آنسو؟

October 14, 2015

حلقہ نمبر 122این اے!
پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار بیرسٹر عامر حسن کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ الیکشن کمیشن کے حتمی سرکاری اعلان کے مطابق متعلقہ امیدوار نے 819ووٹ حاصل کئے۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری، اعتزاز احسن، منظور وٹو، شیریں رحمان، فریال تالپور صاحبہ، قمر زمان کائرہ سمیت پی پی کی مرکزی یا صوبائی قیادت کی تمام شخصیات نے اپنے امیدوار کے حق میں کہیں کوئی بیان دیا، کسی ٹی وی شو میں بات چیت کی، جلسے سے خطاب کیا، جس کی جو بھی ایکٹویٹی رہی یا نہ رہی، اس میں کچھ کی بیلنس شیٹ کے مطابق ’’پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار بیرسٹر عامر حسن کی ضمانت ضبط ہو گئی الیکشن کمیشن کے حتمی سرکاری اعلان کے مطابق متعلقہ امیدوار نے 819ووٹ حاصل کئے۔‘‘ کی ’’اوقات‘‘ سامنے آئی!
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں جنم لینے والی پاکستان پیپلز پارٹی کا نام تاریخی اصول کی روشنی میں قومی انتخابات کے ریڈار سے غائب ہو چکا؟ اور کیا وقت کے فیصلے نے اسے آکسیجن ٹینٹ میں لٹا کر، غریب عوام کو آخری امید کا انجام دیکھنے کی انتظار گاہ میں بٹھا دیا ہے؟ سوالات کی پٹاری میں سے ابھی یہ پہلا سوال ہے، اپنے اپنے مرحلے پر یہ پٹاری خود بخود کھلتی چلی جائے گی، جسے سیاست کی تاریخ میں عوام کی حاکمیت کے قانون سے دلچسپی ہو وہ ان کے جوابات پر طبع آزمائی کر سکتا ہے! فی الوقت ’’819‘‘ کے انتخابی ریڈار کے اردگرد گھومتے ہیں، پارٹی کے ایک سرگرم مقامی خبر نگار نے ’’پیپلز پارٹی ختم ہو گئی‘‘ کے سیاسی نظریئے کو تقریباً اتفاق رائے کی صورت دے دی، ان کا کہنا ہے، ’’لاہور کی تاریخ کے مہنگے ترین ضمنی انتخاب نے بہت سے نئے زمینی حقائق کو جنم دیا، اس نے ایک طرف تحریک انصاف کے ملک کی دوسری بڑی جماعت ہونے پر مہر ثبت کی ہے تو دوسری طرف پیپلز پارٹی کے تابوت میں آخری کیل بھی ثابت ہوا۔ پی پی کی قیادت نے جس لا تعلقی اور بے حسی کا مظاہرہ ان ضمنی انتخاب کے حوالے سے کیا اس کے نتیجے میں بیرسٹر عامر حسن اور افتخار شاہد کسی قسم کی کارکردگی دکھانے سے قاصر رہے۔ پوری انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نہ صرف غائب رہی بلکہ پارٹی امیدوار کو جس نوعیت کی حمایت اور امداد حاصل ہونی چاہئے وہ اس سے محروم رہے۔ رواں سال کے اوائل میں پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے جو جو دورے کئے اور پارٹی کی مقبولیت کے دعوے کئے وہ سب چکنا چور ہو گئے۔ بعد ازاں ان کی ہمشیرہ فریال تالپور نے دو مرتبہ لاہور میں قیام کیا جبکہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو نے گزشتہ ماہ لاہور کا دورہ کیا، ان تمام کارروائیوں کے نتیجے میں پارٹی قیادت کا جیالوں سے وہ رابطہ نہیں بن سکا جو کسی بھی الیکشن کو جیتنے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ پارٹی حلقے اس حقیقت پر پریشان ہیں کہ پارٹی ضمنی انتخاب بری طرح ہار گئی ہے بلکہ انہیں رواں ماہ کے آخر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھی اسی طرح کے نتائج نے خوف زدہ کر رکھا ہے کیونکہ ان مجوزہ انتخابات کے حوالے سے پارٹی نے کوئی تیاری نہیں کی جس کا ایک مظاہرہ یہ ہے کہ پارٹی کو لاہور میں مطلوبہ تعداد میں امیدوار نہ مل سکے اور نصف یونین کونسلوں سے زیادہ میں پارٹی کا کوئی امیدوار میدان میں نہیں۔ ایسی کسمپرسی کا منظر تو 11سالہ ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ میں بھی نہیں تھا جب دیگر سیاسی جماعتیں بھی پیپلز پارٹی کا بھرپور مقابلہ کر رہی تھیں۔ مقامی پارٹی قیادت کا کہنا ہے، بے نظیر بھٹو بلدیاتی انتخابات میں ہمیشہ گہری دلچسپی ظاہر کرتی تھیں کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ مستقبل کی قیادت کے لئے یہ ادارے بہترین تربیت گاہ ہیں تاہم بیرسٹر عامر حسن اور ان کے ساتھی افتخار شاہد کو اتنی داد ضرور ملنی چاہئے کہ انہوں نے حالات کی ستم ظریفی کے باوجود ہتھیار نہیں ڈالے اور آخری وقت تک میدان نہیں چھوڑا۔‘‘
نہ صرف یہ کہ دونوں امیدواروں نے آخری وقت تک میدان نہیں چھوڑا بلکہ دونوں کو عوامی شعور کا نمائندہ کہا گیا۔ مثلاً میرے ایک غیر جانبدار سے برخوردار کالم نگار نے لکھا ’’بیرسٹر عامر حسن اور افتخار شاہد پیپلز پارٹی کی جانب سے نامزد ہونے کے باوجود اس پارٹی کے امیدوار نظر نہیں آئے تو پھر راندئہ درگاہ عوام کی ترجمانی کے لئے ان کا ساتھ دینا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ کل اس حلقہ میں کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے اور دھن دولت کے ساتھ ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے والوں میں سے کون اپنے زیادہ دھن کے ڈھنڈورے پیٹتا ہے مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ یہ مفاداتی سیاست کا گندا کھیل ہے مگر بیرسٹر عامر حسن اور افتخار شاہد کے لئے بیلٹ بکس میں جتنے بھی ووٹ برآمد ہوں گے وہ محروم عوام الناس کے اجتماعی شعور کے ہی ترجمان ہوں گے، باقی رہے نام اللہ!‘‘
سوالات کی پٹاری سے ابھی دوسرا سوال برآمد نہیں ہوا لیکن میرے عزیز نے 819کے انتخابی ریڈار سے پیدا شدہ اس سوال کا جواب کہ قومی انتخابات کے ریڈار سے پیپلز پارٹی کا نام حذف ہو چکا ہے؟ کا مکمل نفی کی شکل میں جواب دیا ہے یعنی وہ ’’819‘‘ راندہ درگاہ عوام کے اجتماعی شعور کو پیپلز پارٹی کی سیاسی حیات کا ثبوت ڈیکلئر کرتا ہے! اتفاق یا عدم اتفاق سے قطع نظر پٹاری میں موجود باقی سوالات ریکارڈ پر لا کر ہی آپ شاید کسی معروضی تاریخی سیاسی نتیجے پر انگلی رکھنے کے قابل ہو سکیں گے، چنانچہ دوسرا سوال پنجاب میں پیپلز پارٹی کی قیادت کہاں ہے؟ کون ہو سکتا ہے؟ کس کو ہونا چاہئے؟‘‘
کیا منظور وٹو؟
کیا قمر زمان کائرہ؟
کیا اعتزاز احسن؟
کیا عزیز افضل چن؟ یا کوئی اور، اور ان معزز حضرات سمیت ’’اور کوئی‘‘ جو بھی ہے، جہاں بھی ہے، کیا وہ ذوالفقار علی بھٹو کے عوامی سیاسی فلسفے کی کسی مشابہت یا کسی علامت کی یاد دلا سکتا ہے؟
پنجاب کی قیادت کا وہ ’’فرد‘‘ کیا آخری قہقہہ غریب عوام کا ہو گا‘‘ کا نعرہ مستانہ لگاتے وقت، اپنی صدا میں ذوالفقار علی بھٹو کے نعرہ مستانہ پرمشتمل گیت کا کوئی ایک بول بھی سنا سکے گا؟۔
’’819‘‘ کا انتخابی ریڈار بیرسٹر عامر حسن کا جائزہ نہیں۔ 70,70ہزار ووٹوں سے فتح کا علم ہاتھ میں لے کر دھرتی کے سینے پر، محنت کش عوام کے پاسبان و محافظ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر ’’819‘‘ تک پہنچنے کی داستان الم ہے، اس میں ریاستی و غیر ریاستی ظالموں کی ناقابل تصور غیرانسانی طنیایتوں سے لے کر 2015تک موجود پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی اس ساری کہانی کے ایک ایک باب کے ایک ایک لفظ پر رک کر، ٹھہر کر اور طے کر کے بات کرنی ہو گی، یہ کسی ٹی وی پروگرام میں ٹاک شوز کے کسی خود پرست وفاقی وزیر کا بیان نہیں، اسے ذوالفقار علی بھٹو سمیت اس کے خاندانی لہو نے تشکیل دیا ہے، اس لئے اے اصحاب پاکستان! دو راستے ہیں، یا تو ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی فلسفے کا علم تھام کر بات کرو یا ۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی ’’رضا مندیوں‘‘ کے سایوں تلے اس فلسفے کو دنیاوی ہوس پرستیوں پر مبنی ذاتی منفی ترقیوں کی کدالوں سے تاریخ کی قبر میں اتار دو؟ کیا اس سے آصف علی زرداری اور بلاول کی قربانیوں سے انکار مطلوب ہے؟ ہرگز نہیں! بخدا! ہرگز نہیں، کہانی کی تفصیل میں ان قربانیوں کی عظمتوں کے ایک ایک نقش کا بیان ہو گا، مگر پٹاری کے تیسرے اور حتمی سوال کے جواب کی تکمیل ’’پورا سچ‘‘ کہنے سے پہلے ناممکن ہے نہ ہی اڈیالہ جیل پنڈی کی رات اور لیاقت باغ راولپنڈی کی شام کا جواب ممکن ہے؟ نہ مرتضیٰ کی لہو آلود، جدت کی وضاحت ہو سکتی ہے نہ شاہنواز کا خاموش زہر کا پیالہ اپنا جواب پا سکتا ہے؟ انسانیت پرست اور نظریاتی دیانتداریوں کے نقیب قلمکاروں کی پیروی میں پٹاری کے اس تیسرے سوال کے جواب کی سب کو دعوت ہے، پی پی کے واجد شمس الحسن، حسین نقی، بشیر ریاض، الطاف حسن قریشی، خالد چوہدری، حسن نثار، ضیاء کھوکھر، جی این مغل، شاہد جتوئی اور وجاہت مسعود جیسے ترقی پسند دانشوری سے غریب سوال کنندہ ہے آواز دے، کہاں ہے؟ قومی انتخابی ریڈار پر پیپلز پارٹی کا نام کیا واقعی ’’819‘‘ ہے؟ وہ ’’غریب آدمی آپ حضرات کے انکار کا منتظر ہے!
صرف چند جملے مسلم لیگ ’’ن اور تحریک انصاف پر!‘‘
حلقہ 122این اے، پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے تقریباً تیس برس پر مشتمل سیاسی اور سماجی تسلط کی حکمرانی چھین لی ہے!
باقی سب سنا.ر کی ٹھک ٹھک ہے؟