باتیں کرجاتے تھے۔ہونا تو یہ چاہئے تھے کہ ان ایام میں وہ خود ہی اپنے عہدے سے مستعفی ہوجاتے مگر انہوں نے یہ کرنا مناسب نہیں سمجھا‘ اس کی وجہ کیا تھی؟ کیا وہ اس عہدے پر رہنا چاہتے تھے یا پی پی کی باگیں جن کے ہاتھ میں ہیں ان کو قائم علی شاہ سوٹ کرتے تھے اور وہ جو کام چاہتے ان سے آسانی سے کرالیتے تھے‘ وفاقی وزیر کی حیثیت میں‘ صوبائی وزیر کی حیثیت میں یا وزیر اعلیٰ کی حیثیت میں ان کی یہ ایک اہم خوبی تھی کہ وہ جو کام کرنا چاہتے قانون کے دائرے میں رہ کر کرتے تھے‘ وہ ایک لمبے عرصے تک ان عہدوں پر رہنے کے باوجود کرپشن جیسی لعنت کے مرتکب نہیں ہوئے‘ بہرحال ان کی وزارت اعلیٰ کے آخری ایام کے دوران وہ دونوں خوبیوں سے عاری نظر آنے لگے‘ اب وہ وزیر اعلیٰ تو تھے مگر مختار اعلیٰ نہ تھے‘ سارے فیصلے وہ کرتے جو پی پی کے حاکم اعلیٰ ان کو ڈکٹیٹ کراتے‘ لہذا ان کے اس دور میں سندھ مکمل طور پر تباہ ہوگیا‘ ایک طرف سندھ بنجر بن گیا تو دوسری طرف نہ فقط نوکریاں مگر ہر محکمے میں ہر چیز بکنے لگی‘ حتیٰ کہ بھنگی بھی رشوت لیکر رکھے جاتے‘ سید قائم علی شاہ ان الزامات سے بری الزمہ نہیں ہوسکتے‘۔میں ان کے بارے میں یہ بات ضرور ریکارڈ پر لانا چاہوں گا کہ ان میں شروع سے فیصلے کی قوت بہت کم تھی جہاں تک سید مراد علی شاہ کا تعلق ہے تو وہ ایک ایسے باپ کے بیٹے ہیں جن میں فیصلے کی قوت بے پناہ تھی اور ان میں اور بھی کئی انتظامی خوبیاں تھیں‘ مراد علی شاہ نہ فقط نوجوان ہیں بلکہ شاید پی پی سندھ کے سارے رہنمائوں میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں‘ وہ اب تک سندھ کے وزیر آبپاشی اور وزیر خزانہ رہ چکے ہیں‘ وزیر آبپاشی کی حیثیت میں ان کا یہ کارنامہ فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے سندھ کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی کو کچھ وقت کے لئے ختم کرایا جس کے تحت 1999 ء سے پنجاب اور سندھ میں دریا میں پانی کی شارٹیج کے وقت پانی کی تقسیم خود ساختہ ’’ہسٹاریکل یوزز‘‘ کے تحت کی جاتی تھی جس میں سندھ کے حصے میں بہت کم پانی جاری کیا جاتا تھا جس کے نتیجے میں سندھ کی فصلیں کافی متاثر ہوتی تھیں‘ مگر انہوں نے ارسا کے اندر اپنے ممبران سے اتنا دبائو پیدا کرایا کہ کچھ عرصے کے لئے پانی 91 ء کے معاہدے پر تقسیم ہونے لگا اور سندھ کو درپیش پانی کی کمی دور ہوگئی مگر تھوڑے ہی عرصے کے اندر انہیں وزارت آبپاشی سے ہٹاکر سندھ کا وزیر خزانہ بنایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں وزارت آبپاشی سے قائم علی شاہ آصف زرداری کے فوری احکامات پر ہٹانے پر مجبور ہوئے تھے‘ یہ بھی کچھ حلقوں میں اطلاعات تھیں کہ زرداری پر یہ دبائو پنجاب سے تعلق رکھنے والے کچھ ’’ طاقتور حلقوں‘‘ کی طرف سے ڈالا گیا تھا اور پی پی کے ’’قائد اعلیٰ‘‘ کو ڈر تھا کہ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو ہوسکتا ہے کہ ان کی اتھارٹی شدید متاثر ہو‘ بہرحال وزیر خزانہ کی حیثیت میں انہوں نے کافی عرصے تک مختلف ایشوز پر سندھ کا کیس انتہائی موثر انداز میں لڑا‘ چاہے وفاق سے سندھ کے لئے مخصوص ہونے والے فنڈز کا ایشو ہو یا قومی مالیاتی کمیشن میں سندھ کا کیس لڑنے کا ایشو ہو مگر ایسا محسوس ہوا کہ کچھ عرصے سے ٹھنڈے نظر آتے تھے‘ اس سلسلے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کو شایدسخت ہدایات تھیں کہ پی ایم ایل (ن) اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے دیگر ’’طاقتور حلقوں‘‘ کو ناراض نہ کریں‘ اب وہ سندھ کے وزیر اعلیٰ بنائے جارہے ہیں لہذا اس سلسلے میں سندھ کے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں ان کے بارے میں متضاد آراء کا اظہار کیا جارہا ہے‘ ان حلقوں کے مطابق اگر ان پرفیصلے کرنے میں کسی طرف سے دبائو نہیں ڈالا جاتا تو توقع ہے کہ ان کی کارکردگی کافی بہتر ہوگی اور سندھ شاید بربادی کے راستے سے واپس آنے لگےمگر اکثرحلقوں کا کہنا ہے کہ ان کے ہاتھ بندھے ہوں گے لہذا ان سے کسی بہتری کی توقع بہت کم ہے‘ اس وقت سندھ تیزی سے ’’فنا ‘‘ کی طرف جارہا ہے‘ اس کے بچنے کا فقط ایک راستہ ہے کہ قبلہ آصف زرداری پارٹی کی قیادت سے کنارہ کش ہوجائیں‘ اگر انہوں نے اپنے بیٹے پر اعتماد کرکے اسے پارٹی کا ’’چیئرمین‘‘ بنایا ہے تو یہ دو چیئرمینوں کا ڈرامہ ختم ہوجانا چاہئے۔


.