ایک حیرت انگیز شخص !

January 07, 2017

(پہلی قسط)
گزشتہ روز ایک حیرت انگیز شخص سے میری ملاقات ہوئی، اس کا نام زاہد پرویز بٹ ہے، میں ڈاکٹر انعام الحق جاویدسے ان کی بہت تعریف سنا کرتا تھا،انہوں نے نیشنل بک فائونڈیشن کو صدیوں پرانے قرآن مجید کے نسخے فائونڈیشن کے میوزیم کے لئے ہدیہ کئے تھے جن کی مالیت مارکیٹ میں کروڑوں روپے تھی، میں نے انعام صاحب سے کہا کہ مجھے ان سے ملائیں انہوں نے سہیل ایڈووکیٹ صاحب سے رابطہ کیا جو بٹ صاحب کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں چنانچہ ہم تینوں ان کے ’’ڈیرے‘‘ کی طرف روانہ ہو گئے اسلام آباد کی حدود ختم ہو گئی اس کے بعد گائوں آنا شروع ہوئے اور پھر آتے ہی چلے گئے بالآخر سوا گھنٹے بعد ہم ایک بہت بڑے پھاٹک کے سامنے تھے ہارن دینے پر ملازم نے وہ پھاٹک کھولا اندر کوئی انسان نہیں تھا دو تین عمارتیں تھیں ایک عمارت ابھی زیر تعمیر تھی ہم ایک عمارت میں داخل ہو گئے جس کے ایک کمرے سے ایک صاحب برآمد ہوئے اور یہی زاہد پرویز بٹ تھے جو تین پشتوں سے نوادرات کا کاروبار کر رہے ہیں جس کی ایک جھلک باہر ہی سے نظر آنا شروع ہو گئی تھی۔بدھا کے مجسمے اور ہزاروں دیگر نوادرات وہاں دکھائی دے رہے تھےمگر اب بٹ صاحب صرف اللہ اور اس کے محبوب ﷺکے عشق میں مبتلا ہیں اور ساری دنیا سے قرآن مجید اور حضورؐ سے وابستہ نوادرات میں دلچسپی لیتے ہیں ۔
میرا خیال تھا کہ بٹ صاحب ایک خاصے بور قسم کے شخص ہوں گے لیکن جو تعریف سن چکا تھا اس کے بعد میں ان سے ملنے کا رسک لینے پر بھی تیار ہو گیا رسک اس لئے کہ بور شخص سے میری جان اسی طرح جاتی ہے جس طرح کوے کی غلیل سے !مگر جب ان سے گپ شپ شروع ہوئی تو دو گھنٹے گزر گئے اور پتہ بھی نہیں چلا،بندہ بٹ ہو اور تو اور امبرسری بھی تو اسی طرح کی صورتحال سامنے آتی ہے۔
وہ اپنی زندگی کے واقعات سنا رہے تھے اور میں مارے حیرت کہ دانتوں میں انگلی دبائے سن رہا تھا مثلاً وہ بتا رہے تھے کہ ان کاگھرانہ امیر تھا نہ غریب البتہ اللہ پر توکل کے حوالے سے مالا مال تھا ان کے سب بہن بھائی گورے چٹے تھے صرف ان کا رنگ کالا تھا لوگ کہتے تھے یہ کشمیری نہیں لگتا مگر ان کی والدہ کہتیں کہ ان کا یہ بیٹا کرماں والا ہوگا اور ایک دن بہت بڑا سیٹھ ہو گا چنانچہ بچپن میں لوگوں نے انہیں سیٹھ کہنا شروع کر دیا جب پانچ سال کے ہوئے تو لوگوں نے انہیں ’’سائیں‘‘ کا درجہ دیا کیونکہ وہ ننگے پھرتے تھے صرف یہی نہیں بلکہ انہیں جب بھی موقع ملتا وہ سورج کو گھنٹوں دیکھتے رہتے اور انہوں نے بتایا کہ رفتہ رفتہ یہ سورج ان کے لئے چاند بن گیا !لوگوں نے ان سے دعائیں منگوانا شروع کر دیں اور نذرنیاز کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا!
ایک بہت دلچسپ بلکہ غیر معمولی واقعہ جو انہوں نے سنایا اس کے مطابق ایک وقت آیا کہ ان کے والد کا کاروبار تقریباً ٹھپ ہو گیا مگر وہ کہتے تھے سائیں بابا تم فکر نہ کرو، اللہ کا کرم ہونے والا ہے چنانچہ انہوں نے ایک دن اپنا ٹانگہ گھوڑا نکالا انہیں پتہ چلا تھا کہ گلبرگ میں ایک انگریز نوادرات کا شوکین ہے چنانچہ نوادرات کی ایک بوری ساتھ رکھی اور اپنے سائیں بابا کو ساتھ لیکر گلبرگ کی طرف چل پڑے گرمی بہت زیادہ تھی راستہ بھی لمبا تھا بٹ صاحب بتاتے ہیں کہ انہیں شدیدپیاس لگ رہی تھی اور پیاس سے گھوڑے کی زبان باہر لٹک رہی تھی۔انہوں نے والد کو بتایا جن کی جیب میں اس وقت صرف تین روپے تھے والد صاحب نے تین روپے میں تین کولا خریدیں ایک بیٹے کو ،ایک خود اور ایک گھوڑے کو پلائی، بالآخر انگریز سے ملاقات ہوئی والد صاحب نوادرات اٹھا کر اندرچلے گئے اور بٹ صاحب باہر گھوڑے کی لگام تھامے باہر کھڑے رہے تھوڑی دیر بعد انہوں نے دیکھا کہ والد صاحب خالی ہاتھ واپس آ رہے ہیں پتہ چلا کہ انگریز نے سارا مال تیس ہزار روپے میں خرید لیا ہے یہ 1965ء کی بات ہے جب ڈالر پانچ روپے کا تھا والد بولے سائیں بابا میں نے کہا تھا کہ اللہ کا کرم ہونے والا ہے انہوں نے بٹ صاحب کو سو روپے دیئے اپنی اہلیہ کو پانچ سو روپے!اس کے بعد وہ بٹ صاحب کو ساتھ لیکر ایک انجان جگہ لے گئے ایک مکان میں طبلے، سارنگی، باجہ اور گائو تکیے لگے ہوئے تھے تھوڑی دیر بعد ایک مرد جس کی لمبی لمبی زلفیں تھیں نے بٹ صاحب اور ان کے والد صاحب کو عطر لگایا اور پھر سازندے ساز بجانے لگے۔یہ قوالی تھی جب قوال نے ’’تیرے عشق نچایا کرکے تھیا تھیا‘‘ گانا شروع کیا تو والد صاحب نے درمیان میں چھلانگ لگائی اور حال کھیلنے لگے، انہوں نے اس کیفیت میں قمیص کے نیچے پہنی صدری میں سے لال لال نوٹ نکالنا شروع کئے اور پھینکنا شروع کر دیئے ۔جب انہوں نے سارے پیسے لٹا دیئے اور قوالی ختم ہوئی تو زمین پر گر گئے دو لوگوں نے انہیں اٹھا کر بٹ صاحب کے پاس ڈال دیا وہ لمبے لمبے سانس لے رہے تھے تقریباً آدھے گھنٹے بعد انہیں ہوش آیا تو بولے ’’چلو سائیں بابا گھر چلتے ہیں‘‘ گھر جانے کےلئے تیس ہزار روپے میں سے کچھ بھی نہیں بچا تھا، چنانچہ پیدل گھر کی طرف روانہ ہو گئے بٹ صاحب نے والد صاحب سے کہا ’’کتنی مشکل سے یہ رقم آئی تھی اور آپ نے ضائع کر دی۔بولے ’’سائیں بابا دیکھنا اللہ تعالیٰ کے اس سے بڑے کرم آنے والے ہیں!‘‘ (باقی کل)

.