معاشی دہشت گرد اور ضرب عضب

October 17, 2015

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کے امریکی دورے سے پہلے نیویارک آچکے ہونگے۔ خواجہ آصف کس مشن پر ہیں۔ کیا وہ امریکہ میں دفاعی معاملات میں مذاکرات کا حصہ بنیں گے یا وہ وزیر بجلی کی حیثیت سے امریکی حکام سے بات کریں گے۔ خواجہ آصف کے میاں صاحب کی کابینہ میں اکثر لوگوں سے تعلقات کافی کشیدہ ہیں۔ ان کی وزیر خزانہ سے ہم آہنگی ضرور ہے۔ وزیر خزانہ اور پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب شہباز شریف کے درمیان معاملہ فہمی ہورہی تھی مگرکہا جاتا ہے کہ اسحاق ڈار نے شہباز شریف کی سفارشات ماننے سے یکسر انکار کردیا، حلقہ 122 کے انتخابی دنگل سے پہلے اسلام آباد میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کی کوششوں سے ملک بھر کے تاجر اور کاروباری حضرات ود ہولڈنگ ٹیکس کے معاملے پر بات چیت کے لئے آمادہ ہوئے۔ ان کے مذاکرات ہوئے اورود ہولڈنگ ٹیکس کی نئی شرح جو فریقین کو قبول تھی اس پر بات ہوئی اور میڈیا کو سرکاری ذرائع نے تاثر دیا کہ مذاکرات کامیاب رہے ہیں اور سرکار اس سلسلے میں کارروائی کرے گی۔مگر ہوا کیا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وزیراعلیٰ پنجاب سے اتفاق نہیں کیا اور ودہولڈنگ ٹیکس کا معاملہ آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق لاگو کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا۔ جس کے بعد ملک بھر کی تاجر برادری ایک دفعہ پھر سڑکوں پر آنے کا سوچ رہی ہے۔ ملکی معیشت دبائو میں ہے۔ اگرچہ زرمبادلہ کے ذخائر ریکارڈ بنا رہے ہیں۔ مگر وہ سب کچھ مصنوعی سا ہے۔ اسٹیٹ بنک ڈالر کی قیمت کا تعین کرنے میں اپنا موثر کردار ادا نہیں کررہا۔ جو لوگ ملک کو زرمبادلہ دیتے ہیں وہ بھی ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح سے نالاں ہیں۔ بیرون ملک پاکستانی ملک سے باہر بھاری شرح سے ٹیکس ادا کرتے ہیں ان کی رقوم پر پاکستان میں علیحدہ ٹیکس کی وصولی کا معاملہ ان کو مزید پریشان کررہا ہے۔ وزیر خزانہ کی منطق ہے کہ اس طرح سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہوگا۔ بات سمجھ میں نہیں آتی اور ملکی تاجر برادری کے ساتھ میاں نوازشریف اور نواز لیگ نے جو وعدے کئے تھے وہ سب کے سب طاق نسیاں ہوئے۔ پھر ملک بھر میں کرپشن کی وجہ سے تمام طبقے علیحدہ پریشان اور بے بس نظر آرہے ہیں۔یہ سب کچھ جمہوریت کا ثمر ہے۔ ابھی حالیہ دنوں میں بھارت کا جو کردار دنیا کے سامنے آیا ہے۔ وہ سب کچھ اس لئے ہورہا ہے کہ وہاں جمہوریت نے ایسے معاملات طے کرنے کا اختیار دے رکھا ہے۔ ایک پاکستانی فنکار کے ساتھ جو سلوک روا رکھا اس پر بھارت میں کافی غصہ دکھایا گیا۔ مگر ایسے غصے سے جمہوریت مضبوط ہی ہوتی ہے۔ صرف لوگوں کے بنیادی حقوق ہی متاثر ہوتے ہیں۔ خورشید محمود قصوری سابق وزیر خارجہ پاکستان کی کتاب کے سلسلہ میں وہاں کی جماعت شیوسینا نے جو کچھ کیا وہ جمہوریت کا انتقام ہی ہوسکتا ہے اور کچھ ایسی ہی صورتحال دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ وہاں لوگوں کو بنیادی سہولتوں کیلئے حکومت کی طرف دیکھنا نہیں پڑتا۔ جبکہ ہمارے ہاں صورت حال بالکل مختلف ہے۔ الیکشن سے پہلے وعدے اور دعوے اتنے تھے کہ کوئی حد نہیں۔ مگر جمہوریت کے جھومر پر بدانتظامی اور من مانی ہے۔ پھر بھی اشرافیہ جمہوریت کے گن کیوں نہ گائے۔ وہ صرف اپنا سوچتے ہیں اور صرف اپنا ہی کرتے ہیں۔
جو لوگ پاکستان میں جمہوریت کے علمبردار بن رہے ہیں ان میں ایک اہم نام سینیٹ کے چیئرمین کا ہے۔ چند دن پہلے انہوں نے ایم کیو ایم کے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے استعفوں پر اپنا فیصلہ صادر کیا ہے۔ عوامی نمائندوں نے با ہوش و حواس جمہوریت سے مایوس ہو کر اپنے استعفےٰ دیئے اور مسلم لیگ کے ایک سینیٹراس معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کر چکے ہیں۔ مگر چیئرمین سینیٹ نے فیصلہ دینے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی۔ انہوں نے ایم کیو ایم کو اپنے لیڈر کی رائے کے مطابق موقع دیا کہ وہ جمہوری نظام کو چلانے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں تاکہ اشرافیہ اور سیاست دان اپنی مرضی کا کھیل کھیلتے رہیں۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی نے وزیراعظم پاکستان کے امریکی دورے پر کوئی عوامی سفارش مرتب نہیں کی ان کے دورے میں اہم ترین معاملہ ایٹمی صلاحیت اور ہتھیاروں کا ہے۔ امریکہ اس سلسلے میں دونوں ممالک سے بات چیت کرتا رہا ہے اور بھارت کے ساتھ ایٹمی صلاحیت کا ایک معاہدہ بھی کیا ہوا ہے کیا ایسا کوئی معاہدہ وہ پاکستان کے ساتھ کرنے کا سوچے گا یا ارادہ رکھے گا۔ ہمارے ایٹمی معاملات کو اس وقت تک عسکری تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ہماری کسی بھی سیاسی جماعت کو اندازہ نہیں ہے کہ ایٹمی صلاحیت سے پاکستان پاور سیکٹر میں انقلاب لاسکتا ہے خطے کے دوسرے ممالک اس معاملے میں پیش رفت کررہے ہیں۔ پاکستان میں اس معاملے پر کوئی بات کرنے کو بھی تیار نہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں سے پاکستان کا دفاع تو کیا جاسکتا ہے مگر ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی ایٹمی صلاحیت کو آزادی کے ساتھ پاور سیکٹر میں استعمال کریں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم بین الاقوامی معاہدوں کا حصہ بنیں اورملکی ترقی کے لئے ایٹمی صلاحیت کو بھرپور طریقہ سے استعمال کرسکیں۔ ہوسکتا ہے کہ امریکہ اس سلسلہ میں نگرانی کے نظام کو مزید موثر کرنے کی بات کرے۔ ہماری ایٹمی صلاحیت پر ان کی نگرانی تو سدا سے ہے۔ کیا اس سلسلے میں میاں نوازشریف کی ٹیم نے کوئی تیاری کی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ امریکی ہمارے ساتھ بھارت کی طرز کا معاہدہ نہ کریں۔ اس کے بدلے میں وہ ہمیں بجلی بنانے والے ڈیم بنانے میں امداد دینے کا سندیسہ دے۔ یہ بھی کوئی بری ڈیل نہیں ہوگی مگر کوشش کرنی ہوگی کہ وہ ہماری ایٹمی صلاحیت کو مزید محدود کرنے کا وعدہ نہ لیں۔
میاں نوازشریف کے امریکی دورے کے وقت یا بعد میں پاکستان کے عسکری حلقے بھی امریکہ کے ساتھ بات چیت کررہے ہونگے۔ اس وقت جو صورتحال مشرق وسطی میں ہے اس سے پاکستان کا تعلق تو نہیں مگر اتحادی ہونے کی وجہ سے پاکستان کو اس صورتحال میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ وہ کردار کیا ہوگا اس پر بھی ہمارے سیاست دان خاموش ہیں۔ وہ ملک کے اندر جمہوریت لاگو کرنے کی جنگ میں اپنی صلاحیتیں ضائع کررہے ہیں جبکہ پورے خطے میں بڑا بدلائو ہونے والا ہے اور پاکستان میں تبدیلی کو بھی اہمیت نہیں دی جارہی۔ پاکستان جن دوستوں پر انحصار کرتا رہا ہے وہاں حالات تیزی سے بدل رہے ہیں ترکی میں جو کچھ ہوا اس سے وہاں کی جمہوریت خطرے میں ہے پھر سعودی عرب کے گرد جو گھیرا تنگ کیا جارہا ہے وہ عرب ممالک کے لئے بھی پریشان کن ہے۔ اب تو ایران کی حیثیت بھی بدل چکی ہے۔ ایران امریکی معاہدے دونوں فریقین نے قبول کرلیا ہے۔ ایسے میں پاکستان میں جمہوریت کی جنگ ملک کو کمزور کررہی ہے۔اس وقت کرپشن کے خلاف ضرب عضب کی طرح کی مشق ضروری ہے اور سفاکی سے کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائی نظام کو بہتر بنا سکتی ہے اس وقت ملک بھر میں جو لوگ بھی بدانتظامی اور لوٹ مار میں شامل نظر آرہے ہیں۔ ان کے خلاف فوری کارروائی کر کے عوام کے سامنے ان کو سزا دینی ضروری ہے تاکہ عوام کو اندازہ ہوسکے کہ ملک کو بچانے کیلئے جمہوریت ہی کافی نہیں بلکہ سزا دینی بھی ضروری ہے۔ معاشی دہشت گردوں کے لئے ضرب عضب کی ضرورت اب کچھ زیادہ ہی ہوگئی ہے اس فیصلہ میں دیر کرنا مناسب نہیں ہے۔