کالا باغ ڈیم۔مزید گزارشات

August 13, 2016

پاکستان کے آبی مسائل اور کالا باغ ڈیم کے بارے میں خدشات اور تحفظات دور کرنے کے لئے میرے 26 مضامین کے جواب میں نواب یوسف تالپور صاحب کا مضمون نظر سے گزرا۔ اُن کے اٹھائے گئے نکات میں سب سے پہلا نکتہ سندھ طاس معاہدے کے بارے میں ہے ۔ پانی کا یہ معاہدہ ایوب خان کے دور ِ حکومت میں ہوا اور انہوں نے اس کی پوری ذمہ داری قبول کی ۔ یہ بات میں اپنے مضمون میں پوری صراحت کے ساتھ اُن کی اپنی آپ بیتی کے حوالے سے لکھ چکا ہوں۔
اُن کے دوسرے نکتے کا تعلق چشمہ جہلم لنک کینال سے ہے ۔ چشمہ جہلم لنک کینال سندھ طاس کے متبادل منصوبوں کے تحت ورلڈ بینک کے مالی تعاون سے جون 1971 ء میں مکمل ہوئی ۔ اس میں آزمائشی طور پر 2 سال تک پانی چھوڑا جاتا رہا جس کی سالانہ اوسط مقدار1971 ء میں 6 ہزا ر 412 کیوسک اور 1972 ء میں 4ہزار 276 کیوسک تھی ۔ جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے تو جولائی1972 ء میں ایک باقاعدہ معاہدہ ہوا جس میں یہ تحریر کیا گیا تھا کہ اگر وزیر اعلیٰ سندھ درخواست کریں گے تو نہر میں پانی کی ترسیل روک دی جائے گی ۔ اس معاہدے کی مدت ایک سال مقرر کی گئی یا اس وقت تک جب تک صدرِ پاکستان پانی کی تقسیم کا فیصلہ نہ کردیں۔ جب دو سال گزرنے کے بعد بھی پانی کی تقسیم کا معاہدہ نہ ہوسکا توحفیظ پیرزادہ کے دستخط کے ساتھ اس معاہدے کا اطلاق 1974 ء میں خریف کی فصل تک بڑھا دیا گیا۔ اس کے بعد کوئی معاہدہ نہیں ہوا، کیونکہ شاید تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعداتنا وافر پانی دستیاب تھا کہ کسی معاہدے کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی۔ بعد ازاں بھٹو صاحب کے باقی ماندہ دور یعنی 1975 ، 1976 اور 1977 میں اور پھر ضیا ء الحق کی حکومت کے دوران وفاقی حکومت چشمہ جہلم لنک کینال میں حسب ِ ضرورت پانی چھوڑنے کے احکامات جاری کرتی رہی اور اس پر کسی صوبے نے اعتراض نہیں کیا۔ 1985 ء میں خشک سالی اس حد تک تھی کہ ریکارڈ کے مطابق پچھلے 14 سالوں کی اوسط ( اپریل تا جون) کے مقابلے میں دریائے چناب میں43.4 فی صد، دریائے جہلم میں 31.4 فی صد اور دریائے سندھ میں 28.5فی صد کم پانی دستیاب تھا۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے کہنے پر چشمہ جہلم لنک کینال بند کر دی گئی جس پر پنجاب اسمبلی میںارکان کی طرف سے اسے کھولنے کے لئے قرار دادیں منظور کی گئیں ، جن میں سندھ کے ویٹو کے اختیار کو چیلنج کیا گیا تھا ، مگر پنجاب حکومت نے ماسوائے جنوبی پنجاب کے متاثرہ علاقوں کی مالی امداد کے اور کوئی قدم نہیں اٹھایا اور بتدریج وفاقی حکومت سے درخواست کی جاتی رہی کہ وہ جنوبی پنجاب کے کسانوں کی فصلیں تباہ ہونے سے بچائے۔ اس وقت وفاقی حکومت میں جناب وہاب شیخ سیکرٹری پانی و بجلی تھے ، جناب ظفر اللہ جمالی وزیر برائے پانی و بجلی اور محترم قاضی عبدالمجید عابد وزیرزراعت تھے ،اس وقت وزیر اعظم کا عہدہ جناب محمد خان جونیجو کے پاس تھا۔ جب وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ پانی کی دستیابی کی صورتِ حال بہتر ہوگئی ہے تو نہر میں پانی چھوڑنے کے احکامات جاری کئے گئے ،مگر ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا گیا کہ چونکہ معاملہ حساس ہے اس لئے اسے مشتہر نہ کیا جائے ۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ اگر سندھ سے تعلق رکھنے والا وزیراعظم جنوبی پنجاب کے کسانوں کے لئے پانی چھوڑنے کا حکم دیتا ہے تو یوسف تالپور جیسی قابلِ احترام شخصیت اُسے پنجاب کی بد عہدی کیسے سمجھتی ہے ۔
اسی ضمن میں جناب یوسف تالپور صاحب نے سندھ حکومت کے افسروں کی پنجاب کے بیراجوں پر تعیناتی کے حوالے سے یہ ذکربھی کیا ہے کہ اُن کے لئے کارِ سرکار کی ادائیگی میں مشکلات پیدا کی جاتی ہیں ۔ میری اپنی تحقیق کے مطابق یہ کہانیاں اُن افسروں نے جان بوجھ کر پھیلائی ہیں جن کو اپنے گھروں سے دور صرف پانی کا بہائو دیکھنے کے لئےپنجاب کے دور دراز بیراجوں پر تعینات کر دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ1936-37 ء سے جاری ہے۔۔حقیقت چاہے کچھ بھی ہو ، اب ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ٹیلی میٹری سسٹم کے ذریعے ہر بیراج اور ہر نہر کے دہانے پر پانی کے بہائو کو بیک وقت کسی بھی جگہ دیکھا جاسکتا ہے۔میرے مضامین میں بڑی وضاحت کے ساتھ ٹیلی میٹری سسٹم لگانے کی سفارش کی گئی ہے ۔
ایک اور نکتہ جو جناب یوسف تالپورصاحب نے اُٹھایا ہے ، وہ کوٹری بیراج سے دریائے سندھ میں پانی کے بہائو سے متعلق ہے ۔ 1991ء کے معاہدے میں یہ طے ہوا تھا کہ اس بارے میں مطالعات کرائے جائیں گے کہ کوٹری سے نیچے کم از کم کتنا پانی چھوڑنا چاہیے ؟ بین الاقوامی ماہرین نے مذکورہ مطالعہ مکمل کیا ۔ ان کی رپورٹ میں یہ سفارش کی گئی ہے کہ 5 ملین ایکڑ فٹ پانی سیلاب کے دنوں میں اور اس کے علاوہ 3.6 ملین ایکڑ فٹ پانی ان دنوں میں جب پانی کا بہائو کم ہوجائے، کوٹری سے زیریں جانب چھوڑا جائے۔ میرے خیال میں جب کالا باغ ڈیم پر سمجھوتہ ہوگا تو پانی کی جو مقدار اس ڈیم میں ذخیرہ کی جائے اُسے کوٹری بیراج کے زیریں علاقوں کو بھی مہیا ہونا چاہئے۔ جس میں یہ پانی وقفہ وقفہ کے ساتھ ان دنوں میں مہیاکیا جائے جب دریا میں پانی کا بہائو ختم یا کم ہوجاتا ہے۔ تالپور صاحب کا کہناہے کہ کالا باغ ڈیم سے اتنی بجلی پیدا نہیں ہوگی، جس کا دعویٰ کیا جارہاہے ۔ اس ضمن میں، میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ کالا باغ ڈیم کے بین الاقوامی ماہر ین کی رائے کے مطابق کالا باغ ڈیم سے جو بجلی پیدا ہوگی ، واپڈا نے ہمیشہ اسی کا ذکر کیا ہے ۔
نواب صاحب نے اس خوف کا اظہار بھی کیا ہے کہ ’’ کالا باغ ڈیم سے سندھ کو پانی نہیں ملے گا اور راستے میں ہی ختم ہو جائے گاکیونکہ ابھی سے ہی نہریں بننا شروع ہوگئی ہیں اوریہ بھی کہ منصوبہ دراصل سندھ کو بنجر کرنے کی سازش ہے اور اس کا لیور پنجاب میں کیوں بنایا جارہا ہے ‘‘اس ضمن میں میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ کالا باغ ڈیم کے خلاف اس قسم کی باتیں اس وقت ہونا شروع ہوئیں جب صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ نہیں ہوا تھا ۔ 1991 ء میں یہ معاہدہ ہوا اور اس کے تحت ارسا ایک بین الصوبائی ادارے کے طور پر وجود میں آیاجس کے ذمے معاہدے کے مطابق پانی کو تقسیم کرنا تھا۔ ارسا کے قانون میں ہر صوبے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگراُسے پانی کی تقسیم کے حوالے سے کوئی شکایت ہے تووہ مشترکہ مفادات کی کونسل سے رجوع کر سکتا ہے ۔ اگر وہاں اس کی داد رسی نہ ہو تو وہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب کر سکتا ہے ۔ پانی کی تقسیم کے حوالے سے اخباروں اور میڈیا میں بہت کچھ سننے میں آتا رہتا ہے۔ مگر وفاقی حکومت کے ریکارڈ کے مطابق آج تک کسی صوبے نے پانی کی تقسیم کے حوالے سے ارسا کے کردار پر انگلی نہیں اُٹھائی۔
اسی طرح کالا باغ ڈیم کا ’’لیور‘‘ پنجا ب میں ہونے سے زیریں علاقے کو پانی کی ترسیل پر کوئی اثر پڑسکتا ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں عرض ہے کہ کالا باغ ڈیم سے پانی کی تقسیم نہیں ہوگی کیونکہ یہ ایک پانی ذخیرہ کرنے کا ذریعہ ہے اور اس میں ذخیرہ کیا ہوا پانی کالا باغ کے مقام سے دور نیچے بنے ہوئے بیراجوں سے نکالی ہوئی نہروں کے ذریعے تقسیم ہوگا ،جو آج بھی آبپاشی کے لئے استعمال ہورہی ہیں ۔ مجھے یہ بات کبھی بھی سمجھ نہیں آسکتی کہ کالا باغ ڈیم میں کسی لیور کا کیا مطلب ہے کیونکہ کالا باغ سے پانی تقسیم ہی نہیں ہو سکتا۔تالپور صاحب نے نہروں کے جن زیر تکمیل منصوبوں کا ذکر کیا ہے، ان میںایک بھی پنجاب کا نہیں ہے ۔تاہم پانی کی تقسیم تو بہر حال 1991ء کے معاہدے کے تحت ہی ہوگی اور اس معاہدے کے تحت ہونے والی تقسیم پر آج تک کوئی باضابطہ اعتراض نہیں کیا گیا ۔
ایک نکتہ جس کاذکر ضروری سمجھتاہوں کہ کالا باغ ڈیم کب بھرا جائے گا اور کب خالی کیا جائے گا ؟ اس بات پر زیریں علاقے کو تحفظات ہوسکتے ہیں اور ان کا ازالہ کرنا ضروری ہے ۔ اس ضمن میں یہی عرض کرنا مناسب ہوگا کہ جب کالا باغ ڈیم پر سمجھوتہ کرنے کا وقت آئے تو سندھ کے خدشات کو مد نظر رکھ کر اسے پوری طرح مطمئن کیا جائے اور اگر ڈیم کو بھرنے کے عرصے کے اوقات پر کسی قسم کا اختلاف ہو توسندھ کو باقاعدہ ویٹو کا حق دیا جائے۔
تالپور صاحب نے دیا مر بھاشا ڈیم کا ذکر کیا اور غالباً کسی غلط فہمی کی بنیاد پر یہ لکھ دیا کہ اس میں پانی کا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کا لا باغ ڈیم کے 6.1ملین ایکڑ فٹ کے مقابلے میں 7.6ملین ایکڑ فٹ ہے ۔ حقیقت تھوڑی مختلف ہے ۔ کالاباغ ڈیم میں قابلِ استعمال پانی کا ذخیرہ 6.1 ملین ایکڑ فٹ، جبکہ دیا مر بھاشا ڈیم میں 6.4 ملین ایکڑ فٹ ہے ۔ جسے Live Storageکہا جاتا ہے۔ میرا ہمیشہ سے یہ سوال رہا ہے کہ دیا مر بھاشا ڈیم اور کالا باغ ڈیم دونوں دریائے سندھ پر واقع ہیں، دونوں میں پانی ذخیرہ کیا جائے گا ، دونوں بجلی بنانے کے کام آئیں گے اور دونوں سے سیلابی پانی کو روکا جاسکے گا ۔
اگر دیا مر بھاشا ڈیم پر کوئی اعتراض نہیں تو کالا باغ ڈیم پر اعتراض کیوں؟اِن دونوں منصوبوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ جس کی منظوری نہیں دی گئی وہ دوسرے کی نسبت تقریباً آدھی قیمت میں اور کافی کم مدت میں مکمل ہو سکتا ہے۔آخر میں تالپور صاحب نے کہا ہے کہ ’’ خیبر پختونخوا کے پانچ زرخیز اضلاع پشاور ، نوشہرہ ،مردان ، صوابی اور چار سدہ سیم اور تھور کا شکار ہوکر بنجر ہو جائیں گے ‘‘۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ خیبر پختونخوا کی اُس وقت کی حکومت کے کہنے پر جس کنسلٹنٹ کو تعینات کیا گیا تھا اُس نے نوشہرہ کے ڈوبنے کے بارے میں اپنی رپورٹ میں اِن خدشات کی نفی کی تھی ،میں نے اپنے مضمون میں یہ پیش کش کی ہے کہ اگر خیبر پختونخوا کی حکومت نئے سرے سے اپنی مرضی کے کسی کنسلٹنٹ کا تقرر کرنا چاہتی ہے تو وہ ان اسٹڈیز کی دوبارہ پڑتال کراسکتی ہے۔
میرے لکھے ہوئے مضامین میں صرف حقائق بیان کئے گئے ہیں اور میں اِس بات کا برملا اظہار کر چکا ہوں کہ اگر اُن میں کچھ بھی غلط ثابت ہو جائے تو میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائوں گا ۔
اِن مضامین کو انگریزی ، اردو اور سندھی زبان میں تحریر کیاگیا مگر بد قسمتی سے وہ سندھی اخبارات میں نہیں چھپ سکے ۔مگر یہ مضامین تینوں زبانوں میں واپڈا کی ویب سائٹ www.wapda.gov.pk پر موجود ہیں ۔


.