انصاف کی تلاش

March 22, 2017

یہ وہ کہانی ہے جو ہر گلی ہر چوک ہر دیوارہر اینٹ پر لکھی ہوئی ہے۔ اسے کئی ادوار میں گایا گیاہے۔کئی مقامات پر سنایا گیاہے۔ابو نواس نے اسے درِ کعبہ پر لٹکایا تھا ۔کیتھی نے اسے روم کے قدیم اوپرامیں پیش کیا تھا۔رسول حمزہ توف نے اسے داغستان کی پہاڑیوں پر لکھا۔یہ کہانی صرف اتنی ہے کہ سچ اور جھوٹ صدیوں سے دریا کے ساتھ بہہ رہے ہیں۔یہ دریا نیل بھی ہوسکتا ہے سندھ بھی۔یہ جمنا کا کنارا بھی ہوسکتا ہے اور راوی کابھی۔بہرحال میں نے اسے دریائےراوی کے ساحلوں پر بُننا شروع کیا ۔دریا کے کنارے جھوٹ اور سچ آپس میں محو ِ کلام ہیں ۔دونوں میں اپنی اپنی اہمیت اور افادیت پر تکرار جاری ہے۔جھوٹ بضد ہے کہ وہ زیادہ ضروری زیادہ سودمندہے ۔ زندگی کےلئے زیادہ منافع بخش ہے ۔اس کی سیاہی برہنگی کو چھپالیتی ہے،دن بھر کی تھکاوت کو ماں کی طرح اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہے، چین ، سکون اور آرام سے نوازتی ہے۔سچ کو مگراپنی روشنی پرناز ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اسی کی کرنوں سے آگہی کی جہان روشن ہے۔وہی زندگی کو حقائق سے آشنا کرتا ہے۔لوگوں کو منزلوں سے ہمکنار کرتا ہے ۔دونوں اپنی اپنی گفتگو میں بڑے بڑے دلائل لاتے ہیں۔ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں۔ اور پھرتھک ہار کریہ طے کرتے ہیں کہ لوگوں سے فیصلہ کرایا جائے۔دیکھتے ہیں ۔لوگوں کو کس کی زیادہ ضرورت ہے ۔فیصلے کےلئے داتا کے شہر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔دونوں لاہور میں داخل ہوجاتے ہیں۔ انارکلی کے تاجروں سے ملتے ہیں۔شاہ عالمی جاتے ہیں۔ لبرٹی میں گھومتے ہیں۔الحمراکی سیڑھیوں پر بیٹھ کر فنکاروں سے بات کرتے ہیں۔ پاک ٹی ہاؤس کی میزوں پر ادبیوںاور شاعروں کی باتیں سنتے ہیں۔ اسمبلی ہال جاتے ہیں۔ پاکستانی قوم کے مسائل سے آشنا ہوتے ہیں۔بیور کریٹس اورسیاست دانوں سے گھلتے ملتے ہیں۔صحافیوں اور اینکروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔یونیورسٹیوں اور کالجوں میں آتے جاتے ہیں ۔ پروفیسروںاور طالب علموں سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ مال روڈ کی فٹ پاتھوں پر چلنے والوں کے لفظ چنتے ہیں۔ ان سے علیک سلیک بڑھاتے ہیں۔ کوٹھیوںاورمکانوں میں داخل ہوتے ہیں۔
جھوٹ جہاں بھی جاتا ہے وہاں اس کا بہت شاندار استقبال ہوتا ہے۔لوگ اس کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالتے ہیں۔اس کے سینے پر تمغے لگائے جاتے ہیں۔ اسے ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے ۔اس کی آمد پرلوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔لوگ مطمئن اور مسرور دکھائی دیتے ہیں۔ محفلوں میں قہقہے گونجتے ہیں۔محبتیں پھلنے پھولنے لگتی ہیں۔شوہر ناراض بیویوں کو منالیتے ہیں۔ہر شخص جھوٹ یہی کہتا ہے کہ تم ہی ہمارے حقیقی دوست ہو۔تمہارے سبب ہی زندگی کی خوبصورتیاںہیں رعنائیاں ہیں رونقیں ہیں۔
دوسری طرف سچ جہاں قدم رکھتا ہے وہاں مسائل کے پھاٹک کھل جاتے ہیں۔لوگ ایک دوسرے سے آنکھیں چرانے لگتے ہیں۔بندوقیں نکلنے لگتی ہیں۔ پستول چلنے لگتے ہیں ۔ قتل و غارت ہونے لگتی ہے۔ کہیںگاہک دکاندار کا گریباں پکڑ لیتا ہے تو کہیںمزدور مل مالک کو آنکھیں دکھانے لگتا ہے۔اپنے حقوق کےلئے عوام سڑکوں پر نکل آتے ہیں ۔صحافیوں کی ملازمتیں خطرے میں پڑجا تی ہیں۔ شوہر بیوی کو قتل کردیتا ہے ۔ بھائی بھائی کا دشمن ہوجاتا ہے ۔کہیں بھی سچ کو خوش آمدید نہیں کہا جاتا۔الٹا اسے دیکھ کر لوگوں کو تکلیف ہونے لگتی ہے۔سچ بہت افسردہ ہوتا ہے ۔اس نے دکھ بھرے لہجے میں جھوٹ سے کہا۔آؤ پہاڑوں پر چلتے ہیں۔ بلندیوں کی طرف جاتے ہیں۔وادی نیلم کی طرف نکلتے ہیں ۔جہاں دریا چودہ ہزارفٹ کی اونچائی پر بادلوں میں بہہ رہا ہے۔میں تجھے ’’شاردا ‘‘دکھاؤں گاجہاں صدیوں پہلےبدھ مت کی یونیورسٹی تھی ۔ ناران چلتے ہیں کچھ دن جھیل سیف الملوک کی الوہی فضا میں گزارتے ہیں۔وہاں پھول ہونگے۔ خوشبو ہوگی۔ جھوٹ نے ہنس کر کہا ”سوری میں وہاں نہیں جاؤں گا۔یہ نہیں کہ مجھے بلندیوں سے خوف آتا ہے۔میں صرف وہاں رہ سکتا ہوں جہاں لوگ موجود ہوں مجھ سے محبت کرنے والے لوگ اور علاقہ ان سے بھرا ہواہے۔یہ زمین میری سرزمین ہے۔ہاں تُویہاں اکیلا ہے۔ تیرا یہاں کوئی نہیں۔تُو جانا چاہتاہے تو چل بلندپہاڑوں کی طرف۔مجھے شہروں کی رنگ ریلیوں سے لطف اندوز ہونے دے۔اور پھر سچ قصبوں اور شہر وں کو چھوڑ کر پہاڑوں پر چلاجاتا ہے۔اپنے بہادروں کے پاس۔ اپنے جنگجو سپاہیوں کے پاس۔ اقبال کے شاہینوں کے پاس جو شہبازوں کے ساتھ پرواز میں ہوتے ہیں۔ جو بہادری کی لازوال داستانیں لکھ رہے ہوتے ہیں۔جن کے ہونٹوں پر ابدیت کے گیت ہوتے ہیں۔
یقیناًآپ سوچ رہے ہونگے کہ مجھے جھوٹ اور سچ کی یہ کہانی سنانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔دوستو! میں نے بہت غور کیا کہ ہمارا مسئلہ کیا ہے۔ہم کیوں زوال کی طرف رواں دواں ہیں۔ہم جن کی زمینیں اور ذہن دونوں زرخیر ہیں ۔ہم جن کی آنکھیں منزلوں کے خواب دیکھ سکتی ہیں۔ہم جن کے ہاتھ سونا بنا سکتے ہیں ۔ ہم جن کے پاؤں آسمانوں کو تسخیر کر سکتے ہیں۔ہمارا مسئلہ کیا ہے۔تو میں اس حقیقت تک پہنچا کہ ہمارا مسئلہ جھوٹ ہے۔ زندگی کے ہر معاملے میں جھوٹ ۔حکومت کا عوام سے جھوٹ ۔باپ کابچوں سے جھوٹ ۔بھائی کابہن سے جھوٹ ۔مالک کانوکر سے جھوٹ ۔ دکان دار کا گاہکوں سے جھوٹ ۔اگر ہم اپنی زندگی سے صرف جھوٹ نکال دیں تو ہمیں کوئی سربلندیوں سے نہیں روک سکتا۔مگر ہم جھوٹ اپنی زندگیوں سے کیسے نکال سکتے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ ہم سب جھوٹ کے خلاف ہیں اسے تمام برائیوں کی جڑ گردانتے ہیں ۔اس کے خلاف بڑی بڑی تقریریں کرتے ہیں ۔مگر اسے اپنے اندر سے نہیں نکال سکتے ۔اس کی بنیادی وجہ خوف ہے۔ ہمیں ہمیشہ یہی ڈر رہتا تھا کہ اگر ہم نے سچ بول دیا تو یہ نقصان ہوجائے یہ خسارہ ہو جائے گا اُس سے لڑائی ہوجائے گی اِس سے ناراضی ہوجائے گی وغیرہ وغیرہ۔ہم اپنے اندر سے یہ خوف کیوں نہیں نکال پاتے اس کی واضح ترین وجہ تو اجتماعتی کرپشن ہے جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ چکی ہے۔ہم معاشرتی طور پر اس مقام تک آ گئے ہیں جہاں وکیل انصاف کےلئے نہیں مجرم رہا کرانے کےلئے فیس لیتے ہیں ۔پاناما کیس پوری قوم نے بڑی توجہ کے ساتھ سنا۔اس میں یہی تھا کہ کچھ لوگ یہ ثابت کررہے تھے کہ فلاں فلاں مجرم ہیں اور کچھ یہ ثابت کررہے تھے کہ اِس اِس قانون کے تحت یہ مجرم ثابت نہیں ہوتے ۔کہیں انصاف کی بحث ہی نہیں تھی۔




.