23مارچ اور فلسطین

March 23, 2017

ایک سچے انسان کی زبان سے نکلنے والے الفاظ اتنا بڑا سچ بنے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ یہ مولانا محمد علی جوہر تھے۔ انہوں نے لندن کی رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں برطانیہ کے وزیراعظم جیمز رمزے میکڈونلڈ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بیماری کے باوجود میرے یہاں آنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ میں اپنے ملک کے لئے آزادی کا پروانہ لے کر واپس جائو ں گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ایک غلام ملک میںجانے کی بجائے ایک آزاد ملک میں مرنا پسند کروں گا۔ مولانا محمد علی جوہر نے اپنی گرجدار آواز میں خوبصورت انگریزی بولتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی دھمکی نہیں بلکہ ایک تنبیہہ ہے۔ آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں کے اکثریتی صوبوں میں ان کی آئینی حکومت قائم نہ کی تو ہندوستان میں خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے۔ ابھی لندن میں ان کی شاندار تقریر کی گونج باقی تھی کہ چار جنوری 1931کو وہ دیارِ غیر میں انتقال کرگئے۔ ان کی خواہش کے مطابق انہیں غلام ملک میں واپس نہ لایا گیا۔ ان کے جسدخاکی کو فلسطین لے جایا گیا جہاں مفتی امین الحسینی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس مرد ِ درویش کو بیت المقدس میں دفن کیا گیا کیونکہ ابھی اسرائیل قائم نہ ہوا تھا۔اعلان بالفور کے بعد سے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کوشش جاری تھی لیکن بیت المقدس پر مسلمانوں کا کنٹرول باقی تھا۔ مولانا محمد علی جوہر کی قبر یروشلم میں قبتہ الصخرہ کے قریب واقع ہے اور کتبے پر ان کا نام السید محمد علی الہندی تحریر ہے۔ کاش کہ اس کتبے پر ان کی ایک مشہور غزل کے یہ اشعار بھی لکھےجاسکتے جو میں نے اسکول کے زمانے میں اپنی زندگی کی پہلی تقریر میں پڑھے تھے۔
جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو
باقی ہے موت بھی دل بے مدعا کے بعد
قتل حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
مولانا محمد علی جوہر کی بیت المقدس میں تدفین نے تحریک ِ پاکستان اور فلسطین میں ایک ایسا مضبوط رشتہ قائم کیا جسے قائداعظمؒ محمد علی جناح نے بھی آخری سانس تک نبھایا۔ 23مارچ 1940کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں چار قراردادیں پیش ہوئی تھیں۔ 22سے 24مارچ تک جاری رہنےوالے اس اجلاس میں مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں علیحدہ ریاست یا ریاستوں کا مطالبہ مولانا محمد علی جوہر کی اس تقریر میں بھی موجود تھاجو انہوں نے 1930میں برطانوی وزیراعظم کےسامنے پیش کیا تھا۔ دوسری قرارداد میں سرزمین فلسطین پر برطانوی فوج کی بڑی تعداد میں موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور خبردار کیا گیا کہ عربوں کو محکومی پر مجبور نہ کیا جائے۔ تیسری قرارداد میں19مارچ کو لاہور میں خاکساروں پر فائرنگ کی مذمت کی گئی اور چوتھی قرارداد کے ذریعے مسلم لیگ کے آئین میں کچھ ترامیم کے ذ ریعہ صوبائی تنظیموں کو مرکزی تنظیم کی پالیسی پر عملدرآمد کا پابند بنایا گیا۔ مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل علیحدہ ریاست یا ریاستوں کے مطالبے پر مشتمل مرکزی قرارداد بنگال کے وزیراعظم مولوی فضل الحق نے پیش کی اور چوہدری خلیق الزمان نے اس کی تائید کی جن کا تعلق اترپردیش سے تھا۔ بیگم مولانا محمدعلی جوہر (امجدی بانو) نے اس قرارداد کے حق میں تقریر کی اور اسے قراردادِ پاکستان قرار دیا۔ قائداعظمؒ نے مفتی اعظم فلسطین مفتی امین الحسینی کے ساتھ اپنا رابطہ بعد میں بھی برقرار رکھا۔ 12اکتوبر 1945کو مفتی اعظم فلسطین نے قائداعظمؒ کے نام اپنے ہاتھ سے عربی میں خط لکھا جس میں اخوت ِ اسلامی کے لئے قائداعظمؒ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ مجھے جلاوطن کرنے پر آپ کی آواز پہلی اسلامی آواز تھے جو میرے کانوں تک پہنچی جس پر میں آپ کا اور مسلم لیگ کاشکرگزار ہوں۔ اس خط میں مفتی اعظم فلسطین نے یہودیوں کی بجائے صہیونی تحریک کی مذمت کی اور بتایا کہ یہ ایک مذہبی تحریک ہے جو ہیکل سلیمانی کی دوبارہ تسخیر چاہتی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہ اسی جگہ تھا جہاں اب مسجد اقصیٰ واقع ہے۔انہوں نے یہ بھی لکھا کہ برطانیہ اور امریکہ صہیونی تحریک کی پشت پناہی کررہے ہیں لہٰذا دنیا بھر کے مسلمانوں کا فرض عین ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کا تحفظ کریں۔ 2006 میں اس ناچیز کو بیروت میں مفتی امین الحسینی کی قبر پر فاتحہ کی سعادت ملی تو میں سوچ رہا تھا کہ مفتی صاحب نے مولانا محمد علی جوہر کو بیت المقدس کامکین بنا دیا لیکن خود بیروت میں دفن ہوئے۔ مفتی امین الحسینی کا قائداعظمؒ کے نام تفصیلی خط پڑھ کر علامہ اقبالؒ کے فلسطینی عرب کے نام یہ اشعار یاد آتے ہیں؎
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے
مفتی امین الحسینی کے علاوہ قائداعظمؒ کا اخوان المسلمین کےبانی حسن البناء کے ساتھ بھی رابطہ تھا جو فلسطینی مسلمانوں کی مزاحمت کا ساتھ دے رہے تھے۔ حسن البناء نے 28مئی 1947 کو قاہرہ سے قائداعظمؒ کے نام خط لکھا۔ یہ خط ڈاکٹر زوار حسین زیدی کے مرتب کردہ جناح پیپرز کی جلد اول میں موجود ہے اوراس خط میں حسن البناء نے کہا کہ مصطفیٰ مومن کے ذریعہ آپ کا پیغام ملا، ہمارا نمائندہ جلد ذاتی طور پر آپ کو ملے گا اور مصری مسلمانوں کی طرف سے تحریک ِ پاکستان کی حمایت کرے گا۔ اس خط میں بھی مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا گیا اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی آزادی کے لئے چلنے والی تحریکوں کی کامیابی کے لئے دعا کی گئی۔ 23مارچ کو ہم یوم پاکستان مناتے ہیں تو ہمیں 23مارچ 1940کو منظور ہونے والی قراردادِ لاہور کے ساتھ ساتھ قراردادِ فلسطین کو بھی یاد رکھناچاہئے۔ ہم فلسطین کو یاد رکھیں گے تو دنیا بھر کے مسلمان جموں و کشمیر کو بھی یاد رکھیں گے۔ پاکستان کے ایک فوجی ڈکٹیٹر یحییٰ خان کے حکم پر اردن میں فلسطینیوں کے خلاف جو آپریشن ہوا اس نے فلسطینیوں کو پاکستان سے شاکی کر دیا لیکن دوسری جانب یہ فلسطینی فیض احمد فیضؔ کے دیوانے ہیں جن کے لکھے ہوئے ترانے آج بھی فلسطینی مجاہدین کی زبانوں پرہیں۔ فیضؔ نے کہا تھا؎
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا ہے وہاں ارضِ فلسطیں کا عَلَم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطین برباد
میرے زخموں نے کئے کتنے فلسطین آباد
23مارچ کے دن یوم پاکستان مناتے ہوئے فلسطین کے متعلق اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے دل کا درد مت بھولیں۔ قرارداد ِ لاہور کے ساتھ ساتھ قراردادِ فلسطین کو یاد رکھیں۔ فلسطین آزاد ہوگا تو بیت المقدس کے احاطے میں دفن مولانا محمد علی جوہر کی روح کو بھی سکون ملے گا جو ایک آزاد ملک میں دفن ہونا چاہتے تھے۔



.