خواتین کے ساتھ بدسلوکی حد سے بڑھ گئی

February 02, 2017

بہت فخرکی بات کہ ہمارے ملک کے نوجوان مصور عمران قریشی کو امریکہ میں نہ صرف اعلیٰ انعام ملا ہے بلکہ ہر طرف اس کی تعریف بھی ہو رہی ہے، آپ کو یاد ہوگا چند سال پہلے شازیہ سکندر کو بھی عالمی سطح پر سراہا گیا تھا، اب پاکستان بھر میں بلوچی مصور اکرم دوست بلوچ کی تخلیقات کو پاکستان اور خاص کر بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی سے لیکر دانشوروں کے ساتھ گولی کی زبان میں جوگفتگو کی جارہی ہے اس کوپینٹنگز کی صورت میں پیش کیا گیا ہے، ان دونوں کی مصوری کو مجھے ڈر ہے سلیمان حیدر اور دوسرے دوستوں کو غائب کرنے کی توجیہہ میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا احمد فراز کی نعتیہ شاعری کو بھی کوثر نیازی نے اسمبلی میں کھڑے ہوکر، اسلام کے منافی قرار دیا تھا، اب لاہور، پنجاب یونیورسٹی میں ایک طالب علم نے فیض صاحب کی نظم لکھی ہے تو اس پر بھی فرد جرم عائد کی گئی ہے، یہ بات میں اس لئے کر رہی ہوں کہ رافعہ ذکریا جو کہ معروف کالم نگار ہیں، انہوں نے توجہ دلائی ہے کہ ان لمحوں میں جب لبرل لوگوں پہ حرف زنی ہورہی ہے، کیا سبب کہ سنجیدہ ذہین لوگ جواب دینے کیلئے سامنے نہیں آرہے، یہ بالکل اس طرح ہے کہ روز اسمبلی میں جواب دیا جاتا ہے کہ پاکستان نے طالبان اور دہشت گردوں کا قلع قمع کردیا ہے، دوسری جانب ہر روز صبح کے بلیٹن میں سارے چینل نشر کرتے ہیں کہ اتنے دہشت گرد یا کالعدم تنظیم کے کارکن گرفتار کرلئے گئے… بقول سبط حسن اور ڈاکٹر مبارک علی یہ غلطی ہماری ہے کہ ہم نے مذہب کی توضیح، چند لوگوں پر چھوڑ دی چاہے۔
مجھے تو عاطف اسلم جیسے خوبصورت گانے والے نوجوان پر رشک آتا ہے کہ ایک طرف کنسرٹ میں بدتمیزی کرنے والے نوجوان کو گانا چھوڑ کر باہر نکال کر آتا ہے اور دوسری طرف کہتا ہے کہ خواتین میں خود اعتمادی کا اعلان جب تک مرد کرتے رہیں گے اور عمل نہیں کریں گے، خود اعتمادی کیسے آئے گی، شکارپور میں چار ماہ کی بچی اور دوسال کے لڑکے کا اور چار سال کی لڑکی اور آٹھ سال کے لڑکے کا وٹے سٹے میں بیاہ کرنے والوں کو علاقے کے لوگوں اور پولیس نے روکا، مثال قائم کی کہ عوام باشعور ہونے لگے ہیں، مگر ہر جگہ کے لوگ تو باشعور نہیں ہیں، ابھی قانون نافذ کیا گیا ہے کہ نکاح خواں، وہ جو ساری شقوں مع حق طلاق پر لکیر پھیر دیتا تھا، اگر اس نے اب کیا تو جرمانے کا سزا وار ہوگا، ایسی چھوٹی چھوٹی ترمیمیں، معاشرے سے وحشت ناک رسموں کا خاتمہ کرسکتی ہیں، ایوب خاں کے زمانے میں آرڈر ہوئے تھے کہ شادی پر صرف چائے اور دو چیزیں پیش کی جاسکتی ہیں اور جہیز کی نمائش نہیں ہوگی کیا ہم اس آرڈر کی جانب لوٹ نہیں سکتے۔
جس طرح ویت نام کامسئلہ حل کرنے کیلئے عالمی ٹریبونل بنایا گیا تھا جس میں پاکستان سے محمودعلی قصوری اور طارق علی بھی شامل تھے (حوالہ مضمون زاہدہ حنا) اس طرح ہم کیوں مطالبہ نہیں کرتے کہ کشمیر کیلئے بھی عالمی ٹریبونل بنایا جائے کہ نوجوانوں کے ذہنوں سے خاص کر کشمیری، یہ جنگ کا عذاب اترجائے یہ عذاب تو یمن، شام اور عراق میں لوگوں کو گزشتہ سالوں سے بے گھر کر رہا ہے، بوکوحرام ہو کہ داعش، مسلمانوں کو مسلمان مارہے ہیں، اب کہاں سے برٹینڈرسل آئے گا کہ جو جنگ کیخلاف بولے۔ عاطف اسلم تم ہی جنگ کیخلاف ایسے گیت گائو جیسے بیٹلز نے امریکہ میں گائے تھے، دہشت گردی کرنے والے بھی مسلمان اور جنگ میں مارے جانے والے بھی مسلمان، فریاد کس سے کریں۔
یمن اور شام جیسے خوبصورت ممالک جو اسلامی تہذیب کے آئینہ دار تھے، وہاں نہ بجلی ہے نہ بلڈنگ، ادھر افغان صدر بھی پاکستان کیخلاف ایسے بیان دے رہے ہیں کہ جیسے دشمن، وہ سارے مظالم کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔
تمام تر بحران کی ذمہ داری امریکہ پر ہے، وہ امریکہ جس کی ساری قوت اس شخص کے ہاتھ میں جارہی ہے جس نے بے پناہ دولت اکٹھی کی اور خرچ کرکے صدارت کے منصب پر فائز ہوا، آپ کے سامنے ہے کہ اوباما کو نوبیل انعام ملا، اس نے نوبیل انعام کی عزت بھی نہ رکھی، شام اور یمن میں جنگ کو بڑھاوا دیتا رہا۔
پاکستان میں بھی وزیر داخلہ کے کہنے کے مطابق، دہشت گردی کے 498 کیس نہ صرف رجسٹر ہوئے، لوگوں کو سزائیں بھی ملیں مگر ابھی یہ سلسلہ تھما نہیں…شاید اس لئے اوباما نے الوداعی فون، انڈین پرائم منسٹر اور افغان صدر کو کیا، پاکستان کے ساتھ ایسی محبت کیوں نہیں دکھائی، پاکستان رہنماچاہے وہ بلاول ہوں کہ نوازشریف، وہ اپنے ساتھ ملانے کو نہ غریب کی بات کرتے ہیں اور نہ انہیں ساتھ لیکر چلے ہیں، یہ صرف بھٹو صاحب تھے کہ کام تو صرف اتنا کیا کہ غریبوں کو پانچ مرلے زمین دیکر تمام غریبوں کی یادداشت میں امر ہوگئے۔

.