انسان بھی کیا شے ہے

August 03, 2014

امریکی ریاست شکاگو میں مشی گن جھیل کے کنارے ایستادہ ایک خوبصورت ہوٹل جس کا نام The Edgewater Beach Hotel ہے،اسے حقیقت پر مبنی ایک عبرتناک کہانی کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔21 مئی 1923ء کی ایک شام یہاں دنیا کے چند کامیاب ترین انسان جمع ہوئے اور ہر ایک نے اپنی کامیاب زندگی کے بنیادی اصول بیان کئے۔ یہ سب کے سب اپنے دور کے امیر ترین افراد تھے۔ ان کی مجموعی دولت کا تخمینہ لگایا جائے تو امریکہ کے زرمبادلہ کے ذخائر سے زیادہ تھی۔ قسمت کے دھنی ان ارب پتی اشخاص میں امریکہ کی سب سے بڑی نجی اسٹیل کمپنی کا صدر چارلس شواب تھاجو کاروبار کی دنیا کا آئرن مین کہلاتا تھا۔ شمالی امریکہ کی سب سے بڑی گیس کمپنی کا سربراہ ہوورڈ ہوب سن موجود تھا،تیسرے خوش قسمت فرد کا نام رچرڈ وٹنی تھا اور اسے سب نیویارک اسٹاک ایکسچینج کے صدر کی حیثیت سےجانتےتھے۔ میٹنگ روم کی چوتھی نشست پر Edison General Electric company کا مالک سیموئل انسل براجمان تھا۔ اس کے ساتھ امریکی صدر ہربرٹ ہوور کی کابینہ کے وزیر البرٹ فال موجود تھے۔ چھٹی کرسی آئیور کروگر کی تھی جو امریکہ کی سب سے بڑی مناپلی یعنی اجارہ داری کے سربراہ تھے۔ ان کے ساتھ جیسی لیور مور تشریف فرما تھے جو وال اسٹریٹ میں حصص کے وسیع کاروبار کے حوالے سے پہچانے جاتے تھے،آٹھویں نشست پر The Great commodity speculatorکے بے تاج بادشاہ آرتھر کیوٹن موجود تھے جن کا تعلق کینیڈا سے تھا مگر امریکہ آ کر ارب پتی کلب میں شامل ہوئے،سب سے آخری سیٹ پر بیٹھے شخص کا نام لیون فریزر تھا اور وہ نیویارک کے پہلے قومی بنک اور بنک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹ کے صدر تھے۔ ان 9امیر ترین افراد کے جمع ہونے کا مقصد ایک دوسرے کے تجربات و مشاہدات سے مستفید ہونا تھا۔ ان سب نے اپنی کامیابی کے بنیادی اصول بیان کئے اور بتایا کہ دولت کس طرح جمع کی جا سکتی ہے۔ لوگوں کو ان سے ملنے اور ان کی باتیں سننے کا بہت اشتیاق تھا کیونکہ یہ سب دولت کمانے اور امیر ہونے کا گُر جانتے تھے۔ سب کے دل میں یہ آرزو تھی کہ ان ارب پتی افراد سے کامیابی کا راز معلوم ہوجائے تو پیسے کی ریل پیل ہواورزندگی سنور جائے۔ یہ خواہش اس وقت کے افراد تک محدود نہیں بلکہ آج بھی لوگ بل گیٹس،وارن بفٹ ،کارلوس سلم اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے ارب پتیوں سے ملنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کے لیکچر سننے اور کتابیں پڑھنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ ہمارے ہاں کتابیں خریدنے کا رجحان بھلے کم ہو چلا لیکن آج بھی یا تو رومانوی ناول ہاتھوں ہاتھ بکتے ہیں یا پھر اس نوع کی کتابیں ہاٹ کیک کی طرح فروخت ہوتی ہیں جن میں کامیاب زندگی گزارنے یعنی دولت کمانے کے طریقے بتائے گئے ہوں۔ لیکن مال و زر کو کامیابی سمجھنے والے ان 9ارب پتی اشخاص کے ساتھ کیا ہوا؟ دنیا سے تو ہر شخص خالی ہاتھ جاتا ہی ہے مگر دنیا میں رہتے ہوئے دولت کیسے مٹھی میں بند ریت کی مانند بکھرتی چلی گئی ؟دولت کی بے ثباتی اور ان اُمراء کے المناک انجام کو زمانے نے اس لئے فراموش کردیا کہ دھن دولت کی خدائی برقرار رہے۔ آئندہ 25برس کے دوران بخت نے منہ موڑا تو دنیا کے نو امیر ترین افراد میں سے سب سے بڑی نجی اسٹیل کمپنی کا مالک چارلس شواب دیوالیہ ہونے کے بعد اُدھار لیکر زندگی کے دن پورے کررہا تھا اور اس نے سگریٹ کے دھویں سے بھرپور ایک چھوٹے سے فلیٹ میں دم توڑدیا۔ سب سے بڑی گیس کمپنی کا مالک ہوورڈ ہوب سن دماغی توازن کھو بیٹھا اور زندگی کے آخری دن یوں گزارے کہ ہر شخص کو اس کی حالت دیکھ کر ترس آتا۔ نیو یارک اسٹاک ایکسچینج کے صدر رچرڈ وٹنی نے سنگ سینگ کے اصلاحی قید خانے میں زندگی کے دن پورے کئے۔ امریکی وزیر البرٹ فال ایک ایسے مقدمے میں گرفتار ہوا کہ مال دولت تو کیا مقام و مرتبہ اور سیاسی کیریئر بھی ختم ہوگیا۔ جیل میں سڑ رہا تھا کہ اس کی سزا علیل اور قریب المرگ ہونے کی وجہ سے معاف کر دی گئی۔ بنک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹ کے صدرلیون فریزر،Edison General Electric company کے مالک سیموئل انسل ،امریکہ کی سب سے بڑی مناپلی کے کرتا دھرتا آئیو کروگراور وال اسٹریٹ میں حصص کا کاروبار کرنے والے سیٹھ جیسی لیور مور نے ناموافق حالات اور پریشانیوں سے تنگ آ کر خود کشی کر لی۔
یہ ان 9ارب پتی افراد کی داستان حسرت نہیں بلکہ دولت کی بے وفائی کی یہ کہانیاں ہر ملک،ہرمعاشرے اور ہر شہر میں بکھری پڑی ہیں ۔آپ اپنے اردگردنظر دوڑائیں ،آپ کو بےشمار ایسے سیٹھ نظر آئیں گے جنہوں نے تنکا تنکا کر کے دولت کا آشیانہ بنایا مگر جب اپنے گھونسلے پر اترانے والے تکبر اور گھمنڈ میں مبتلاء ہوئے تو رب قہار کی طرف سے بھیجا گیا ہوا کا کوئی بے رحم جھونکا ان کے آشیانے کو خس وخاشاک کی طرح اڑا لے گیا۔ انسان بھی کتنا کم ظرف ہے ،ذرا سی دولت ملنے پر بے کنار ہونے لگتا ہے اور خود کو خدا سمجھنے لگتا ہے۔ میرے رب کی طرف سے دولت کے حصول پر تو کوئی قدغن نہیں اور اس حوالے سے آئندہ کسی کالم میں تفصیل سے معروضات پیش کروں گا مگر جولوگ دھن دولت کو خدا سمجھنے لگتے ہیں یا پھر مال و زر کے بل بوتے پر خدائی دعویٰ کر بیٹھتے ہیں، انہیں زندگی میں ہی عرش سے فرش پر پھینک دیا جاتا ہے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کتنے سیٹھ سڑک چھاپ بھکاری بن گئے اور کتنے ہی گداگر مالدارہو گئے۔ انسان کے عروج و زوال کی داستانیں چارسو بکھری پڑی ہیں مگر جس کے پاس کوٹھی بنگلہ کار اور بینک بیلنس آجاتا ہے وہ خود کو قارون سمجھ کر اپنے جیسے انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مسلنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کوشش میں ایک دن خود بھی حشرات الارض کی طرح کچل دیا جاتا ہے۔ ان سیٹھوں کو خیال ہوتا ہے کہ ان کی چاکری کرنے والوں کا رزق سیٹھ کی تجوری میں بند ہے لیکن ایک دن ایسا بھی آتا ہے جب سیٹھ خود پائی پائی کا محتاج ہوجاتا ہے اور پھر اسے احساس ہوتا ہے کہ رزق دینے اور لینے والی ذات کوئی اور ہے۔ میں اپنے معاشرے کے ہر سیٹھ کو دولت پر اِتراتے اور تکبر کے راستے پرجاتے دیکھتا ہوں تو شیخ سعدی کا ایک خوبصورت اور فکر انگیز قول یاد آتاہے اور سوچتا ہوں واقعی یہ انسان بھی کیا شے ہے۔۔۔!!!!شیخ سعدی انسان کی فطرت پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں ،یہ انسان بھی کیا شے ہے،دولت کمانے کے لئے اپنی صحت دائو پر لگا دیتا ہے اور پھر صحت پانے کے لئے محنت سے کمائی دولت بے دریغ لٹاتا چلاجاتا ہے۔ مستقبل کی فکر میں اپنا حال بد حال کر لیتا ہے اور پھر مستقبل میں اپنے ماضی کی یادوں کو گلے لگا کر روتا رہتا ہے۔ جیتا تو ایسے ہے کہ جیسے کبھی مرنا ہی نہیں اور مر ایسے جاتا ہے جیسے کبھی جیا ہی نہ تھا۔ واقعی یہ انسان بھی کیا شے ہے....!!!