بھگوان اور میں

March 21, 2017

مجھے پریشان دیکھ کر بھگوان نے پوچھا۔ ’’کیا بات ہے؟ تم اس قدر پریشان کیوںہو؟‘‘
میںنے بھگوان سے کہا ’’تم تو دلوں کے حال خوب اچھی طرح سے جانتے ہو۔ پھر مجھ سے کیوںپوچھتے ہو؟‘‘
بھگوان نے کہا ’’میںتمہارے منہ سے سننا چاہتا ہوں‘‘
میںنے کہا۔ ’’میںسوچنا چاہتا ہوں۔ میںلکھنا چاہتا ہوں۔ میںپڑھنا چاہتا ہوں۔ میںپیا ملن کے گیت گانا چاہتا ہوں۔ کوئی ساز بجانا چاہتا ہوں۔ چتر کاری کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ تخلیقی کام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
بھگوان نے پوچھا۔ ’’پھر کرتے کیوں نہیں ہو؟ کس نے روکا ہے تمہیں؟‘‘
میںنے کہا۔ ’’میںدو لڑاکو ہمسائیوںکے درمیان پھنس گیا ہوں۔ دونوںپڑوسیوںکی لگاتار چخ چخ سے بیزار ہوگیا ہوں۔‘‘
بھگوان نے کہا۔ ’’میںتمہیں فوراً کسی ایسے ملک بھیج دیتا ہوںجہاںپڑوسی ممالک چاند کے چکر میں پڑے ہوئے نہیںہوتے۔ وہ چاند دیکھ کر اپنے تہواروں کے فیصلے نہیں کرتے۔ وہ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔‘‘
’’نہیں۔ میںیہاںسے کہیںجانا نہیں چاہتا۔‘‘ میںنے کہا۔ ’’میری تاریخ، میرا جغرافیہ، میری یادیں دونوںہمسایوں کے درمیان بٹی ہوئی ہیں۔ میںگھٹ گھٹ کر مرجائوںگا۔ مگر دوسرے کسی ملک نہیں جائوں گا۔‘‘
’’تو پھر حالات سے سمجھوتا کرلو۔‘‘ بھگوان نے کہا۔ ’’لکھنے، پڑھنے، تخلیق کرنے کے بارے میں سوچنا چھوڑ دو۔‘‘
میں نے پلٹ کر بھگوان کی طرف دیکھا۔ وہ اطمینان سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میرے دوستوں اور دشمنوں کا کہنا ہے کہ میںسچ مچ کے بھگوان سے باتیںنہیں کرتا۔ میں اپنے سر گواسی دوست ڈاکٹر بھگوان داس کی آتما سے باتیںکرتا رہتا ہوں یہ درست ہے کہ ڈاکٹر بھگوان داس کے مرنے کا مجھے بہت دکھ ہے۔ وہ میری وجہ سے مارا گیا تھا۔ یہ ایک الگ قصہ ہے۔ پھر کبھی آپ کو سنائوں گا۔ فی الحال میں آپ کو صرف اتنا بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں جس بھگوان سے باتیں کرتا ہوں وہ میرے سرگواسی دوست ڈاکٹر بھگوان داس کی آتما نہیں ہے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ جب کوئی ہندو مرتا ہے تب ہم اسے سرگواسی کہتے ہیں۔ اور جب کوئی مسلمان مرتا ہے تب ہم اسے مرحوم کہتے ہیں۔ مرنے کے بعد ایک ہندو مرحوم نہیںہوسکتا۔ اسی طرح مرنے کے بعد مسلمان سرگواسی نہیںہوتا۔ انگریزی زبان میں سرگواسی اور مرحوم کے لئے ایک ہی لفظ ہے۔ Lateمرنے والا انگریز چاہے ہندو ہو یا مسلمان ہو اس کے نام کے ساتھ لفظ Lateلکھا جائے گا۔ جیسے Late Dr. BhagwandasیاپھرLate Dr. Abdul Kari Karim اسی طرحجب ہندو مرتا ہے تب اس کے وجود سے آتما نکل جاتی ہے یا پرواز کرجاتی ہے۔ مسلمان مرجائے تو اس کے وجود سے روح پرواز کرجاتی ہے یا نکل جاتی ہے۔ مرنے والا انگریز ہندو ہوچاہے مسلمان ہو، اس کے وجود سے Soul پرواز کرجاتی ہے۔
میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جس سے میں باتیں کرتا رہتا ہوںوہ سرگواسی ڈاکٹر بھگوان داس کی آتما نہیںہے۔ وہ بھگوان ہے۔ وہ ہمیشہ سے میرے ساتھ ہے، یا میںبھگوان کے ساتھ ہوں۔ میںجب چھوٹا تھا تب بھگوان بھی چھوٹا ہوتا تھا۔ میرے ساتھ گلیوں میںگلی ڈنڈا کھیلتا تھا۔ پھر جب میںبڑا ہوا تھا تب بھگوان بھی بڑا ہواتھا۔ وہ میرے ساتھ کرکٹ کھیلتا تھا۔ اب جب کہ میںبوڑھا ہوگیا ہوں، بھگوان بھی مجھے بوڑھا دکھائی دیتا ہے۔ مجھے مجذوب یا کھسکا ہوا ثابت کرنے کے لئے میرے دوست اور دشمن پوچھتے ہیں کہ بھگوان صرف تجھے کیوں دکھائیدیتا ہے۔ ہم لوگوںکو دکھائی کیوںنہیںدیتا۔ میں نے ایک مرتبہ بھگوان سے پوچھا تھا۔ ’’تم صرف مجھے کیوں دکھائی دیتے ہو؟ دوسروں کو دکھائی کیوں نہیں دیتے؟‘‘
بھگوان نے کہا تھا۔ ’’میںصرف اس کو دکھائی دیتا ہوںجو مجھے دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘
مجھے بھگوان دکھائی دیتا ہے۔ میں اس سے باتیںکرتا ہوں۔ کبھی کبھی بھگوان سے الجھ پڑتا ہوں۔ بھگوان کو قطعی اس بات کی پروا نہیںہے کہ میں اس کی پوجا نہیںکرتا۔ بھگوان کو مجھ سے سب بڑی شکایت یہ ہے کہ میں اس سے کچھ مانگتا نہیں۔ تو مجھ سے کچھ کیوں نہیں مانگتا؟ چخ چخ کرتے ہوئے لڑاکو ہمسائیوںکے بارے میںبات کرتے ہوئے مجھے اچانک بھگوان کی بات یاد آئی: ساری دنیا مجھ سے مانگتی ہے۔ تو مجھ سے کچھ کیوں نہیںمانگتا؟
میںنے بھگوان سے کہا۔’’آج میں تم سے کچھ مانگنا چاہتا ہوں۔‘‘
بھگوان نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ایسی بات سننے کے بعد تم لوگ میرا شکریہ ادا کرتے ہو۔ میںبھگوان ہوں۔ میں کس کا شکریہ ادا کروں؟ بول۔ تو کیا چاہتا ہے؟‘‘
میںنے جھٹ سے کہا ’’تو لڑاکا ہمسائیوں کے دل میںپیار اور محبت کا بیج بودے۔
تاکہ ان کی روز روز کی چخ چخ ختم ہوجائے اور میںچتر کاری کرسکوں، پیا ملن کے گیت لکھ سکوں۔ گیت گا سکوں۔‘‘
بھگوان نے کہا۔ ’’میںخود مختار ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیتا۔ تو مجھ سے کچھ اور مانگ۔‘‘
’’یہ کہو کہ تم مجھے کچھ نہیں دے سکتے۔‘‘ میںنے کہا۔ ’’ایک مرتبہ خدا سے میں نے بھی ایک چیز مانگی تھی جو نہ مل سکی ۔‘‘
بھگوان نے پوچھا۔ ’’تم نے خدا سے کیا مانگا تھا۔‘‘
میںنے کہا۔ ’’میںنے خداسے اس کی خدائی مانگی تھی‘‘۔تب میںنے دیکھا کہ میری بات سن کر بھگوان غائب ہوگیا تھا۔

.