مالیاتی ڈسپلن: اہم فیصلے!

August 01, 2016

غیر منقولہ جائیداد کی قیمتوں کے تعین اور پراپرٹی کے لین دین پر ٹیکس سے متعلق معاملات پر رئیل اسٹیٹ کے نمائندوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی کامیابی اور بنیادی اصولوں پر اتفاق رائےمالیاتی معاملات کو ایک نظم میں لانے کے حوالے سے اہم پیش رفت ہے۔ قبل ازیں وفاقی بجٹ 2016-17ء میں جائیدادوں کی قیمتوں کے تعین کا اختیار اسٹیٹ بینک کو دینے سمیت کئی امور پر اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات اتنے سنگین تھے کہ نوبت مظاہروں تک جا پہنچی تھی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور متعلقہ شعبے کے نمائندوں کے کئی روز تک جاری مذاکرات میں فریقین نے ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھا اور افہام و تفہیم کے بعد نہ صرف جائیدادوں کی قیمتوں (ویلوایشن) کا اختیار اسٹیٹ بینک کی بجائے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سپرد کر دیا گیا بلکہ کئی دوسرے اہم نکات پر بھی اتفاق رائے ہو گیا۔وزیر خزانہ نے پراپرٹی ڈیلرز سے طے پانے والے جن فیصلوں کا اعلان کیا ان سےسٹہ بازوں کے ہاتھوں غیر منقولہ جائدادوں کی قیمتیں مصنوعی طور پر اوپر نیچے لانے کے طریقوں کی روک تھام ،تین سال سے پہلے پراپرٹی بیچنے پر کیپٹل گین ٹیکس لگا کر فائلوں کی خرید و فروخت سے مہینوں یا ہفتوں میں بھاری منافع کمانے کے رجحان پر قابو پانے اور حقیقی خریداروں کو تحفظ دینے کی تدبیر کی گئی ہے۔ وطن عزیز میں ٹیکسوں کی وصولی کی صورتحال کئی عشروں سے غیر تسلی بخش ہونے کی وجہ ماہرین اور باخبر حلقے حکومتی مشینری پر اعتماد کی کمی اور محصولاتی مشینری میں بذات خود پائے جانے والے نقائص بتاتے ہیں جبکہ رفاہی کاموں میں اچھی شہرت رکھنے والی غیر سرکاری تنظیموں کو تجارتی برادری سمیت مخیر افراد فراخدلی سے عطیات دیتے ہیں۔ اب رئیل اسٹیٹ کے نمائندوں سے حکومت کی افہام و تفہیم کے نتیجے میں پراپرٹی کے شعبے میں جو اعتماد سازی ہوئی ہے وہی اعتماد سازی دوسرے شعبوں اور میدانوں میں اسٹیک ہولڈرز سے کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ دکانداروں اور صنعت کاروں سے لیکر مختلف خدمات فراہم کرنے والے افراد اور اداروں کی طرف سے جمع کرائے جانے والے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ نہ ہو اور معیشت کو دستاویزی بنانے کے اقدامات کی برسوں سے جاری مزاحمت خوشدلی سے اختیار کئے گئے تعاون کی صورت اختیار نہ کر جائے۔ اس مقصد کیلئے سرکاری مشینری کی اوورہالنگ کا ایسا طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس میں سیاسی وابستگی، سفارش یا رشوت کے ذریعے تقرریوں کی بجائے صرف میرٹ کا چلن ہو اور کرپشن میں ملوث عناصر کو ایک لمحے کیلئے بھی برداشت نہ کیا جائے کیونکہ یہی عناصر اپنی جیبیں گرم کرنے کیلئے ٹیکس دہندگان، بجلی اور گیس کے صارفین، جائیدادیں ٹرانسفر کرانے والوں اور دوسرے افراد کو حقیقی ادائیگی سے بچنے کے طریقے اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جہاں کرپشن یا میرٹ کی پامالی ہوتی ہو اور عوام کو درست حقائق بتانے میں اجتناب برتا جاتا ہو وہاں اعداد و شمار ہی نہیں ہر دعویٰ اور اعلان مشکوک ٹھہرتا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات باعث اطمینان ہے کہ مرکزی بینک کی مانیٹری رپورٹوں کو بڑی حد تک توقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ہفتے کے روز جاری کی گئی رپورٹ میں مانیٹری صورتحال کے مختلف شعبوں کی کمزوری اور بہتری کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے، صنعتی فروغ اور دہشت گردی میں کمی سے معیشت میں بہتری کی پیش گوئی پر بھروسہ کیا جا رہا ہے تو اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ آئندہ دوماہ کے دوران شرح سود 5.7فیصدرکھنے پر قوم کو اعتماد میں لیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ مالی سال2016-17ء میں اقتصادی سرگرمیاں بڑھنے میں شرح سود میں کمی کا کردار بھی ہے اور اس سے افراط زر میں کمی آئی ہے۔ اس نوع کی رپورٹیں جب معتبر ہوں تو مالیاتی نظم و ضبط اور اعتماد سازی میں کردار ادا کرتی ہیں۔توقع کی جانی چاہئے کہ مالیاتی ڈسپلن کو موثر بنانے کیلئے اس کا دائرہ بڑھانے کے مزید اقدامات کئے جائیں گے۔