نام نہاد آزادی رائے کا فتنہ

January 16, 2017

آزادی رائے کا مطلب اگر مادر پدر آزادی ہے تو میں اسے نہیں مانتا اوراسی لیے صحافت میںہوتے ہوئے بھی اس کی ہمیشہ مخالفت کی۔ اگر آزادی رائے کا مطلب کوئی یہ لیتا ہے کہ کوئی بھی اُٹھ کر گستاخی تک کرنے کا ارتکاب کر سکتا ہے تو میری نظر میں اس سے بڑا کوئی فتنہ ہو نہیں سکتا کیوں کہ الفاظ اور قلم کے غلط استعمال کی کاٹ تلوار سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے اور یہ تکلیف اُس وقت بہت بڑھ جاتی ہے جب آزادی رائے کے اس فتنہ کا نشانہ کوئی خاص مذہب اور اُس کے ماننے والے ہوں۔ اسی آزادی رائے کے فتنہ کو استعمال کرتے ہوئے مغربی میڈیا نے اسلام مخالف فلمیں بنائیں اور گستاخانہ مواد بار ہا شائع کیا جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کی۔ اسی نام نہاد آزادی رائے کے فتنہ کے نتیجے میںدنیا میںکئی جگہ انتشاراور فساد پھیلا لیکن مغرب ہے کہ آزادی رائے کے اس فتنہ پر بند باندھنے کے لیے تیار نہیں اور اس کی وجہ اسلامی دشمنی کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان سمیت دوسرے اسلامی ممالک اس مسئلہ کواقوام متحدہ سمیت دنیا بھرکے مختلف فارمز پر اٹھاتے تاکہ ایک ایسے فتنہ کو ختم کیا جا سکے جو نہ صرف دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب بنتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے نفرتیں بڑھتی ہیں، احتجاج ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں اب تک بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا بھی ضیاع ہو چکا ہے ۔ اس سلسلے میں مسلمان ممالک کے میڈیا، دانشوروں،سول سوسائٹی وغیرہ پر بھی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلام مخالف اس فتنہ کو نہ صرف رد کریں بلکہ مغرب کو بھی باور کرائیں کہ اس سے انسانیت کی کسی قسم کی کوئی خدمت نہیں ہورہی بلکہ اس کی وجہ سے معاشرہ میں نفرتیں پیدا ہوتی ہیں اورانسان دشمنی کے رجحانات بڑھتے ہیں۔ اس فتنہ کے خاتمہ کے سلسلے میں اسلام کی تعلیمات بہترین حل پیش کرتی ہیں اور وہ یہ کہ کسی کے مذہب کو بُرا مت کہو اور مذاق مت اُڑاو۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے گزشتہ چند سالوں سے مغرب کے نام نہاد آزادی رائے کے فتنہ کو پاکستان میں بھی رواج دینے کی باتیں ہو رہی ہیں اور اس سلسلے میں ہمارا اپنا میڈیا، اہل دانش ،سول سوسائٹی اور سیاست میں موجود ایک طبقہ اس مہم جوئی میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔ ایسا کرنا نہ صرف ہمارے آئین و قانون کے خلاف ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ ان دنوں گمشدہ بلاگرز (bloggers)کے نام پر انسانی حقوق اور آزادی رائے کی بہت باتیں ہو رہی ہیں۔ چند دنوں میں ہی اس مسئلہ کو اتنا اچھالا گیا اور یکطرفہ طور پر اس انداز میں اچھالا گیا کہ امریکا، برطانیہ اور یورپ تک نے حکومت پاکستان سے ان بلاگرز کی فوری برآمدگی اور اُن کے تحفظ کے ساتھ ساتھ آزادی رائے اور انسانی حقوق کی پاسداری کا مطالبہ بھی پیش کر دیا۔ نہ میڈیا اور نہ ہی حکومت، پارلیمنٹ، سول سوسائٹی نے اس طرف توجہ دی کہ آخر ان بلاگرز نے کیا کیا کہ انہیں مبینہ طور پرغائب کر دیا گیا۔ اس معاملہ میں سوشل میڈیا میں کچھ مواد شئیر کیے جانے لگا اور بعد ازاں چند ایک ٹی وی شوز میں بتایا گیا کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ اب تک جو اطلاعات مختلف ذرائع سے گمشدہ بلاگرز کے متعلق حاصل ہو رہی ہیں وہ انتہائی قابل مذمت اور خطرناک نوعیت کی ہیں۔ جو کچھ چند ایک ٹی وی چینلز کے شوز میں بتایا گیا اور جو سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آ رہا ہے اگر وہ سچ ہے تو یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بغیر کسی اندرونی و بیرونی دبائو کے ان افراد کو فوری طور پر باقاعدہ گرفتار کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی جائے، انہیں عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ اگر ان پر لگے الزامات درست پائے جائیں تو انہیں نشان عبرت بنادیا جائے۔ اس سارے معاملہ میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کیاجائے اور اس کی ذمہ داری اسٹیٹ خود اُٹھائے۔ ایسے حالات میں حکومت اور پارلیمنٹ کی طرف سے تصویر کے صرف اُس رخ پر توجہ دینا جسے مغرب اور نام نہاد آزادی رائے کے چیمپئین دیکھانا چاہتے ہیں، ایک ایسی غلطی ہو گی جس سے خرابی ہی پیدا ہوگی۔ اس لیے بہتر یہی ہو گا کہ جن پر الزام ہے انہیں انصاف کے کٹھرے میں لا کھڑا کیا جائے اور ملک کے قانون کے مطابق اس معاملہ سے نپٹا جائے۔

.