مردم شماری میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں، وجیہہ الدین احمد

February 23, 2017

سپریم کورٹ کے سابق جج اور حال ہی میںتشکیل پانے والی سیاسی جماعت ’عام لوگ اتحاد‘ کے رہنما جسٹس وجیہہ الدین احمد نے اگلے ماہ شروع ہونے والی مردم شماری سے متعلق سپریم کورٹ میںایک درخواست دائر کی ہے جس میںموقف اختیار کیا گیا ہےکہ چونکہ مردم شماری آئین کےآرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت ہر دس سال بعد لازمی قراردی گئی ہےلہذا اس عمل کو دہرانا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہےلیکن 1998سے اب تک 18سال گزرجانے کے باوجود مردم شماری نہیںہوئی۔

درخواست میںکہاگیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مردم شماری کرانے میں سنجیدہ نہیں ۔مردم شماری میں رکاوٹیں ڈالنے کا عمل جاری ہے۔ بلوچستان اور خبیرپختونخواہ کے خان اور سردار مردم شماری کو شاہانہ زندگی چھن جانے کا باعث سمجھتے ہیںجبکہ حکومت سندھ صرف دیہی آبادی کی نمائندہ نظر آتی ہے اور شہری آبادی کو بھی دیہی میں شمارکرنے کی خواہاں ہے۔

درخواست میںموقف اختیار کیا گیا ہے کہ سندھ میں شہری آبادی میں اضافہ ہوا ہے لہذا وسائل کی منصفانہ تقسیم ضروری ہے۔مردم شماری کے لئے وفاق سے رابط کرکے صوبائی سینس کمیٹیوں کو شامل کرنے اور مردم شماری سے قبل نادرا سے شناختی کارڈز کے جلد اجراء کے لئے رابطہ کیا جارہاہے۔

جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا ہے کہ 1998 کی مردم شماری اور انٹرنیٹ پر اعداد و شمارکے مطابق پاکستان کی آبادی 13 کروڑ 23 لاکھ 52 ہزار جبکہ اسی ذرائع کے مطابق 2016 میں پاکستان کی آبادی 19 کروڑ37 لاکھ50ہزار ہے ۔دلچسپ بات یہ ہےکہ 2011 کی خانہ شماری کے مطابق ملک میں 19 کروڑ25لاکھ27ہزار539 یونٹس موجود ہیں۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ انہوںنے سیکریٹری شماریات، چیف شماریات اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر مطالعہ آبادی کو آبادی کی تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست کی لیکن انہیں جواب نہ مل سکا۔

حکومت سندھ آئین کے برخلاف وفاقی حکومت اور مشترکہ مفادات کونسل کے مردم شماری کے اختیارات کو استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہے جو غیرآئینی ہے۔سندھ میں صوبائی سینسس کمشنرکی تقرری کرلی گئی جبکہ سینسس مٹیریل بھی چھپوالیا گیا ہے ۔

سندھ میں معاملہ حساس ہے مردم شماری کے آغاز سے قبل حکومت سندھ صرف دیہی علاقوں میںشناخی کارڈ بنوانے کے لئے زور دے رہی ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کی صورت حال بھی صوبہ سندھ سے مختلف نہیں ہے۔

بلوچستان میں کہا جارہاہے کہ موجودہ حالات میں مردم شماری ہونے سے بلوچ اپنے ہی صوبے میں اقلیت میں ہوں گے۔

درخواست میںموقف اختیار کیا گیا ہے کہ بلوچستان سے سندھ اور پنجاب میں ہجرت کرنے والوں کا شمار ان کی رہائشی جگہوں پر کیا جاسکتا ہے ،اگر افغان پاکستانی شناختی کارڈ بنوا چکے ہیں تو ان کی اسکریننگ کرکے انہیںشمار کیا جائے اور بعد میں یہ شناختی کارڈ منسوخ کردئیے جائے اور انہیں دیگر قانونی دستاویزات جاری کی جائیں ۔شماریات کے عمل میں یہ معاملات رکاوٹ نہیں ہیں۔

ؒخیبرپختونخواہ میں صوبائی رہ نما تحفظات کا اظہار کررہے ہیں کہ افغان پناہ گزین جو غیر قانونی طور پر شناختی کارڈ حاصل کرچکے ہیں ایسے میں پختون اقلیت میں آجائیں گے۔۔یہ کوئی منطق صحیح نہیں ہے ۔۔خیبر پختونخواہ کی آبادی میں اضافے سے صوبہ بہتر مفادات حاصل کرسکے گا۔

2011 کی خانہ شماری کے مطابق پنجاب کی خانہ شماری ملک کا 48 فیصد ہے ۔1998 کی مردم شماری میں پنجاب کی سالانہ شرح اضافہ دو اعشاریہ 64 جبکہ سندھ کی دو اعشاریہ 80 فیصد ریکارڈ کی گئی ۔یہ صورت حال پنجاب کو قومی اسمبلی کی 148 سیٹوں کے حصے پر اثرانداز ہوگی اس لئے کچھ قوتیں مردم شماری میں رکاوٹ ہیں۔

پاک فوج کی جانب سے قومی شماریات کے عمل کو اہمیت د ی گئی ہے 48 ہزار کی بجائے2 لاکھ ٹروپس فراہم کئے جارہےہیں ۔صرف افواج پاکستان کا کندھا استعمال کرنے کی بجائے قابل اعتماد اداروں اور عدلیہ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

’عام لوگ اتحاد‘ کی جانب سے استدعا کی گئی ہے کہ وفاقی حکومت کو آئین کے مطابق مردم شماری مقررہ وقت میں مکمل کرانے کا پابند کیا جائے۔ مردم شماری کرانے کا اختیار صرف وافق اور مشترکہ مفادات کونسل کی ذمہ داری ہے۔صوبائی حکومتوں کو محکمہ شماریات سے بالواسطہ یا بلا واسطہ رابطہ نہ کرنے کا پابند بھی بنایا جائے۔

مردم شماری میں صرف پاکستانی شہری ہی نہیں بلکہ وہ تمام لوگ جو اس وقت ملک میں موجود ہوں انہیں تصدیق کے بعد مردم شماری میں شامل کیا جائے۔نادرا کو پابند کیا جائے کہ مردم شماری سے ایک ماہ قبل تک شناختی کارڈ جاری کرے۔

نادرا کو تمام غیرقانونی شناختی کارڈ منسوخ کرنے اورضرورت ہو تو متبادل دستاویزات جاری کرنے کی ہدایت کی جائے۔مردم شماری کے نتائج کا اعلان فوج اور شریک اداروں کے نمائندوں کی تصدیق تک نہ کیا جائے۔محکمہ شماریات اور آبادی کو معلومات فراہم کرنے کا حکم دیا جائے۔