ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرے

September 28, 2016

پیرزادہ سلمان انگریزی کے آدمی ہیں۔ نثر اور نظم دونوں انگریزی میں لکھتے ہیں لیکن اردو کے جتنے اچھے شعر انہیں یاد ہیں ہمارے اردو والوں کو بھی شاید اتنے یاد نہ ہوں۔ سلمان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انہیں جو شعر اچھا لگتا ہے اس سے وہ اکیلے اکیلے ہی لطف نہیں اٹھاتے بلکہ اس لطف اور اس سرشاری میں دوسروں کو بھی شریک کرتے ہیں۔ کل انہوں نے جو شعر بھیجا ہے وہ یہ ہے:
کرے دریا نہ پل مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرے
یہ شعر ہمارے بزرگ شاعر محشر بدایونی کا ہے اور یہ اس وقت کہا گیا تھا جب برسوں پہلے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اسی طرح گرما گرمی ہو رہی تھی جیسے اب ہو رہی ہے۔ ذرا دیکھیے، آج بھی کتنا برمحل اور بروقت شعر ہے یہ۔ ہم صبح شام اپنے چاروں طرف طبل جنگ کی آوازیں سن رہے ہیں۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی چلتے پھرتے شعلے اگل رہے ہیں، اور ہندوستان کا میڈیا جلتی پر تیل چھڑک رہا ہے۔ نریندر مودی کی تقریروں اور وہاں کے میڈیا کی ہزیانی کیفیت کے جواب میں ہمارا میڈیا بھی اس بھڑکتی آگ میں کود پڑا ہے۔ یہاں بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جا رہا ہے۔ دونوں جانب آگ کے شعلے بلند سے بلند ہوتے جا رہے ہیں اور ہمیں ڈرایا جا رہا ہے کہ یہ آگ کسی وقت بھی دونوں ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ دونوں جانب ایک شور ہے۔ کان پھاڑنے والا شور۔ یوں لگتا ہے کہ اس شور میں ایک بھی آواز ایسی نہیں ہے جو اس بھڑکتی آگ پر پانی ڈالے لیکن خدا کا شکر ہے، ایسا نہیں ہے۔ ہندوستان میں سب نریندر مودی کی آواز میں آواز ملانے والے ہی نہیں ہیں، اسے عقل و ہوش سکھانے والے بھی ہیں۔ اسے یہ سمجھانے والے بھی ہیں کہ جس پاگل پن پر تم اتر آئے ہو اس سے پاکستان کو ہی نہیں ہندوستان کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ یہ صحیح ہے کہ ایسے ہوش مند لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے لیکن یہ وہ لوگ ہیں اور یہ وہ آوازیں ہیں جو کوئی معنی رکھتی ہیں۔ جو کچھ نہ کچھ اثر رکھتی ہیں۔ اور یہی وہ آوازیں اور یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ہم اپنے لوگ کہہ سکتے ہیں۔ جی ہاں، ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرے۔
ان آوازوں میں سب سے طاقتور اور با اثر آواز ایڈمرل رام داس کی ہے۔ ایڈمرل رام داس ہندوستانی بحریہ کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ انہوں نے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بنتے دیکھا۔ اس جنگ میں وہ ہندوستانی بحریہ کے سربراہ کی حیثیت سے شریک تھے لیکن اس کے بعد سے انہوں نے اپنی زندگی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان امن و شانتی پیدا کر نے کے لئے وقف کر دی ہے۔ دونوں ملکوں میں غیر سرکاری سطح پر جو بات چیت ہو تی رہی ہے ایڈمرل رام داس اس کا حصہ رہے ہیں۔ انہوں نے نریندر مودی کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے۔ اس خط میں انہوں نے مودی جی کو سمجھایا ہے کہ دونوں پڑوسی ملکوں میں دشمنی اور اس دشمنی کو بڑھاوا دینا کسی کے فائدے میں نہیں ہے۔ تمام جھگڑوں کا حل بات چیت سے ہی نکل سکتا ہے۔ انہوں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ہندوستان کو کشمیریوں کے ساتھ بھی بات چیت کرنا چاہئے۔ ظلم و تشدد اور فوج گردی سے معاملات اور بھی بگڑتے رہیں گے۔
ایڈمرل رام داس تراسی سال کے ہو چکے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ بزرگوں کی خواہش اور یہ بزرگوں کی آواز ہے لیکن جیوتی ملہوترا تو بزرگ نہیں ہیں۔ کشمیر میں اوڑی کے مقام پر حملے کے بعد آپ انہیں اپنے ٹی وی چینلز پر بھی بات چیت کرتے دیکھ چکے ہیں۔ اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ پچھلے مہینے ہی وہ پاکستان آئی تھیں۔ یہاں انہوں نے سیاسی، سماجی اور ثقافتی حلقوں سے تعلق رکھنے والے مختلف اصحاب سے ملاقات کی تھی۔ اوڑی کے واقعہ کے بعد انہوں نے جو مضمون لکھا ہے اس میں انہوں نے اپنے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ آگ اور خون کی ہولی کھیلنے کے بجائے ’’ٹیلی فون اٹھائو اور نواز شریف سے بات کر لو۔ کونسا ایسا جھگڑا ہے جو بات چیت سے حل نہیں ہو سکتا‘‘۔ ان کا اشارہ نواز شریف اور نریندر مودی کی پہلی ملاقات کی طرف ہے۔ وہ یہ بھی احساس دلانا چاہ رہی ہیں کہ نواز شریف ہمیشہ دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ نریندر مودی کی جماعت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نواز شریف کی حکومت میں ہی پاکستان آئے تھے اور ہندوستان کے کسی بھی وزیر اعظم نے پہلی بار مینار پاکستان کے سائے میں کھڑے ہو کر پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ نواز شریف جب برسر اقتدار نہیں تھے تو اس وقت بھی سافما کے ایک جلسے میں انہوں نے امن و آشتی کی باتیں کی تھیں۔ ان کی ان باتوں پر پاکستان میں کچھ لوگوں کو بہت تکلیف ہوئی تھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان اور ہندوستان میں تین چار جنگوں کی تباہی دیکھنے کے باوجود اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کسی قسم کی تکلیف اٹھائے بغیر جنگ کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کر لیں گے۔ لیکن نواز شریف نے ان لوگوں کی پروا نہیں کی۔
اور ہاں، ہندوستان میں ہوش مندی اور عقل وخرد کی باتیں کرنے والوں میں ایک آکرپٹیل بھی ہیں۔ آکرپٹیل ہندوستانی گجرات کے رہنے والے ہیں۔ کئی اخباروں کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔ آج کل وہ امن و شانتی کے لئے ایک ادارہ چلا رہے ہیں۔ وہ دو بار لاہور لٹریچر فیسٹیول میں بھی آ چکے ہیں۔ انہوں نے سعادت حسن منٹو کے افسانے بھی انگریزی میں ترجمہ کئے ہیں۔ ہندوستان میں جو دانشور دونوں ملکوں میں دوستی اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان میں ان کا نام بھی شامل ہے۔ اسی وجہ سے ہندوستان کے کٹر قوم پرستوں کی طرف سے ان پر ملک دشمن ہونے کا الزام بھی لگایا جا چکا ہے۔ مگر وہ اپنے نصب العین پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بھی نریندر مودی کو سمجھایا ہے کہ انتقام کی سیاست چھوڑ دو، بات چیت کا دروازہ بند نہ کرو۔ پاکستان کی طرف سے مذاکرات کے لئے جو ہاتھ بڑھایا جا رہا ہے اسے آگے بڑھ کر تھام لو۔ دونوں ملکوں کی عافیت اسی میں ہے۔
یہ تو تھیں ہندوستان سے آنے والی آوازیں۔ پاکستان کی نوجوان نسل کی طرف سے بھی ایسا ہی جواب آ رہا ہے۔ نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز اور پیپلز پارٹی کے نوجوان صدر بلاول بھٹو نے اپنے ٹویٹ میں اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ یہی طریقہ ہے ہندوستان سے آنے والی ہوش مند آوازوں کو مزید موثر اور طاقتور بنانے کا۔ اب ہمارے میڈیا کا امتحان ہے کہ وہ اس بھڑکتی ہوئی آگ میں کودنے کی بجائے ہوش مندی کا ثبوت کیسے دیتا ہے۔ نریندر مودی کشمیریوں کی بغاوت کی وجہ سے اشتعال میں آیا ہوا ہے۔ اسے یو پی اور بہار میں الیکشن بھی لڑنا ہے۔ کیا ہم نے یہ سوچا ہے کہ اگر ہم بھی اسی کے راستے پر چل پڑے تو پورا خطہ شعلوں کی لپیٹ میں آ جائے گا؟ کچھ بھی نہیں بچے گا۔ سوچ لیجئے، ابھی پل کے اس پار ہمارے کچھ لوگ موجود ہیں۔ اگر وہ بھی نہ رہے تو پھر کیا ہو گا۔

.