گستاخانہ خاکے بار بار شائع کیوں کئے جاتے ہیں ؟

January 18, 2015

مغربی ممالک کے اخبارات اور جرائد میں بار بار گستاخانہ خاکے کیوں شائع ہوتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر پوری امت مسلمہ کو غورکرناچاہئے اور اس کا درست جواب حاصل کرنا چاہئے۔فرانس کے ایک جریدے چارلی ایبڈومیں کچھ عرصہ قبل پیغمبراسلامﷺ کی شان میں گستاخی پر مبنی خاکے شائع ہوئے تھے۔اس گستاخی پر اس وقت پوری دنیا میں احتجاج ہورہا ہے خصوصاً مسلم ممالک میںہرروزاحتجاجی مظاہرے ہورہےہیں ۔ایسے خاکوں کی اشاعت نہ پہلا واقعہ ہے اورنہ ہی ایسی قابل مذمت حرکت پر پہلی مرتبہ عالم اسلام میں اشتعال پیداہواہے۔کچھ سالوں سے مغربی ممالک کے اخبارات اور جرائدمسلسل توہین رسالت مآب ﷺ کے مرتکب ہورہے ہیں۔کئی مرتبہ ایسا ہوا ۔ دنیابھر میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف تاریخ کے بڑے بڑے احتجاج ہورہے ہیں۔ایک مرتبہ تویہ بھی ہواہے کہ مسلم ممالک کے تمام شہروں ،قصبوں،دیہات، گلیوںاور محلوں میں لوگ اپنے غم وغصے کے اظہار کے لئے سڑکوں پر آگئے اور یوںمحسوس ہوتاتھاکہ ہرجگہ تاریخی احتجاج ہوا۔مسلم ممالک کے علاوہ غیرمسلم ممالک میں بھی وہاں مقیم مسلمانوں نےاپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرایا۔عالمی سطح پر اتنا بڑااحتجاج کبھی نہیں ہواہے جتناگستاخانہ خاکوں پر ہواہے۔اس عظیم احتجاج کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ آئندہ کوئی بھی توہین آمیزخاکے شائع کرنے کی جرأت نہیں کرے گااورمغرب کے ذرائع ابلاغ آزادی اظہار کی آڑمیں کسی کی دل آزاری نہیں کریں گے لیکن اس کے بعد پھریہ سلسلہ شروع ہوگیا۔
اب تو یہ معمول بن چکا ہے کہ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعدمغربی ممالک میں کہیں نہ کہیںگستاخانہ خاکے شائع کردیئے جاتے ہیں اورہرموقع پر پورا عالم اسلام سراپا احتجاج بن جاتا ہے۔کیونکہ یہ مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے کہ وہ ہادی برحق ﷺ کی شان میں گستاخی پر اپنے غم وغصے کااظہارکریں۔سرورکائنات ﷺ کا اپنا ارشاد ہے کہ’’ تم میں سے کوئی بھی اس وقت مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کی اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘مغرب کو اس بات کا پتہ چل گیا ہے کہ اگر مسلمانوں کو مشتعل کرنا ہو تو ایسی گھٹیا حرکت کی جائے ۔مغربی ذرائع ابلاغ کی طرف سے بار بار اس گستاخی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہاں کے صحافی اخلاقیات اور صحافتی اقدار سے بے خبر ہیں ۔مغرب میں کسی کی توہین اور دل آزاری کو بہت بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزائیںدینے کیلئے سخت قوانین موجود ہیں ۔اس کے باوجود اگر وہ ایسی گھٹیا حرکتیں کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت کیا جاتا ہے ۔
اس امر کے بے شمار شواہد موجود ہیں مغرب کے ذرائع ابلاغ کو ان کے ریاستی اور خفیہ ادارے اپنے عالمی مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں۔اس حوالے سے ایک ناقابل تردید مثال موجود ہے۔ افغانستان پر امریکی حملے سے پہلے ایک ٹی وی چینل میں بار بار ایک فلم دکھائی جاتی رہی،جس میں ایک افغان باشندہ ایک برقع پوش خاتون پرتشدد کررہا ہے ۔بعد میں یہ پتہ چلا کہ یہ منظر جعلی تھا اور اس کے لئے فلم بندی کی گئی تھی ۔برقع پوش خاتون اور تشدد کرنے والا مرد صرف اداکاری کررہے تھے ۔اس فلم کے ذریعہ مغرب کے عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی گئی کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد وہاں کا معاشرہ وحشی ہوچکا ہے۔اس طرح کی کئی فلمیں چلائی گئیںاور افغانستان کے بارے میں یہ تاثر دیا گیا کہ اگر یہاں کے لوگوں کو طاقت کے ذریعہ نہ روکا گیا تو عالمی تہذیب خطرات سے دوچار ہوجائے گی ۔یہ ماحول بنانے کے بعد افغانستان پر حملہ کیا گیا اور فضائی بمباری سے کئی انسانی آبادیاں ملیا میٹ کردی گئیں ۔بچوں ،خواتین اور بوڑھے افراد سمیت ہزاروں بے گناہ افراد کو قتل کردیا گیا اور تاریخ انسانی کی بدترین بربریت کا مظاہرہ کیا گیا۔اس بات میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ مغربی ذرائع ابلاغ ایک منصوبہ بندی کے تحت عالم اسلام میں اشتعال پیدا کررہے ہیں ۔تاکہ مغربی معاشرے کو یہ بتایا جاسکے کہ مسلمان انتہا پسند ہیں اور ان میں برداشت اور رواداری نہیں ہے ۔اس منصوبہ بندی کا ہدف یہ ہے کہ مسلمان ملکوں میں انتشار پیدا کیا جائے اور وہاں فوجی مداخلت کا جواز مل سکے ۔ امریکہ اور اس کے اتحادی دنیا میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے کوششیں نہیں کررہے ہیں بلکہ وہ اس دہشت گردی اور انتہا پسندی کو خود فروغ دے رہے ہیں ۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جب سے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان کیا ہے ،تب سے دہشت گردی اور انتہا پسندی میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے ۔مسلم ممالک میں کچھ حلقے دانستہ طور پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال ہورہے ہیں اور وہ دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہیں ۔اس کے برعکس کچھ حلقے نادانستہ طور پر انتہا پسندی کی طرف مائل ہورہے ہیں ۔شہید بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب ’’ مفاہمت‘‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’مغرب یہ چاہتا ہے کہ اسلامی ممالک کا ایک ایسا بلاک بن جائے ،جس طرح کا بلاک عیسائی ممالک کا ہے ۔‘‘اس سے مغرب کو یہ فائدہ ہوگا کہ وہ اس اسلامی بلاک کو ایک دشمن کے طور پر اپنے لوگوں کے سامنے پیش کرسکے گا۔گستاخانہ خاکوںکی اشاعت اسی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا حصہ ہے۔اس وقت پورا عالم اسلام اپنے مسائل کو پس پشت ڈال کر اپنے ایمان کے مطابق احتجاج میں مصروف ہے اور مغربی معاشروں کو یہ پیغام مل رہا ہے کہ مسلمان عدم رواداری اور انتہا پسندی کا شکار ہیں ۔عالم اسلام کی مذہبی اور سیاسی قیادت کو چاہئے کہ وہ اس سازش کا ادراک کریں ۔جس انتہا پسندی کی طرف ہمیں دھکیلا جارہا ہے ،اس کا سب سے زیادہ نقصان ہمیں ہوا ہے۔دہشت گردی میں مارے جانے والے زیادہ تر لوگ ہمارے اپنے ہی ہیں ۔مسلمان ممالک انتشار ،خون ریزی اور افراتفری کے عذاب میں مبتلا ہیں ۔مغرب کی ہر چال سے نہ صرف انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیمیں مزید مضبوط ہورہی ہیں بلکہ اعتدال پسند قوتوں کے کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ غیر جمہوری قوتوں کا کردار بڑھتا جارہا ہے اور مسلمان ممالک ’’سکیورٹی اسٹیٹس‘‘ میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔اگر ہم نے اس صورتحال کا ادراک نہ کیا تو ہم مغرب کی بنائی ہوئی دلدل میں مزید پھنستے جائیں گے ۔یہ حقیقت ہے کہ کوئی مسلمان سرور کائنات ﷺ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتا ۔لیکن ہمیں اپنے احتجاج کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ گستاخی کرنے والوں کے مقاصد پورے نہ ہوں ۔عالم اسلام اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے اور سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ صاحب بصیرت قیادت کا فقدان ہے ۔اس کے باوجود اس گمبھیر صورتحال سے نکلنے کے لئے مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا اور معقولیت کی بنیاد پر کوئی ایسا راستہ نکالنا ہوگا کہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے والوں کے عزائم پورے نہ ہوں اور وہ یہ محسوس کریں کہ ایسی گھٹیا حرکتوں سے انہیں فائدہ نہیں ہورہا ہے ۔