عمران خان: امکانات

August 06, 2014

پچھلے دنوں جتنے بھی عوامی رائے کے بارے میں سروے کئے گئے ان میں تحریک انصاف یا تو مقبول ترین پارٹی قرار پائی یا کم از کم اس کی مقبولیت حکمران پارٹی سے کم نہیں تھی۔ تحریک انصاف کے متعدد کامیاب جلسے بھی اس کے ابھار کے اشاریے ہیں۔ عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ان کے پیروکار ان کی ذاتی زندگی کے منفی پہلووں کو مکمل نظر انداز کر رہے ہیں۔غالباً یہی مقبولیت کا احساس ہے کہ عمران خان لانگ مارچ کے ذریعے حکومت کا تختہ گرانا چاہتے ہیں۔ لیکن عمران خان ریاست کو سدھارنے کے لئے جس مسافت پر روانہ ہو رہے ہیں اس کا رخت سفر ان کے پاس نہیں ہے۔ نہ تو ان کی پارٹی لیڈرشپ تبدیلی کی اہل ہے اور نہ ہی ان کے پاس ایسے پروگرام ہیں۔
عوامی جائزوں کے مطابق حکمران پارٹی کی مقبولیت ایک سال کے اندر اندر کم ہوئی اور اس کا فائدہ تحریک انصاف کو ہوا ہے۔ بعض مبصرین کی رائے میں تحریک انصاف کی مقبولیت میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا صرف حکمران پارٹی کی مقبولیت میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔ حکمران پارٹی لوڈ شیڈنگ سے لے کر مہنگائی جیسے مسائل کا کوئی حل پیش نہیں کر سکی جس کا اس نے وعدہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ حکومت کو معیشت کی بحالی کے لئے غیر مقبول فیصلے کرنا پڑے جیسے بجلی کی قیمت میں اضافہ۔ اگرچہ حکومت نے میکرو سطح پر معیشت کو پٹڑی پر لانے میں کافی کامیابی حاصل کی لیکن اس سے تا حال عوام کو کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ لہٰذا عوام کا ایک بہت بڑا حصہ ملک میں متبادل لیڈر شپ دیکھنے کا خواہاں نظر آتا ہے۔
عمران خان شروع سے ہی اپنے آپ کو ایک متبادل نظام کے داعی کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ وہ روایتی سیاست کی حدود کو پھلانگ کر ایک شفاف نظام قائم کرنے کا خواب بیچتے رہے ہیں۔ ان کے درمیانے طبقے کے پیروکار بھی روایتی سیاسی سوچ کے حامل نہیں ہیں۔ ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو شایدزندگی میں پہلی مرتبہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس میں بہت بڑا طبقہ وہ ہے جو پہلے ریاست کے اندر اپنے مقاصد حاصل کر لیتا تھا اور شاید اب بھی وہ مراعات یافتہ طبقوں کا حصہ ہو لیکن اس کو احساس ہے کہ جب تک ریاست کا کلی نظام درست نہیں ہوتا ذاتی حصول بے معنی ہے۔ ملک میں بدلتی ہوئی معیشت اور گلوبلائزیشن سے ایک بہت بڑا درمیانہ طبقہ وجود میں آیا ہے جو پچھلی دو تین دہائیوں سے ریاست میں اپنی نمائندگی کا خواہاں ہے۔ اسی نئے درمیانے طبقے نے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کی جگہ مسلم لیگ (ن) کو ابھارا اور اب اسی طبقے کے دوسرے حصے عمران خان کی تحریک انصاف کو مسند اقتدار پر بیٹھا دیکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں پہلا سیاسی ابھار ساٹھ کی دہائی میں آیا جو ان طبقات کا مرہون منت تھا جو آزادی کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ آج کے پاکستان میں آزادی سے پیشتر مسلمانوں کے شہری درمیانے طبقات نہ ہونے کے برابر تھے۔ لیکن آزادی کے بعد ہندووں اور سکھوں کی ہندوستان ہجرت کی وجہ سے نئے شہری طبقات پیدا ہوئے۔یہ طبقات جاگیردارانہ نظام کی نفی کرتے ہوئے پاکستان میں ایک فلاحی ریاست کا خواب دیکھ رہے تھے۔ آخر کار ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میںپیپلز پارٹی کے دانشوروں، طلباء مزدوروں اور کسانوں نے تحریک کی رہنمائی کی۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی مروجہ نظام کی مکمل نفی کرتے ہوئے روایتی سیاستدانوں کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت کے لئے تیار نہیں تھے۔ نتیجتاً جنرل یحییٰ خان نے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیاجو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ختم ہوا۔ اگر ملک دولخت نہ ہوتا تو شاید فوج ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار منتقل نہ کرتی۔ اس وقت نوے ہزار پاکستانی فوجی ہندوستان کی قید میں تھے اور فوج کے حوصلے پست تھے لہٰذا انتقال اقتدار ایک طرح سے مجبوری تھی۔
پاکستان میں دوسرا سیاسی ابھار 1977 میں آیا جو دراصل پیپلز پارٹی کے خلاف رد انقلاب تھا۔ پاکستان قومی اتحاد کی سربراہی میں یہ تحریک پیپلز پارٹی کے عوامی حلقوں کے ردعمل میں وجود میں آئی تھی۔ اگرچہ بھٹو صاحب نے معیشت اور سیاست میں بہت بڑی بڑی غلطیاں کی تھیں لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی مقبول ترین پارٹی تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی مارشل لا نافذ کر کے نوے دن میں انتخابات کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ وعدہ ان کی زندگی میں ایک دہائی کے عرصے میں پورا نہیں ہوا۔ اگرچہ 1988میں بینظیر بھٹو کی سرکردگی میں پیپلز پارٹی واپس اقتدار میں آگئی لیکن پوری نوے کی دہائی میں سیاسی استحکام ناپید تھا اور پس پردہ مقتدر اداروں کا غلبہ تھا۔پھر 1999میں جنرل پرویز مشرف نے ایک اور مارشل لا نافذ کردیا ۔
سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ پچھلے چالیس سال میں پاکستان کی معیشت بلکل تبدیل ہو چکی ہے اور اس میں نئے طبقات پیدا ہو چکے ہیں۔ یہ طبقات پیپلز پارٹی کی پیروی کرنے والوں سے بہت مختلف ہیں۔ اب جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خلاف نعرے زیادہ پر کشش نہیں ہیںبلکہ اب سرمایہ داری نظام کی نشوونما اور ارتقاء بنیادی مقصد بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے روایتی نعرے بے اثر ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اس نے تاثر پیدا کیا کہ وہ صنعتی ترقی اور ملک میں نیا انفرا سٹرکچر بنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے پیروکاروں میں صنعتکار اور تاجر طبقے صف اول میں ہیں۔ یہ طبقے نظام کے اندر رہتے ہوئے تبدیلیوں کے خواہش مند ہیں۔ اس کے برعکس تحریک انصاف کی پیروی کرنے والے درمیانے طبقات پورے نظام کو بدلنے کے لئے بیقرار ہیں ۔
تحریک انصاف کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی لیڈر شپ مراعات یافتہ طبقوں سے تعلق رکھتی ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ اس لیڈر شپ کی وہ دانشورانہ فہم و فراست بھی نہیں ہے جو ستر کی دہائی میں پیپلز پارٹی کی تھی۔ جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن، خورشید حسن میر، حنیف رامے جیسے درمیانے طبقے کے لوگوں نے پیپلز پارٹی کا بنیادی ڈھانچہ بنایا تھا۔ تحریک انصاف میں اس طرح کی فکری گہرائی ناپید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کا کوئی ٹھوس سیاسی و معاشی پروگرام سامنے نہیں آیا اور وہ خیبر پختونخوامیں اپنی حکومت ہونے کے باوجود وہ کوئی مختلف اور بہتر کارکردگی نہیں دکھا سکی۔ اگرچہ خیبر پختونخوا میں اوپر کی سطح پر کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس معاملے میں تو مسلم لیگ (ن) کے بارے میں بھی کوئی بڑا سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ ویسے بھی کرپشن کم ہونا کاایک اچھا اشاریہ ہے لیکن ریاست کی گورننس کافی پیچیدہ عمل ہے جس کے لئے تحریک انصاف کی تیاری ناکافی نظر آتی ہے۔تحریک انصاف کے رہنماؤں کے پاس ذوالفقار علی بھٹو جیسا گورننس کا تجربہ بھی نہیں ہے۔ اس لئے اگر اس کی حکومت قائم ہو بھی جائے تو وہ زیادہ کچھ تبدیل نہیں کر سکتی۔
تحریک انصاف لانگ مارچ اور عوامی دھرنوں سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لئے بہت بڑا بحران پیدا کر سکتی ہے لیکن اس کافوری طور پر حکومت قائم کرنے کا خواب شاید شرمندہ تعبیر نہ ہو۔اگر حالات حکمران پارٹی کے قابو سے باہر ہو جاتے ہیں تو ظاہر بات ہے کہ فوج کو دراندازی کرنا پڑے گی۔اس کا سارا الزام تحریک انصاف کو دیا جائے گا اور ممکن ہے کہ عوام کی ہمدردیاں دوبارہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہو جائیں۔ غرضیکہ تحریک انصاف کے فوری حکومت قائم کرنے کے امکانات بہت کم ہیں۔