اندھیرے مٹانے کے وعدے کہا ں گئے

July 18, 2014

ہم پاکستانیوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم آسمان سے گرتے ہیں تو کجھور میں اٹک جاتے ہیں۔کھائی سے نکلتے ہیں تو کنویں میں گر جاتے ہیں۔حکومتیں ادلتی بدلتی رہتی ہیں،نت نئی جماعتیں اور سیاستدان کرسی ء اقتدار پر جلوہ افروز ہوتے رہتے ہیں لیکن نہیں تبدیل ہوتی تو ہم سوختہ سامانوں کی قسمت۔ہم پرویز مشرف سے اکتائے تو جناب زرداری تشریف لائے،جب ان کی کارکردگی دیکھی تو سب پُکار اٹھے ،اس سے تو وہ ڈکٹیٹر بھلا تھا۔خدا خدا کر کے آصف زرداری تشریف لے گئے اور جناب نوازشریف مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہوئے،ابھی ایک سال ہی گزرا ہے کہ دل پھر طواف کوئے ملامت کو جاتا اور حسن انتخاب پر شرماتا دکھائی دیتا ہے۔جب انتخابی مہم زوروں پر تھی اور سب اپنا اپنا منجن بیچ رہے تھے تو مسلم لیگ (ن) بھی اپنے سیاسی مخالفین کی طرح دل لُبھانے اور سبز باغ دکھانے والے نعروں کے ساتھ میدان میں اُتری۔اکتائی اور تنگ آئی ہوئی قوم کو یہ مژدہ سنایا گیا کہ ’’بدلا ہے پنجاب ،بدلیں گے پاکستان‘‘یہ تو محض ایک سلوگن تھا مگر جاگتی آنکھوں کے خواب بیچنے والے سوداگروں نے موسیقی کی دلفریب دھنوں پر نہایت پرسوز اور مترنم آواز میں ایک نغمہ ترتیب دیا’’تم سے اپنا یہ وعدہ ہے میرے وطن،تجھ سے تیرے اندھیرے مٹائیں گے ہم‘‘جب سحر و افطار کے اوقات میں اس دیار وطن کا بیشتر حصہ اندھیروں میں ڈوبا ہوتا ہے تو وہ مترنم آواز جو کانوں میں رس گھولتی تھی ،اب سماعتوں پر ہتھوڑے برساتی ہے۔میں نے بدترین لوڈشیدنگ پر مسلم لیگ (ن) کے ایک مرکزی رہنماء کو اندھیرے مٹانے کاوعدہ یاد دلایا تو خفگی بھرے انداز میں کہنے لگے ،ابھی تو ہمیں ایک سال ہوا ہے اور آپ نے ہمارا احتساب کرنا شروع کر دیا ہے۔میں نے جان کی ا مان پا کر عرض کی،حضور والا! اگر اس ایک برس میں آپ نے تاریکیاں دور کرنے کے لیئے کوئی ایک شمع بھی روشن کی ہوتی تو ہم قوم کو صبر کی تلقین کرتے مگر دعوئوں کے برعکس صورتحال یہ ہے کہ بجلی کی پیداوار میں ایک میگا واٹ کا اضافہ بھی نہیں ہوا۔پیپکو کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق یکم جولائی 2013ء کو بجلی کی اوسط پیداوار 14500میگا واٹ تھی اور یکم جولائی 2014ء کو بھی 14500میگاواٹ ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آئے روز جن پاور پلانٹس کا افتتاح کیا جا تا رہا ہے اور بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعے عوام کو جو خوشخبری دی جاتی رہی ہے،اس کی حقیقت کیا ہے؟اگر واقعتا یہ پاور پلانٹ لگائے گئے تو ان سے پیدا ہونے والی بجلی کہاں گئی؟میں نے نندی پور پاور پراجیکٹ سے منسلک ایک انجینئر سے رجوع کیا تو ایسے ایسے انکشافات ہوئے کہ دنگ رہ گیا۔نندی پور پاور پراجیکٹ جس کا آغاز پیپلز پارٹی کے دور میں ہوا،اس بابت قومی خزانے کو پہلا ٹیکہ اس وقت کے وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے لگایا۔جسٹس (ر) رحمت حسین جعفری کی سربراہی میں بننے والے سپریم کورٹ کے کمیشن نے 94صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں واضح طور پر اس منصوبے میں تاخیر اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا ذمہ دار بابر اعوان کو قرار دیا۔مگر کسی سے کوئی باز پرس نہ کی گئی ۔جب نواز شریف برسر اقتدار آئے تو 23ارب روپے کا یہ منصوبہ 57ارب روپے تک جا پہنچا۔اس منصوبے نے دسمبر 2014ء کو مکمل ہونا تھا لیکن عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیئے وزیراعظم 31مئی کو نندی پور پاور پراجیکٹ کا افتتاح کر کے چلے گئے اور عوام کو بتایا گیا کہ 425میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہو گئی ہے۔یہ پاور پلانٹ چند دن چلنے کے بعد بند ہو گیاکیونکہ شعبدہ بازی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔اگر ٹیکنالوجی سیاسی مجبوریوں اور مصلحتوں سے آشنا ہوتی تو شائد یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ابتدائی منصوبے کے مطابق اس پلانٹ نے فرنس آئل پر چلنا تھا،اس میں تبدیلی کر کے ڈیزل پر منتقل کیا گیا جس کی وجہ سے تکنیکی مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور کچھ دن بعد ہی انجینئروں نے ہاتھ کھڑے کر دیئے۔اگر یہ تکنیکی مسائل کی بنیاد پر بند نہ بھی ہوتا تو اس شعبدہ بازی کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑتی کیونکہ یہاں سے فی یونٹ بجلی35روپے میں پڑ رہی تھی۔اب منصوبے یہ ہیں کہ اس کے بنیادی سٹرکچر میں ایک بار پھر تبدیلی کرتے ہوئے اسے گیس پر منتقل کیا جائے۔مزید کئی ارب روپے جھونکنے کے بعد جب یہ تبدیلی ہو چکے گی تو معلوم ہوگا کہ گیس تو پہلے ہی دستیاب نہیں۔
گدو پاور پلانٹ کے نام پر بھی ایسی ہی شعبدہ بازی کی گئی۔747میگا واٹ کے اس منصوبے کا بھی افتتاح ہو چکا مگر عملاً پیداوار کا آغاز نہیں ہوا۔اوچ ون پاور پلانٹ جس کی استعداد 410میگا واٹ بتائی گئی،جب میں اس کے بارے میں معلومات جمع کرنے نکلا تو انکشاف ہوا کہ فیتہ تو کٹ گیامگر تاحال بجلی سپلائی کرنے کے لیئے ٹرانسمشن لائنیں ہی نہیں بچھیں۔اگر اوچ ون ،اوچ ٹو،گدو اور نندی پور پاور پراجیکٹس سے 1500میگاواٹ بجلی سسٹم میں آجاتی تو شائداندھیرے کچھ کم ہو جاتے اور قوم حوصلے میں آجاتی۔اگر نئے پلانٹ نہ بھی لگ سکیں ،گردشی قرضوں کا مسئلہ حل کر دیا جائے اور پاور پلانٹس اپنی استعداد کے مطابق بجلی پیدا کرنا شروع کر دیں تو بھی اس عذاب سے چھٹکارا ممکن ہے۔اس وقت پاور سیکٹر کو 36000ٹن فرنس آئل درکار ہے جبکہ صرف 22000ٹن فرنس آئل مہیا کیا جا رہا ہے۔سابقہ حکومت کی طرح موجودہ دور میں بھی لوڈ شیڈنگ گھٹانے کے بجائے نرخ بڑھانے اور اوور ریڈنگ کے ذریعے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کی پالیسی زوروں پر ہے۔خواجہ آصف فرماتے ہیں ،قوم بارش کی دعا کرے ،ویسے بھی پاکستان میں سب کام اللہ کی مدد سے ہی چل رہے ہیں۔خواجہ صاحب! ہمارے ساتھ یہ مذاق تو نہ کریں،اگر ہم بدنصیبوں کی دعائیں قبول ہوتیں تو ہر بار نااہل اور وعدہ خلاف حکمران کیوں مسلط ہوتے؟
دوسری طرف عمران خان قوم کے ساتھ کیسا سنگین مذاق کر رہے ہیں۔جب پیپلز پارٹی برسر اقتدار تھی اور وہ اپنے جلسوں میں صرف مسلم لیگ(ن) کو تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے تو اس کی توجیہہ یہ بیان کی جاتی کہ 18ویں ترمیم کے بعد بجلی پیدا کرنے کا اختیار تو صوبوں کو مل چکا ہے ،لہٰذا لوڈ شیڈنگ کے ذمہ دار شہباز شریف ہیں۔اب خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت ہے تو وہ مجرمانہ غفلت اور نااہلی کا سارا بوجھ وفاقی حکومت پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔اگر وہ چاہتے تو وہاں کئی آبی گزرگاہوں پر چھوٹے چھوٹے پلانٹ لگائے جا سکتے تھے۔لیکن وہ کے پی کے کو مثالی صوبہ بنانے اور وہاں تبدیلی لانے کا وعدہ نباہنے کے بجائے حکومت گرانے کے درپے ہیں اور سونامی مارچ کرنے نکلے ہیں۔مجھ سے جب بھی کوئی تحریک انصاف کی صوبائی حکومت یا مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کے بارے میں سوال کرتا ہے تو میں ایک ہی خواہش کا اظہار کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ دونوں حکومتیں اپنی مدت پوری کریں تاکہ عوام کو اپنے انتخاب کی سزا ملے اور یہ معلوم ہو کہ ووٹ سوچ سمجھ کرنہ دیا جائے تو اس غلطی کا خمیازہ پورے پانچ سال بھگتنا پڑتا ہے۔