ایسے اقتدار پر......؟

January 15, 2017

اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کو شکر گزار بندے بہت پسند ہیں۔ شکرگزار بندے وہ ہوتے ہیں جو ہر حال میں اپنے خالق حقیقی کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ شکرگزاری کا اصل مزہ اورلطف دولت کے پہاڑ کے اوپر بیٹھ کر اور اقتدار کی کرسی پر قبضہ جما کر آتا ہے۔ خالی جیب اور بھوکے پیٹ شکر ادا کرنا اگرچہ بڑا بلند مقام ہے لیکن مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے فاقہ کش اور بے وسیلہ کا شکر بھی ایک گلہ اور شکوہ ہی ہوتا ہوگا۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے گزشتہ بیس برسوں کے حکمرانوں کو ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ پاک نے نہ صرف انہیں پاکستان جیسے اطاعت گزار ملک کی حکمرانی سے نوازا بلکہ دولت بھی اتنی بے حساب دی کہ وہ چاہیں تو کھڑے کھڑے دنیا کا کوئی جزیرہ خرید لیں۔ تاقیامت ان کی آئندہ نسلوں کو مالی حوالے سے نہایت آسودگی اور بے فکری حاصل ہو چکی ہے۔ ان کے مقابلے میں بڑے بڑے پھنے خان ملکوں کے حکمران نہایت قابل رحم دکھائی دیتے ہیں بلکہ ان کے احوال پڑھ کر یوں احساس ہوتا ہے جیسے ان ممالک کی حکمرانی محض تہمت ہے۔ مجھے تو ان کی کسمپرسی اور غربت پر اسقدر رحم آتا ہے کہ اگر میں انہیں مشورہ دے سکوں تو خلوص نیت سے مشورہ دوں کہ وہ پاکستان میں کوئی نوکری کر لیں ان شاء اللہ ان کے سارے دکھوں کا مداوا ہو جائے گا۔ نوکری کے حوالے سے میرا آئیڈیل بلوچستان کا وہ اعلیٰ بیوروکریٹ ہے جس پر 40 ارب روپے کے غبن کا الزام ہے لیکن وہ پلی بارگین کی برکت سے دو ارب روپے واپس کر کے قیدوبند کی صعوبتوں سے بچ نکلا ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ اور کینیڈا کے حکمرانوں کا ذکر کرتے ہوئے شرم سی آتی ہے۔
امریکہ بڑا پھنے خان بنا پھرتا ہے۔ امریکہ خود کو سپرپاور کہتا ہے اور دنیا اس کی طاقت سے خوفزدہ رہتی ہے۔ جنرل مشرف جیسے ’’بہادر‘‘ اور ’’نڈر‘‘ حکمران کا یہ حال تھا کہ جب نائن الیون کے بعد امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ نے اسے دھمکی دی کہ ہماری تابع فرمانی کرو ورنہ تمہارے ملک کو تورا بورا کی پہاڑیوں میں بدل دیں گے تو جنرل صاحب کی ٹانگیں اور کرسی دونوں کانپنے لگیں اور اس نے سوچے سمجھے بغیر دست بستہ عرض کی کہ مائی باپ ہم آپ کے غلام ہیں حکم کیجئے آپ کا ہر حکم سرآنکھوں پر۔ اس امریکہ کے حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ صدر اوباما کی رخصتی میں چند دن باقی رہ گئے ہیں۔ پرسوں وہ ایک تقریب، ازقسم الوداعی تقریب، میں تقریر کرتے ہوئے آنسو بہانے لگے۔ میں نے واشنگٹن کے اعلیٰ ترین تھنک ٹینک کے ایک متحرک رکن سے پوچھا کہ کیا تمہارے صدر صاحب اقتدار سے جدائی کے صدمے سے نڈھال ہو کر رو رہے تھے؟ اس کا جواب دلچسپ تھا جسے سن کر مجھے اوباما اور اس کے ساتھیوں پر ترس آیا اور مجھے خیال آیا کہ ہمارے حکمرانوں کو ہر لمحہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے جو امریکی صدر سے لاکھوں گنا بہتر حالت میں ہیں۔ تھنک ٹینک کے اعلیٰ رکن کا کہنا تھا کہ اگرچہ امریکی صدر کو پنشن ملتی ہے لیکن اس سے سارا خرچہ پورا نہیں ہوتا۔وائٹ ہائوس سے نکلنے کے بعد صدر اوباما کی بیوی مشعل کو بھی نوکری کرنی پڑے گی اور خود اوباما کو بھی کوئی ذریعہ آمدنی تلاش کرنا پڑے گا ورنہ اخراجات پورے نہیں ہوں گے۔ گویا صدر اوباما مستقبل کے اندیشوں کے سبب تقریر کرتے ہوئے آنسو ضبط نہ کرسکے۔ اس تھنک ٹینک کا یہ رکن وائٹ ہائوس کے قریب سمجھا جاتا ہے۔
کہنے لگا کہ تم نے اس تقریب کا حال بھی پڑھاہوگا جس میں صدر اوباما نے اپنے نائب صدر جوبائیڈن کو امریکہ کا اعلیٰ سول اعزاز ’’میڈل آف فریڈم‘‘ دیا۔ امریکہ کا نائب صدر کسی وقت بھی صدر بن سکتا ہے۔ اگر صدر وفات پا جائے یا اس کا مواخذہ کر کےاسے اقتدار سے محروم کر دیا جائے تو نائب صدر امریکہ کا صدر بن جاتا ہے۔ امریکی نائب صدر جوبائیڈن بھی اس ایوارڈ کی تقریب میں پرنم آنکھوں کو ٹشو سے خشک کرتے پائے گئے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا نائب صدر کو بھی اقتدار سے جدائی کا غم کھائے جارہا تھا؟ اس کا جواب تھا کہ یہاں اقتدار سے فراق کا غم کسی کو نہیں ہوتا کیونکہ اول تو اقتدار کو بھاری ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ صدر سیاہ بالوں کے ساتھ وائٹ ہائوس میں آتا ہے اور سفید بالوں کے ساتھ رخصت ہوتا ہے۔ دوم یہ کہ جب یوم اول سے اقتدار کی معیاد کا علم ہو تو پھر جدائی کا غم کیونکر ہوگا۔ دراصل نائب صدر جوبائیڈن کے آنسو شکرگزاری کے آنسو تھے۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ اس نے جواب دیا تم نے اخبارات میں پڑھا ہوگا کہ نائب صدر جوبائیڈن کا بیٹا ایک طویل بیماری میں مبتلا ہوگیا تھا۔ اس کے علاج پر جوبائیڈن کا اتنا خرچ ہوا کہ زندگی کی ساری بچت ختم ہوگئی اور اس نے اپنا اکلوتا مکان فروخت کرنے کا اعلان کردیا۔ صدر اوباما کو اس صورت حال کا علم ہوا تو انہوں نے جوبائیڈن کو گھر بیچنے سے منع کیا اور بیٹے کے علاج کے لئے اپنے پاس سے قرض دیا۔ جوبائیڈن اپنی غربت کے ذکر اور صدر اوباما کے احسان کو یاد کر کے اس تقریب میں رو پڑے۔ سچی بات یہ ہے کہ میرے لئے یہ ساری باتیں الف لیلیٰ کی داستان تھیں۔
میری محدود سمجھ میں کچھ نہ آیا کیونکہ میں جس ملک میں رہتا ہوں وہاں تو ایک وزیر کا نوکر بھی اسپتال میں آجائے تو ڈاکٹر صاحبان سارا کام چھوڑ چھاڑ کر اس کے علاج میں مصروف ہو جاتے ہیں اور دوائیوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ میرے ملک کے حکمران تو اپنے پسماندہ ملک میں علاج کروانا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور سرکاری خزانے کے بل بوتے پر بیرون ملک علاج کرواتے ہیں۔ امریکہ کا نائب صدر اسقدر غریب اور بے بس ہوتا ہے کہ اپنے لخت جگر کا علاج بھی افورڈ نہیں کرسکتا۔ ہمارے تو پٹواری اور تھانے دار بھی جوبائیڈن سے زیادہ دولت مند ہوتے ہیں۔ سیاستدانوں، وزراء اور حکمرانوں کے تو کیا کہنے۔ وہ جہاں بھی قدم رکھیں دولت کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ مجھے امریکہ کے حکمرانوں پر اس قدر ترس آیا کہ میں نے امریکہ کو سپرپاور کہنا چھوڑ دیا ہے۔ انسان اقتدار کی خواہش کرتا ہے شان و شوکت اور دولت بنانے کے لئے۔ جس اقتدار میں نہ شان ہو اور نہ ہی دولت اس اقتدار پر لعنت۔



.