پاک چائنا ٹریڈ کاریڈور ۔ پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب

December 09, 2014

پاک چائنا ٹریڈ کاریڈور کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ چین کے پاکستانی سرحد سے متصل علاقے جسے مغربی چین کہا جاتا ہے اور جو چھ صوبوں اور پانچ خودمختار علاقوں پر مشتمل ہے ‘ سمندر سے دوری کی وجہ سے مشرقی چین کے مقابلے میں ایسا پسماندہ رہ گیا تھا جیسا کہ پاکستان کا مغربی حصہ (بلوچستان‘ فاٹا اور خیبر پختونخوا ) پسماندہ رہ گیا ہے۔ جس طرح بلوچستان کا رقبہ بہت زیادہ لیکن آبادی کم ہے ‘ اسی طرح مغربی چین کا رقبہ بھی بہت زیادہ لیکن آبادی کم تھی۔ سنکیانگ اور تبت جیسے علاقوں میں اس پسماندگی اور غربت کی وجہ سے آزادی کی تحریکیں بھی جنم لینے لگیںلیکن پاکستان کے برعکس چینی قیادت نے ملٹری آپریشنوں کے ذریعے وہاں کے عوام کو دبانے کی بجائے ان علاقوں کو باقی چین کے برابر لانے کے لئے طویل المیعاد منصوبے کا آغاز کیا۔ 1978ءمیں ڈنگ جیاوپنگ نے گرینڈ ویسٹرین ڈیولپمنٹ اسٹریٹجی کے نام سے اس منصوبے کا آغاز کیا جسے بعد کے حکمرانوں نے بھی جاری رکھا۔ اس منصوبے کے تحت ان علاقوں کو طرح طرح کی مراعات دی جانے لگیں ۔ ان علاقوں کو مشرقی چین سے جوڑنے کے لئے ہزاروں کلومیٹر لمبے ہائی ویز تعمیر کئے گئے ۔ ریلوے لائنیں بچھادی گئیں ۔ ٹیکسوں میں غیرمعمولی چھوٹ دی گئی ۔ شنگھائی ‘ بیجنگ اور مشرقی یا وسطی چین سے جو صنعت کار یہاں آکر صنعتیں لگاتے ‘ ان کو ہر طرح کی مراعات دے دی گئیں جبکہ حکومت ہر سال بجٹ میں یہاں کیلئے اربوں روپے کے خصوصی فنڈ فراہم کرتی رہی ۔ یہ منصوبہ مکمل ہونے کو ہے ۔ یہاں بے تحاشہ صنعتیں لگ گئیں ۔ مشرقی چین سے لوگ یہاں منتقل ہونے لگے اور تیزی کے ساتھ یہ پسماندہ چین ‘ ترقی یافتہ مشرقی یا وسطی چین کے برابر آرہا ہے ۔ اب یہاں پر جو مال تیار ہوگا یا پھر یہاں کی صنعتوں کے لئے جو خام مال درکار ہوگا‘ اس کے لئے روٹ کی تلاش کا مرحلہ آیاتو قرعہ فال پاکستان کے نام نکلا کیونکہ کاشغر سے شنگھائی کا فاصلہ پانچ ہزار کلومیٹر جبکہ گوادر تک کا فاصلہ صرف دو ہزار کلومیٹر ہے ۔ چنانچہ کئی سال قبل چین کی دوراندیش قیادت نے پاکستانی قیادت کو گوادر کی بندرگاہ اور پھر کاشغر سے وہاں تک سڑک بنانے کی تجویز پیش کی ۔ اسی سوچ کے تحت چین نےگوادر کی بندرگاہ کی تعمیر میں مددکی اور اسی سوچ کے تحت کچھ عرصہ قبل چینی کمپنی نے اس کا انتظام سنبھالا۔لیکن چینی کیا صرف گوادرتک سڑک تعمیر کرنا چاہتے ہیں ؟‘ نہیں ۔ ہر گز نہیں ۔ گوادر کے راستے اپنے ملک کو عرب اور مغربی دنیا تک منسلک کرنا (جس کے ذریعے ان کیلئے تین ہزار کلومیٹر کا فاصلہ کم ہوجائے گا ) ان کا صرف ایک ہدف ہے۔دوسرا ہدف ان کا یہ تھا کہ وہ افغانستان کے راستے وسط ایشیاءکے ساتھ بھی تجارت کرسکے جبکہ تیسرا ہدف ان کا یہ بھی تھا کہ اس سڑک کے ذریعے پاکستان کے پسماندہ علاقوں یعنی پختونخوا‘ فاٹا اور بلوچستان کی پسماندگی کے خاتمے میں بھی مدد ملے۔ اس تناظر میں انہوں نے کاشغر سے لے کر گوادر تک جو روٹ تجویز کیا وہ ایبٹ آبا‘ حسن ابدال‘ میانوالی‘ ڈی آئی خان ‘ژوب اورکوئٹہ سے گزر کر گوادر تک جانا تھا ۔ اسی سوچ کے تحت منصوبہ صرف موٹروے یا سڑک کا نہیں بلکہ ٹریڈ کاریڈور کا بنایا گیا جس پر جگہ جگہ صنعتی بستیاں قائم ہوں گی۔ یہ منصوبہ اسی طرح پایہ تکمیل کو پہنچا جس طرح کہ اسے سوچا گیا ہے تو پورے پاکستان اور بالخصوص فاٹا‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی تقدیر بدل جائےگی۔یہ علاقے جو اس وقت انتہاپسندی اور دہشت گردی کا گڑھ ہونے کی وجہ سے پورے پاکستان کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں ‘ تجارت اور اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز بن کر پورے پاکستان کی خوشحالی کا موجب بن جائیں گے ۔ پاک چائنا ٹریڈ کوریڈور کے منصوبے پر اصولی اتفاق تو جنرل پرویز مشرف کے دور سے ہوا تھا لیکن میاں نوازشریف جنہوں نے اب کے بار خارجہ پالیسی کے بیشتر انڈے چین اور ترکی کے باسکٹ میں ڈال دیئے ہیں‘ اس لئے اس منصوبے کو بھی خاص توجہ ملنے لگی لیکن اپنے حلقہ انتخاب یعنی لاہور کو مستفید کرنے کیلئے انہوں نے اس سڑک کا رخ بھی اس کے اصل روٹ سے ہٹا کر لاہور کی طرف موڑ دیا۔ دلیل یہ دی گئی کہ چونکہ ہمارے وسائل کم ہیں ، اس لئے ہم نئی سڑک تعمیر نہیں کرسکتے لہٰذا حسن ابدال سے گوادر تک نئی سڑک بنانے کی بجائے اس ٹریڈ کاریڈور کے لئے بھی موجودہ موٹروے کو استعمال کیا جائے گا اور پھر ملتان سے اسے گوادر کے ساتھ ملا دیا جائے گا ۔ لاہورصرف ہمارے ملک کا ایک شہر نہیں بلکہ اس کا دل بھی ہے لیکن پہلے سے موجود موٹروے اسی شہر ہی سے ہوکر گزرتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت جی ٹی روڈ بھی موجود ہے لیکن دوسری طرف بلوچستان اور کے پی کے اس نعمت سے محروم ہیں ۔ پنجاب میں الحمدللہ صنعتیں خاطر خواہ تعداد میں موجود ہیں جبکہ بلوچستان ‘ فاٹا اور پختونخوا میں وہ نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ یوں ایک ایسی سڑک جس پر کئی صنعتی بستیاں تعمیر ہوں گی ‘ سب سے زیادہ بلوچستان اور کے پی کے کی ضرورت ہے۔ خود چینی بھی منصوبے میں اس تبدیلی پر خوش نہیں تھے اور وہ برہان سے براستہ میانوالی و ڈی آئی خان ‘ ژوب اور کوئٹہ وغیرہ سے ہوکر گوادر تک رسائی چاہتے تھے کیونکہ لاہور سے گھمانے کی صورت میں ان کے لئے فاصلہ کئی سوکلومیٹر بڑھ جاتا ہے ۔ اسی طرح میا نوالی اورژوب کا روٹ اپنایا جاتا ہے تو افغانستان تک رسائی کے لئے چینی ایک کی بجائے چار روٹ استعمال کریں گے (1۔پشاور طورخم روٹ 2۔بنوں غلام خان روٹ 3۔ڈی آئی خان وانا روٹ 4۔کوئٹہ چمن روٹ۔ یہ کریڈٹ سابق آرمی چیف جنرل(ر) اشفاق پرویز کیانی کو جاتا ہے کہ انہوں نے امریکیوں سے کابل کو لوگر کے راستے خوست اور پکتیا سے ایک ہائی وے کے ذریعے ملا دیا اور دوسری طرف ڈی آئی خان سے وانا تک محسود علاقے کو بائی پاس کرکے ایک بڑی شاہراہ تعمیر کی جو اب افغانستان کے ساتھ تجارت کے لئے ایک اور روٹ بن گیا ہے ) لیکن میاں نوازشریف کی خواہش کے مطابق اگر اس کو حسن ابدال میں سابقہ موٹر وے سے جوڑ دیا جاتا ہے تو چینی یا دیگر ممالک کے تاجر صرف پشاور طورخم روٹ کو استعمال کریں گے یا پھر زیادہ سے زیادہ نسبتاً زیادہ فاصلے کے ساتھ کوئٹہ چمن روٹ سے استفادہ کرسکیں گے ۔ چند ماہ قبل جب مجھے اصل منصوبے میں اس مجوزہ تبدیلی کا علم ہوا تو میں نے اسے بالواسطہ عمران خان صاحب اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخواپرویز خٹک صاحب کے کانوں تک پہنچایا لیکن افسوس کہ انہوںنے پختونخوا اور بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی پر کوئی توجہ نہیں دی۔کسی فورم پر اس کو اٹھایا اور نہ دھرنے میں اس کا ذکر سننے کو ملا۔ اس کے بعد میں نے خصوصی مہم کے تحت مختلف حکومتی اور اپوزیشن رہنمائوں تک یہ فریاد پہنچائی ۔ مجھے یہ اعتراف کرنا پڑرہا ہے کہ صرف تین سیاسی رہنمائوں (مولانا فضل الرحمٗن‘ آفتاب شیرپائو اور وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک ) نے اسے سنجیدگی سے لیا۔ مولانا فضل الرحمٰن تو ایک دن کیپٹن(ر) صفدر جو غیراعلامیہ طور پر این ایچ اے کے انچارج ہیں اور این ایچ اے کے چیرمین کو ہیلی کاپٹر میں ساتھ لے گئے اور انہیں ڈی آئی خان اور ژوب روٹ کی اہمیت سمجھائی ۔
مولانا فضل الرحمٰن سمجھتے ہیں اور درست سمجھتے ہیں کہ اصل روٹ پر ٹریڈ کاریڈور کے تعمیر ہونے سے عمران خان کے میانوالی کی طرح ان کے ڈی آئی خان کی تقدیر بھی بدل جائے گی ۔ مولانا کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں چینیوں سے بھی ملے تھے اور ان کے بقول اب میاں نوازشریف صاحب اس ٹریڈ کاریڈور کو اس کے اصل اور سابقہ روٹ سے گزارنے پر آمادہ ہوگئے ہیں لیکن میری اطلاع کے مطابق اب بھی حکومت یکسو نظر نہیں آتی ۔ گزشتہ روز میاں نوازشریف نے ایبٹ آباد حسن ابدل سیکشن کا افتتاح تو کیا لیکن یہاں حسن ابدال تا گوادر موٹروے کی تعمیر کیلئے کوئی روڈ میپ نہیں دیا۔ اس لئے جب تک افتتاح نہیں ہوتا اور کام کا آغاز نہیں کیا جاتا یہ خطرہ موجود رہے گا کہ منصوبہ یا تو التواء میں پڑا رہے یا پھر اسے لاہور سے گزارنے پر اصرار کیا جائے ۔یہ وہ منصوبے ہیں جن سے پاکستان کی تقدیر جڑی ہے لیکن بدقسمتی سے نہ ہمارے ٹاک شوز میں ان پر بحث ہوتی ہے اور نہ ہمارے سیاستدانوں کو فرصت ہے کہ وہ ان پر بات کریں ۔ لعنت ہو اس شخص پر جو پاکستان کے مختلف علاقوں ‘ لوگوں یا صوبوں میں تفریق کرے ۔ جو پنجاب کا مشکور نہیں اور جس کے دل میں پاکستان کے دل لاہور کی محبت نہ ہو‘ وہ شخص پاکستانی کہلانے کا مستحق نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ لاہور یا وسطی پنجاب کی محبت میں میاں نوازشریف صاحب ایسے اقدامات کیوں اٹھاتے ہیں کہ جن کے نتیجے میں پنجاب کو گالی اور لاہور کو نفرت ملتی ہے۔ قوم نے انہیں وزیراعظم پاکستان منتخب کیا ہے لیکن نہ جانے وہ کیوں وزیراعظم وسطی پنجاب یا پھر وزیراعظم لاہور رہنے پر مصر ہیں۔