منفی لیک، مثبت لیک

October 20, 2016

آزادی صحافت کے نام پر ایک طرز فکر کے مطابق جو خبر مل گئی اُسے شائع کر دوچاہے وہ دین پر حملہ ہو یا قومی مفاد کے خلاف ہو۔ کہاجاتاہے کہ صحافی کاکام تو بس حقائق عوام تک پہنچانا ہوتاہے چاہے وہ کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں۔ اسی بنیاد پربہت سوں نے ڈان اخبار میں شائع ہونےوالی متنازع خبر کا دفاع کیا۔ میں اس طرز فکر سے اتفاق نہیں کرتااور یقین رکھتا ہوں کہ اس طرز کی صحافت کا کہیں بھی رواج نہیں۔ ہر ملک، ہر اخبار، ہر میڈیا ہائوس کا کوئی نہ کوئی روک ٹوک کا نظام ہے جس سے ایسی خبروں کو سنسر کیا جاتا ہے جو اُن کے اپنے قواعد، قانون، مفاد وغیرہ سے ٹکراتے ہوں۔ اگر ہمارے ہاں قومی مفاد کے نام پر غلط ہوتا رہا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ قومی مفاد نام کی کوئی شہ ہوتی ہی نہیں۔جو لوگ محض حقائق کی بنیاد پر خبر شائع کرنے کو آزادی صحافت سے جوڑتے ہیں اور اس حق کا دفاع کرتے ہیں کیا وہ اپنے ، اپنے ایڈیٹر یا اپنے میڈیا ہائوس کے مالک کے گھر کی کوئی ایسی خبر شائع کریں گے جو اُن کے لیے سبکی یا شرمندگی کا باعث ہو۔ مثال کے طور پر آئے دن ہم ٹی وی چینلز اور اخبارات میں گھر سے بھاگ جانے والے لڑکے لڑکیوں کی خبریں خوب مسالحہ لگا کر پیش کرتے ہیں اور اس میں ایسا اقدام کرنے والے جوڑوں کو ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے اگر کسی صحافی، کسی ایڈیٹر یا کسی میڈیا ہائوس کے مالک کی بیٹی یا بیٹا گھر سے بھاگ جائے تو کیا وہ اپنے بارے میں ایسی خبر کی اشاعت کی اجازت دیں گے ؟ میں ذاتی طور پرایک انگریزی اخبار کی متنازع خبر کی اشاعت کے متعلق اخبار کی ایڈیٹوریل ججمنٹ سے متفق نہیں ہوں چاہے وہ خبر سو فیصد درست ہی کیوں نہ ہو۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان سخت تنائوہو اور ہمارا دشمن پوری دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹ رہا ہو کہ پاکستان نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے مبینہ طور پر بھارت میں دہشت گردی پھیلارہا ہے اور اس میں ہماری فوج اور آئی ایس آئی کا اہم کردار ہے، ایسی خبر کا شائع ہوناپاکستان کے مفاد کے خلاف اور دشمن کے لیے فائدہ ہی میں ہو سکتا ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس خبر کی تردید دوسرے روز انگریزی اخبار میں ہی شائع ہونےکے بعد متعلقہ رپورٹر کے نام کو ای سی ایل پر رکھنا بلاجواز تھا کیوں کے حکومت کے اس عمل سے متنازع خبر کو دنیا بھر کے میڈیانے اٹھا لیااورپاکستان کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ جہاں تک اس معاملے کی انکوائری کا تعلق ہے کہ کس نے یہ خبر متعلقہ رپورٹر کو لیک کی، یہ ضروری ہے تاکہ ذمہ دار کے خلاف ایکشن لیا جا سکے۔ لیکن اس معاملے پر سول اور فوج کے درمیان تنائو بھی کسی طورپر ملکی مفاد میں نہیںکیوں کہ اس قسم کے تنائوکی صورت میں نہ صرف توجہ اصل چیلنجز سے ہٹ جاتی ہے بلکہ ٹکرائو کی صورت میں آئینی نظام ہی خطرہ میں پڑ جاتا ہے جس کاسب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہی ہوتا ہے۔ ویسے انکوائریوں کا ریکارڈ ہمارے ہاں کوئی اتنا اچھا نہیں۔ چلیں زیادہ پیچھے نہیں جاتے، دوسرے معاملات کو بھی درگزر کرتے ہیں، 2014 کو ہی دیکھ لیں۔ کیا مبینہ لندن پلان سازش کی کوئی انکوائری ہوئی، کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا، کسی کو پکڑا گیا؟ مجھے تو دڑھکا لگا ہوا ہے کہ کہیں لیک خبر سے متعلق انکوائری کا معاملہ سنگین صورت نہ اختیار کر جائے۔ ویسے میڈیا میں کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ اس معاملےپر سول اور فوج کے درمیان لڑائی کو بڑھایا جائے۔ سوشل میڈیا میں چلنے والی ایک مہم سے بھی یہی اندازہ ہوتاہے۔ آج کے ہی ایک انگریزی اخبار میں اس معاملےپر ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ خبر شائع ہوئی جو اسی قسم کی مہم کا حصہ نظر آتی ہے۔ میری سول اور فوج دونوں کی اعلیٰ قیادت سے درخواست ہے کہ پاکستان کے مفاد میں ایسے معاملات جن پر بند کمروں میں بات ہونی چاہیے انہیں باہر مت نکالیں چاہے وہ بات کسی سیکیورٹی میٹنگ میں ہویا وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان ون آن ون ملاقات میں۔ ایسے معاملات سے دوریاں بڑھتی ہیں اور خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ شیخ رشیدنے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ اطلاعات کی بنیاد پر وہ یہ بتاناچاہتے ہیں کہ چند روز قبل وزیراعظم اورآرمی چیف کےدرمیان ہونے والی ملاقات کوئی اچھے ماحول میں نہیں ہوئی بلکہ تلخ اور ترش رہی۔ اُن سے جب پوچھا گیا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا تو شیخ رشید نے کہا کہ اگر کسی رپورٹر کو sensitive لیک مل سکتی ہے تو انہیں مثبت لیک بھی مل سکتی ہے۔ جو شیخ صاحب نے کہا اُس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ معاملات خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔ پاکستان کو تو ویسے ہی بہت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے ایسے حالات میں سول اور فوج کے درمیان تنائو ہمارے دشمن کو ہی فائدہ دے سکتا ہے۔

.