فریب ِ ناتمام

September 01, 2016

یہ دسمبر 1997ء کی ایک سرد شام تھی۔ اسلام آباد کے بلوچستان ہائوس میں نواب اکبر بگٹی کے ساتھ ایک طویل انٹرویو میں سعید قاضی اور عصمت ہاشوانی میرے ساتھ تھے۔ بگٹی صاحب اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کے اتحادی تھے اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ اختر مینگل کی حمایت کررہے تھے۔ میں ان سےبار بار پوچھ رہا تھا کہ کبھی آپ غدار بن جاتے ہیں کبھی پاکستان کے وفادار بن جاتے ہیں یہ کھیل کب بند ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ جب پنجاب کو ضرورت نہیں ہوتی ہمیں غدار کہہ دیتا ہے جب ضرورت پڑتی ہے وفادار بنا لیتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ جب سید جعفر علی خان نجفی عرف میر جعفر کےپڑپوتے میجر جنرل اسکندر مرزا نے ری پبلکن پارٹی بنائی تھی توکیا آپ کو اس پارٹی میںشامل ہونے کا مشورہ کسی پنجابی نے دیا تھا؟ اس پارٹی میں شامل ہو کر خان عبدالغفار خان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب مغربی پاکستان کے وزیراعلیٰ بن گئے اورآپ رکن اسمبلی بن گئے پھر آپ کو وزیر داخلہ اور وزیر دفاع بھی بنایا گیا۔ جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگا کرآپ کو جیل میں ڈال دیا وہ بھی پنجابی نہیں تھے۔ بگٹی صاحب نے مجھے کہا کہ تم پنجابی النسل نہیں ہو پھر پنجاب کا دفاع کیوں کررہے ہو؟ میں نے عرض کی کہ جناب آپ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک کشمیری النسل وزیراعظم کے اتحادی ہیں لہٰذا پنجاب پر تنقید آپ کو زیب نہیں دیتی۔ پھر میں نے یہ بھی پوچھ ڈالا کہ 1973ء میں بلوچستان میں سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کو ذوالفقار علی بھٹو نے برطرف کیا اورپھر آپ نے گورنر کا عہدہ سنبھال لیا کیا آپ کو کسی پنجابی نے یہ عہدہ سنبھالنے پر مجبورکیا؟ بگٹی صاحب نے کمال برداشت اور تحمل کامظاہرہ کرتے ہوئے میرے سوال کا بڑی تفصیل کے ساتھ جواب دیا اورکہا کہ اچھی بات ہے تم میرا ماضی مجھے یاد دلا رہے ہو، ہمیں سچ بولنا چاہئے کیونکہ صرف سچ ہمیں تباہی سے بچا سکتا ہے توپھر یہ بھی پوچھو کہ جب جنرل ایوب خان نے قائداعظم کی بہن فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا اور صدارتی الیکشن میں مادر ملت کو شکست دیدی توپنجاب کہاں تھا؟ کیا ایوب خان کی اصل طاقت پنجاب نہیں تھی؟ جب مادر ملت کو غدار کہا گیا تو پنجاب خاموش کیوں رہا؟ بگٹی صاحب نے کہا کہ ہاں مجھ سے غلطی ہوئی مجھے 1973ء میں گورنر نہیں بننا چاہئے تھا لیکن ایک سندھی وزیراعظم نے پنجابی جرنیلوں کے دبائو پر نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگائی اس پر بغاوت کا مقدمہ بنایا پچاس ساٹھ لوگوں کو جیل میں ڈال دیا لیکن پھر اس سندھی وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکا کرجنرل ضیاء الحق نے نیپ کے گرفتار لیڈروں کو رہا کردیا اور جی ایم سید کو بھی گلے لگا لیا۔ اگرکوئی سندھی، بلوچ یا پختون لیڈر جی ایم سید کو گلے لگائے تو غدار لیکن کوئی پنجابی گلے لگائے تو یہ ملکی مفاد میں ہوتا ہے۔ بگٹی صاحب نے کہا کہ انہوں نے اختر مینگل کی حمایت کر کے سردار عطاء اللہ مینگل کے ساتھ 1973ء میں ہونے والی زیادتی کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور اب ہم نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے ہمیں جب بھی چھوڑیں گے وہی چھوڑیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ کچھ ماہ کے بعد اختر مینگل کو ہٹا کر جان جمالی کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا اور پھر اکبر بگٹی واپس اسلام آباد نہیں آئے۔
نواب اکبر بگٹی کی باتیں آج مجھے پھر یاد آرہی ہیں۔ پاکستان میں سب سے غلطیاں ہوئیں لیکن غلطیوں کا اعتراف کوئی کوئی کرتا ہے اور کفارہ ادا کرنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ حکومت پاکستان نے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے خلاف ایک ریفرنس برطانوی حکومت کوبھیج دیا ہے۔ جب سے الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز گفتگو کی ہے تو یہ سوال زیربحث ہے کہ اگر 1975ء میں نیپ پر پابندی لگ سکتی ہے تو ایم کیو ایم پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاسکتی؟ نیپ کیخلاف کارروائی اورایم کیو ایم کے خلاف کارروائی کو تاریخی تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ نیپ نے 1971ء میں پاکستان بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ غوث بخش بزنجو اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ وہ ولی خان کے ساتھ ڈھاکہ گئے اورشیخ مجیب الرحمان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ خدارا پاکستان نہ توڑو جس پر شیخ صاحب نے کہا کہ 1947ء میں آپ لوگوں کے سامنے میں نے ہاتھ جوڑے تھے کہ پاکستان کی مخالفت نہ کرو آج تم مجھے کہتے ہو پاکستان نہ توڑو، پاکستان میں نہیں وہ توڑ رہے ہیں جو 1970ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والوں کو اقتدار نہیں دے رہے۔
نیپ کی قیادت نے 1973ء کا آئین بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا لیکن ذوالفقار علی بھٹو نیپ کے ساتھ نہ چل سکے۔ انہوں نے کچھ فوجی جرنیلوں کی بلوچستان میں کی جانے والی کارروائیوں پر خاموشی اختیار کی اور اپنی غلطیوں کا اعتراف اپنی کتاب ’’افواہ اور حقیقت‘‘ میں کیا۔ ولی خان اور عطاء اللہ مینگل کے خلاف پہلی چارج شیٹ اکبر بگٹی نے 31 جنوری 1973ء کو لاہور میں پیش کی تھی لیکن نیپ پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ نیپ پر پابندی پیپلز پارٹی کے رہنما حیات محمد خان شیر پائو کے پشاور میں قتل کا ردعمل تھا۔ شیر پائو 8 فروری 1975ء کو پشاور یونیورسٹی میں بم دھماکے کا نشانہ بنے اور 10فروری 1975ء کو وفاقی حکومت نے نیپ پر پابندی لگا دی۔ سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس داخل کیاگیا اور ولی خان کو پاکستان کا دشمن قرار دیا گیا لیکن انہوں نے الزامات مسترد کردیئے۔ حکومت نے سپریم کورٹ میں ولی خان کی تقاریر کے کچھ ٹیپ اور 14 جنوری 1974ءکے اخبارات کے تراشے پیش کئے جن میں ولی خان نے کہا تھا کہ برطانیہ نے طورخم پر ایک زنجیر لگائی تھی جسے اتار کے پشاور کے چوک یادگار میں رکھ دیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے نیپ پر پابندی کے فیصلے کی توثیق کر دی اور حیدرآباد میں نیپ کے رہنمائوں کیخلاف بغاوت کے مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی۔ بھٹو اپنی کتاب ’’اگر مجھے قتل کردیا گیا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ وہ یہ مقدمہ ختم کرنے پر تیار ہوگئے لیکن فوجی جرنیلوں نے انہیں منع کیا۔ بھٹو کی حکومت ختم کرنے کے بعد ایک دن جنرل ضیاء الحق حیدرآباد جیل گئے انہوں نے ولی خان سے ملاقات کی اور ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ ختم کردیا۔ حال ہی میں نیپ کے ایک پرانے کارکن جمعہ خان صوفی کی کتاب ’’فریب ناتمام‘‘ سامنے آئی ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ نیپ کے رہنما اجمل خٹک کابل میں بھارتی سفارتکاروں کی مدد سے پاکستان دشمن سرگرمیوں میں مصروف تھے اور حیات محمد خان شیر پائو کے قتل کا منصوبہ کابل میں تیار کیا گیا۔ انور اور امجد نامی دو نوجوانوں نے ٹیپ ریکارڈر میں بم نصب کر کے دھماکہ کیا جس میں شیر پائو مارے گئے اور یہ دونوں قاتل بھاگ کر واپس کابل آگئے۔ جمعہ خان صوفی لکھتے ہیں کہ ہمیں اوپر سے ہدایت تھی کہ اپنی کارروائیوں کی اطلاع اسفند یار ولی اور افراسیاب خشک کو نہ ہونے دینا۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ وہ اور اجمل خشک کابل میں سندھو دیش کے حامیوں کی مدد بھی کرتے تھے اور جب جنرل ضیاء نے جی ایم سید کو بھارت کے دورے کی اجازت دی تو نیپ کے لوگوں نے دہلی میں جی ایم سید سے ملاقات کی۔ آپ خود ہی سوچئے کہ کیا جنرل ضیاء الحق ان سب حقائق سے بے خبر تھے؟ انہوں نے صرف بھٹو کی دشمنی میں یہ حقائق نظر انداز کئے اور جی ایم سید سے بھی ملاقاتیں کرتے رہتے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایم کیو ایم بنی اور الطاف حسین کی پاکستان دشمن سرگرمیوں کو نظرانداز کیا گیا۔ کیا جنرل پرویز مشرف کو الطاف حسین کی اصل حقیقت کا علم نہ تھا؟ پوچھئے علی قلی خان صاحب سے وہ بتائیں کہ جب مشرف میجر جنرل تھے تو کس طرح ایم کیو ایم کے ذریعہ کراچی میں اپنے کام کرایا کرتے تھے۔ وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے 12مئی 2007ء کو ایم کیو ایم کا استعمال کیا۔ آج کراچی کے نئے میئر وسیم اختر 12مئی کے واقعات کے مجرم ہیں اور مشرف کو کوئی نہیںپوچھتا۔ حساب کتاب کرنا ہے تو پھر سب کا کریں۔ الطاف حسین نے اپنے خلاف تمام ثبوت خود دے دیئے ان کے خلاف کارروائی بالکل ٹھیک ہے لیکن جو لوگ ان سے لاتعلقی کا اعلان کررہے ہیں انہیں زبردستی غداربنانا ٹھیک نہیں۔ اگر وہ سب بھی قصور وار ہیں تو پھر مشرف جیسے لوگ بے قصور کیسے ہوگئے؟ سچ بولنا ہے تو سب کے بارے میں سچ بولا جائے۔


.