ہم پہ جو گزری سو گزری یا الٰہی خیر ہو

September 01, 2014

سیاست اور جمہوریت کے یا جوج اور ماجوج کئی دن سے دیوار اقتدار کو چاٹنا شروع کرتے اور رات کو امید لگا کر سو جاتے کہ کل دیوار اقتدار ڈھے جائے گا مگر ان سے ایسا ہو نہ سکا ۔کہا یہ جاتا ہے کہ دیوار اقتدار کے ڈھنےکے بعد تبدیلی نظر آ جائے گی پھر انقلاب کا ترانہ بجایا جائے گا اور ترانے کے بعد ایک نئی صبح کا تصور ہو گا۔آخر وہ کونسا نقطہ تھا جب یہ فیصلہ کیا گیا کہ افواج پاکستان کو ثالث مان لیا جائے ۔ سب لوگ ایک ہی راگنی گا رہے ہیں کہ سیاست اور ریاست ناکام ہو گئی اور دونوں ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکے۔ اب اس میں کس کو دوشی قرار دیا جائے۔ ہاں عوام ہار گئے سٹاک مارکیٹ جیت گئی ۔ سرکار کی ایک ہی غلطی تھی کہ وہ احتساب نہ کرسکی ۔ نہ اپنا احتساب کیا اور نہ ہی سوچا کہ معاشرے کا ناسور بدنیتی ہے اور اس کے لئے احتساب اور انصاف ہی واحد حل ہے سو جب دیکھنے اور کرنے میں تاخیر ہو جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے آج کون خوش ہے ،کیوں خوش ہے اور عوام کی خوشی کا معیار کیا ہے عوام کی خوشی کا معیار ایک ہی ہے کہ ان کو زندگی گزارنے میں آسانی ہو اور قانون اور انصاف آزاد ہوں۔
ہمارے مہربان سابق جنرل احتشام ضمیر (کالم نگار جنگ ) کے والد محترم سید ضمیر جعفری سے ہماری بھی یاد اللہ تھی ۔میں نے ایک دفعہ ان کو جوش خطابت میں کہہ دیا حضرت آپ کی شاعری معاشرے کا ضمیر ہے وہ ناراض ہو گئے بولے کیوں شاعری کو بدنام کرنے لگے ہو میاںشاعری تو خوبصورت جواں ناری ہوتی ہے سب اپنی اپنی سمجھ سے اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں ۔ایسے سرپھروں کو تو ضمیر بھی نہیں سمجھا سکتا۔ ہاں شاعری ہرجائی ضرور ہوتی ہے اب بتائو ضمیر ہرجائی ہو سکتا ہے ۔ اب جو تم نے بولا اور سمجھا اس کو بھول جائو بات نکلتے نکلتے ان کی کتاب ’’ مسدس بدحالی‘‘ پر ہونے لگی۔کبھی کبھار حضرت ضمیر ترنگ میں آ جاتے مگر حالات حاضرہ پر ان کا تبصرہ خوب ہوتا اس زمانہ میں انتخابات کی بات ہو رہی تھی ۔ووٹ پربولے۔
یہ چنائو کا طریقہ بھی نری بکواس ہے
’’ووٹ‘‘ میرے پاس ہے اور ’’نوٹ تیرے پاس ہے
آج اتنے سال گزرنے کے بعد ہماری سیاست اور ریاست وسوسوں اور اندیشوں کا شکار ہے تو جھگڑا پھر دوبارہ ووٹ اور نوٹ کا نظر آ رہا ہے ۔نوٹ والے مانتے نہیں ووٹ والے جاگتے نہیں، نیتوں کا کھوٹ پورے سماج کو برباد کرنے پرتلا ہے ۔ اب کوئی بھی نعرہ حق بلند نہیں کرتا اگر نعرہ کسی کے حق میں ہو تو سب اس کا نام جاپتے ہیں ۔خواہ وہ سچ نہ ہو اور صرف حق ہو مقبول نہ ہو فقط قبول ہو، ایسے میں بربادی اور بے بسی لوگوں کا حوصلہ پست کرتی ہے۔امید کے چراغ حوصلے سے جلتے ہیں اور حوصلے کمزور، امید بے بس ہو تو تھوڑے بھی بہت کچھ کرنے کا عزم کر لیتے ہیں ۔
اس وقت ہماری سیاسی اشرافیہ جمہور کی جنگ میں تقسیم ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ پیپلز پارٹی اس ساری صورتحال میں کس کے ساتھ ہے اس کا کسی کو بھی معلوم نہیں ۔ایوان میں حزب اختلاف کے لیڈر خورشید شاہ کا کردار بہت ہی انوکھا سا لگ رہا ہے کبھی وہ مشورہ دیتے ہیں کہ اسمبلی کو بچانے کے لئے قربانی دینے میں عار نہیں ۔پھر وہ ایوان میں گرجتے اور برستے ہیں حلیف بھی پریشان ہیں فوج اگر سیاسی لوگوں کی مدد کرتی ہے تو سیاسی لوگ ہی فوج پر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ ایک طرف اسمبلی کی بقاء کی بات کر رہے ہیں دوسری طرف حزب اختلاف کے لیڈر نے جو جوشیلی تقریر کی وہ قابل عمل نظر نہیں آتی ۔ جب آپ کا قول اور کردار ایسا ہو کہ ایک طرف تو آپ آئین کو مقدم جانیں دوسری طرف آپ ان اصولوں اور قواعد کو نظر انداز کر دیں جو آئین آپ کے لئے مقرر کرتا ہے تو گرجنے کی ضرورت کیا ہے ایک طرف پارٹی کے سربراہ بہت طریقے سلیقے سے بات کرتے ہیں اور فوج کو ان معاملات سے دور رکھتے ہیں اوردوسری طرف الزام تراشی بھی ہوتی ۔قادری اور کپتان کی حکمت عملی غلط ہو سکتی ہے اگر وہ فوج کو حیثیت اور اہمیت دیتے ہیں تو ان کو ہلا شیری دینے کی ضرورت نہیں تھی اس پس منظر میں چودھری نثار جس طریقہ سے بات چیت کرتے رہے ہیں اس پر اعتماد کرنا ضروری تھا ناکہ آپ سب پر الزام تراشی شروع کر دیں ۔
اب ایک نئی بحث کا آغاز ہو چکا ہے اب یار دوست ،ضامن، ثالث اور سہولت کار کا مطلب دیکھ رہے ہیں فوج پاکستان کے دفاع کی ضامن ہے۔اب ثالث کے حوالہ سے دیکھیں تو فوج کے لئے ایسے کردار کا تعین کرنا مناسب نہیں ۔ فوج ہمیشہ سرکار کی مدد کرنے کی پابند ہے ۔ اسمبلی میں بیٹھے لوگ بھی قوت فیصلہ سے محروم ہوتے جا رہے ہیں ۔ کیا اس طریقہ سے یہ معمہ حل ہو جائے گا ۔ اس وقت پورا پاکستان بے چین ہے میں حیران ہوں اتنے سال پہلے جب پاکستان میں کوئی بحران نہیں تھا اس وقت ہمارے دانشور اور شاعر کیا سوچتے تھے اور کس طرح دیکھتے تھے ۔میاں صاحب کو عوام کے بہتر مفاد میں فیصلہ کرنا ہے۔سب لوگوں کو پاکستان کا مفاد دیکھنا چاہئے مگر یہ سب کچھ اب آسانی سے طے ہوتا نظر نہیں آتا عوام کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اب تو اس زمانہ میں نہ شاعری ہے اور نہ ایسے دانشور ہیں جو حالات کے مطابق سرکار کو مشو رہ دے سکیں ۔ مگر اس سیاسی سفر میں ہماری منزل ابھی دور بہت دور ہے بلکہ یہ سفر طے ہوتا نظر نہیں آتا ۔سیاسی لوگ اب بھی اپنے مفادات کے تابع نظر آتے ہیں اور وہ ملک اور عوام کے مفاد میں سوچنا مناسب نہیں سمجھتے یہ سب کچھ ہمارے مستقبل کو مشکوک بنا رہا ہے ۔
اس وقت جو سیاسی دنگل جمہوریت کے نام پر جاری ہے وہ مسلم لیگ نواز کے موقف کو کمزور کر رہا ہے۔اگر آپ متنازعہ ہیں آپ پر الزام لگ رہا ہے تو اصولی طور پر آپ کو دستبردار ہو جانا چاہئے ۔جب دعوے بہت ہوں اور بتانے کو کچھ نہ ہو تو یہ جمہور کی کونسی خدمت ہے آئین پاکستان اصول پسندی اور قانون پسندی کا قاعدہ نہیں ہے وہ اصول اور قانون کے فرمودات کا ترجمان ہے ۔ مجھے یوں لگ رہا ہے کہ ہماری آزادی اور خودمختاری مشکوک ہے وزیر خزانہ کو ملک کی فکر نہیں ان کو فکر ہے سٹاک مارکیٹ کی ۔ کیا پاکستان کے عوام سٹاک مارکیٹ سے رزق کماتے ہیں سٹاک مارکیٹ تو بڑے لوگوں کا کاروبار ہے ان کو اس کی فکر ہے ۔عوام کی نہیں، ایسے میں فوج کیا سوچتی ہے جبکہ ایم کیو ایم نے فیصلہ دے دیا کہ فوج کو مداخلت کا حق ہے کپتان اور ڈاکٹر قادری کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ۔مگر میاں صاحب کا سب دائو پر لگا ہے وقت کم ہے سوچنا اور قربانی دینی ضروری ہے ورنہ سیاسی بدحالی میں اضافہ ہوتا رہے گا ضمیر جعفری نے یہ شعر اس وقت لکھے تھے جب ملک ٹوٹا نہ تھا مگر اب بھی سب کچھ ویسا ہے ؎
سیاست کا ہر پہلوان لڑ رہا ہے
یہاں لڑ رہا ہے وہاں لڑ رہا ہے
بیاں کے مقابل بیاں لڑ رہا ہے
’’حساب دل دوستاں‘‘ لڑ رہا ہے
ستارہ نظر مہ جبیں لڑ رہے ہیں
یہ حد ہے کہ پردہ نشیں لڑ رہے ہیں