ہم یوتھ کو کس طرف لے جارہے ہیں؟

January 30, 2017

اپنی ٹیچر کے عشق میں مبتلا ساتویں جماعت کے طالبعلم نے عشق میں ناکامی پر خودکشی کر لی، دوہفتے قبل اسلام آباد کے علاقے ترنول کے ایک پرائیویٹ اسکول میںپیش آنیوالایہ واقعہ نہ تو دماغ سے محو ہورہا ہے اور نہ ہی اس پر یقین آرہا ہے۔ کیونکہ پندرہ سالہ اُسامہ اپنی ٹیچر سے شادی کرنا چاہتا تھا جب اُسے سمجھایا اور ڈانٹ ڈپٹ کی گئی تو اس نے خود کو اپنے والد کے پستول سے گولی سے اڑالیا، وہ والد کا یہ پستول پوری منصوبہ بندی سے اسکول لیکر آیا اور پرنسپل کے نام ایک خط لکھ کر جو اپنے چھوٹے بھائی کو دیا کہ وہ سو تک گنتی گن کر یہ خط پرنسپل کو دے دے، اسی دوران بچے نے خود کو گولی ما رلی، گو اس نے اپنے خط میں لکھا کہ وہ مجبور ہے، مرنا نہیں چاہتا، ہو سکے تو اُسے بچا لیا جائے مگر سوشل میڈیا کے اس دور کا کمسن مجنوں حکمرانوں اور والدین کیلئے بہت سے سوالات پیدا کر گیا ہے۔عشق ومحبت کا یہ سانحہ جب اسلام آباد میں وقوع پذیر ہورہا تھا تو یہ خبر بھی آ رہی تھی کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز اینڈ ریگولیشنز کو وزارت صحت حکام نے بتایا کہ اسلام آباد کے اکثر اسکولوں اور کالجوں میں منشیات کا استعمال عام ہے یہاں کے تعلیمی اداروں کے پچاس فیصد بچے اس لت میں مبتلا ہو چکے ہیں جبکہ دیگر چار بڑے شہروں میں بڑی تعداد میں طلباء و طالبات منشیات کے عادی ہیں۔ قائداعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر حکام سے درخواست کر رہے ہیں کہ نوجوانوں کو منشیات کی سپلائی روکنے کیلئے یونیورسٹی کی بیرونی دیوار بنائی جائے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں منشیات سرعام فروخت ہوتی ہیں اور اس نشے میں 76لاکھ افراد مبتلا ہیں اور ان سب کی عمریں 24سال سے کم ہیں۔ اس واقعہ سے چندر وز پہلے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ایک اہم نجی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ایک طالبعلم کی اچانک ہلاکت کے بعد ابتدائی رپورٹس سے پتہ چلا کہ اسکی ہلاکت نشے کی زیادتی کیوجہ سے ہوئی جبکہ انہیں دنوں چنبہ ہائوس لاہور میں ایک ایم این کے کمرے میں ایک خاتون بھی نشے کی زیادتی کی وجہ سے مردہ پائی گئی۔ یہ تینوں کوئی معمولی نوعیت کے ایشو نہیں تھے مگر اہل اقتدار اور اپوزیشن کو پاناماکھیل سے فرصت ہی نہیں، ایک دوسرے کو گالم گلوچ کے نشے کی لت پڑی ہوئی ہے کہ قومی اسمبلی میں بھی نازیبا اشارے، گالیاں اور ہاتھا پائی ہورہی ہے اور پارلیمنٹ لاجز میں ہر روز خالی بوتلیں قانون بنانے اور عمل کرانے والوں کا مُنہ چڑھا رہی ہوتی ہیں۔ انکے کسی ساتھی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ان سب کے ڈوپ ٹیسٹ کروا ئے جائیں تو بڑی تعداد نشےکی عادی نکلے گی۔—جب قانون بنانیوالوں کی حالت یہ ہوگی تو ہم سدھار کی توقع کس سے کر سکتے ہیں سوائے اس کے کہ ایسے واقعات سے جنم لینے والے سوال اٹھا سکیں کہ شاید ان میں سے کبھی کسی کو احساس ہو کہ خودکشی کرنیوالا اُنکا بیٹا یا بھائی بھی ہو سکتا تھا، یونیورسٹیوں یاکالجوںمیں پڑھنے والی بیٹیاں جو نشے کی لت پڑنے سے اپنی زندگیاں برباد کر رہی ہیں وہ اُنکی بیٹیاں بھی تو ہو سکتی ہیں۔ممکن ہے جب انکا ضمیر جاگے، ان کو بیکار کے کاموں سے فرصت حاصل ہو تو پھر اسکا حل بھی تلاش ہو سکے اور یہ بھی سوچ سکیں کہ ہم کو اپنی نئی نسل اور اس ملک کے مستقبل کی تربیت بھی کرنی ہے۔ جو ملک کی آبادی کا 50فیصد سے زیادہ ہے۔
صوبائی دارالحکومت اور دیگر شہروں میں نشے کی لعنت سے کوئی طبقہ، کوئی شعبہ، کوئی علاقہ محفوظ نہیں، پسماندہ علاقوں میں سستانشہ جبکہ ہائی کلاس علاقوں میں مہنگی ترین ڈرگس کی فروخت اور استعمال عروج پر ہے۔ لیکن افسوس کہ حکومتی نمائندے اور قانونی مشینری حرکت میں کیوں نہیںآتی، ایف آئی اے، پولیس، انٹی نارکوٹکس فورس اور ڈرگز انسپکٹر ز سمیت دیگر بااختیار ادارے کہاں سو گئے ہیں کہ سرعام نشے کی فروخت ہو رہی ہے۔ یہ کیوں پتہ نہیں لگایا جاتا کہ منشیات کہاں سے آتی اور تعلیمی اداروں کے اندر تک کیسے پہنچتی ہیں؟۔ حکمرانوں کو سوچنا چاہئے کہ کیا ہم بامقصد تعلیم دے رہے ہیں؟ وہ ٹیچر کہاں گئے جو طالب علموں کی تربیت کیا کرتے تھے ؟ وہ والدین کدھر ہیں جو بچوں پر نظر رکھتے تھے کہ اُنکے بچوں کی سرگرمیاں کیا ہیں؟ وہ بچے کہاں کھو گئے جو اپنے والدین کی عزت و احترام کو مقدم رکھتے اور اُنکا کہا مانا کرتے تھے ؟ شاید اب وہ نہ مل سکیںکیونکہ اب کوئی چیک نہیں، کوئی قانون نہیں، کوئی طریقہ کار نہیں کہ والدین یہ جان سکیں کہ اُنکے بچے سوشل میڈیا کا کیا استعمال کر رہے ہیں، کون کونسی غلاظت، کون کونسی ویب سائٹس ایک بٹن کی پش پر اُنکے کنٹرول میں ہیں؟کیا حکمرانوں کو اپنے مفادات کے تحفظ کے علاوہ کبھی یہ فرصت حاصل ہوئی ہے کہ وہ سوچ سکیں کہ قوم کے معماروں کو کیا دکھانا چاہئے اور کیا نہیں ؟ سوشل میڈیا پر کس کس طرح کا سامان ہے، کونسی ویب سائٹس قابل اعتراض اور اخلاق باختہ ہیں، ان پر فلٹر نہیں لگایا جا سکتا ؟ کیا ملک میں کوئی ایسا قانون یا ضابطہ اخلاق موجود ہے کہ قوم کے مستقبل کے معماروں کی تربیت کی جاسکے ؟ کیا کبھی حکمران یہ سوچنے کی زحمت کرینگے کہ ہم نے ایک چھوٹے بچے سے لیکر 70 سالہ بزرگ کے ہاتھ میں سمارٹ فون اور میڈیا کا رموٹ بغیر کسی کوڈتھما کر گنجے کے ہاتھ استرا نہیں پکڑا دیا، جنہیں استرا چلانے کی تربیت بھی نہیں دی اور وہ انسانیت، اخلاقیات اور تہذیب کا قتل کر رہے ہیں؟ کیا حکومت نے کبھی یہ چیک کرنیکی کوئی تدبیر کی ہے کہ بچے رات بھر سوتے نہیں اور انٹرنیٹ کی اس ٹیکنالوجی کے غلط استعمال سے رات بھر عشق کی داستانیں رقم کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے تعلیم کو برائے فروخت نہیں بنا دیا اور بے مہار تعلیم کے ذریعے والدین کو محبور کر دیا ہے کہ وہ اسکے ذریعے لوٹ مار اور آسائشیں حاصل کر یں؟ کیا کبھی حکمرانوں نے سوچا ہے کہ ترقی یافتہ اور ماڈرن دنیا کے باسی ہونے کا جو تصور ہم دے رہے ہیں وہ نہ صرف بچے کچھے صحت مندمعاشرے اور خاندانی نظام کو تباہ کریگا بلکہ ہمارے نظریئے اور اخلاقیات کا دیوالیہ کر دیگا اور نوجوانوں کی خودکشیوں کو فروغ دیگا ؟ کیا حکمرانوں نے کبھی اس ملک میں کلچر پالیسی بنانے کی کوشش کی ہے جو ہمارے مذہب اور اخلاقیات کے مطابق ہو؟ بس آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ اگر اب بھی ہم نے نئی نسل کی اخلاقی تربیت اور خصوصاً سوشل میڈیا کو کسی ضابطہ اخلاق کے تحت کنٹرول نہ کیا تو ایسی بے راہ روی اور بے حیائی کی کہانیاں جنم لیں گی جن سے کسی کوبھی استثنیٰ حاصل نہیںہوگا ! ذراسوچئے تو صحیح کہ ہم یوتھ کو کس طرف لے کر جارہے ہیں؟

.