سول عسکری تعلقات میں نیا موڑ!

April 02, 2017

پاناما کیس کے فیصلے کا پورے ملک کو شدت سے انتظار ہے۔عدالتی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی کو کچھ علم نہیں ہے کہ کیا فیصلہ لکھا جارہا ہے اور اس کا اعلان کب ہوگا۔ویسے تو گزشتہ دوہفتوں کے دوران ماتحت عدالتوں سے جس قسم کے فیصلے آئےہیں۔مسلم لیگ ن کے اکابرین اس پر خوش نظر آتے ہیں۔پیپلزپارٹی کے جس سابق وزیر حامد سعید کاظمی کوٹرائل کورٹ نے تین سال کی طویل سماعت کے بعد قید کی سزا سنائی تھی اب وہ باعزت بری ہوچکے ہیں۔کرپشن کے سنگین الزامات اور دہشت گردوں کی معاونت کے ملزم ڈاکٹر عاصم حسین450ارب روپے سے زائد کے کرپشن کیس میں ضمانت حاصل کرچکے ہیں۔شرجیل میمن صاحب کی بھی عبوری ضمانت کنفرم ہوچکی ہے۔ایسی صورتحال میں پورے ملک میں تاثر ابھرا ہے کہ کئی سو ارب روپے کی کرپشن والے باہر آگئے ہیں تو پاناما کا معاملہ تو پھر بھی 4فلیٹس کا ہے۔گزشتہ چند ہفتوں کے دوران آنے والے فیصلے ملک کے لئے تو اچھے نہیں تھے مگر مسلم لیگ ن کو اس کا بہت فائدہ ہوا ہے۔تنقید کی جارہی ہے کہ عدالت میں کمزور پیروی کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو ریلیف ملا ہے۔لوگ عدالتی فیصلوں کو نہیں بلکہ حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔لیکن ان سارے معاملات سے جڑا ایک معاملہ سول عسکری تعلقات سے متعلق بھی ہے۔
پیپلزپارٹی کے حق میں آنے والے عدالتی فیصلوں پر تنقید کی جارہی ہے کہ شاید یہ کسی ڈیل کا نتیجہ ہیں۔کیونکہ عدالتیں انصاف پر مبنی فیصلے کرتی ہیں۔جب سرکاری اداروں کی طرف سے کسی کیس میں موثر پیروی ہی نہیں کی جائے گی تو ضمانت اور بریت جیسے فیصلے ہی سامنے آئیں گے۔اطلاعات ہیں کہ گزشتہ چند عرصے کے دوران مسلم لیگ ن کے شانہ بشانہ کھڑی اسٹیبلشمنٹ دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی اپنے تعلقات پر از سر نو نظر ثانی کررہی ہے۔فوجی عدالتوں کے معاملے پر پیپلزپارٹی کی کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کا زبان زد عام چرچا کیا جارہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ فوجی عدالتوں کے معاملے پر حکمران جماعت کوسیاسی جماعتوں سے حمایت نہ ملنے پر راولپنڈی نے خود رابطے کا فیصلہ کیا۔جس کے ثمرات اب نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔خبر دینے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پہلے فوجی عدالتوں اور اب متنازع لیکس معاملے پر کشیدگی بڑھ رہی ہے۔عسکری حلقوں کا موقف ہے کہ مسلم لیگ ن نے جان بوجھ کر فوجی عدالتوں کے معاملے میں کمزور حکمت عملی اختیار کی اور یوں یہ معاملہ طول اختیار کرگیا۔ سینیٹ سے حکمران جماعت کے اراکین کی غیر حاضری کو بھی سوچی سمجھی منصوبہ بندی قرار دیا جارہا ہے۔حالانکہ شاید حقائق ایسے نہ ہوں مگر حکمران جماعت کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے غلط فہمیاں بڑھتی جارہی ہیں۔اب اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ فوجی عدالتوں کے معاملے میں توسیع کا کریڈٹ ان کا ہے ،سیاسی حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔آصف علی زرداری اس ساری صورتحال میں بہتر کھیلے ہیں۔اس بار انہوں نے اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی سے بات چیت کی ہے۔جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
سول عسکری تعلقات سے جڑا ایک اہم معاملہ متنازع خبر لیکس کابھی ہے۔حکمرا ن جماعت سمجھتی تھی کہ سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید کی قربانی کے بعد معاملہ ٹھنڈا ہوجائے گا ۔مگر اب تک گرد بیٹھنے کا نام نہیں لے رہی۔عسکری قیادت میں تبدیلی کے بعد وزیراعظم نے فیصلہ کیا تھا کہ پرویز رشید کو دوبارہ وزیر بنا دیا جائے مگر انہیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا اور اگلے ہی ہفتے تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ مختلف ٹی وی چینلز پر چلو ا دی گئی۔جس پر سول و عسکری قیادت کے درمیان بات چیت بھی ہوئی۔جمہوریت کے حامی جنرل قمر جاوید باجوہ کی پہلے دن سے خواہش رہی کہ دیگر معاملات کی طرح اس معاملے کو بھی خوش اسلوبی سے حل کرلیا جائے مگر اپنے ادارے کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔ کورکمانڈر کانفرنس میں متنازع خبر کے معاملے پر شرکاء نے شدید تحفظات کا اظہار کیا مگر آئی ایس پی آر کی طر ف سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں مختصر سا مبہم ذکر کیا گیا۔آرمی چیف تعلقات کوبہتر رکھنے کے لئے اتنا ہی کرسکتا ہے۔میری اطلاعات کے مطابق حکومت کو خارجہ امور سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کوہٹانے کا کہا گیا ہے۔مگر ابھی تک معاملات جوں کے توں ہیں۔ڈی جی آئی ایس آئی جنرل نوید مختار نے بھی وزیراعظم سے ملاقات میں معاملات کی حساسیت پر روشنی ڈالی ہے۔حالات و واقعات تو بتارہے ہیں کہ حکومت کو ایک اور قربانی دینا ہوگی۔اس معاملے پر مقتدرسینئر حلقوں سے بات ہوئی کہ ایک متنازع خبر کو اتنا بڑا مسئلہ کیوں بنایا ہوا ہے۔حالانکہ یہی معلومات اس سے قبل مختلف بین الاقوامی اخبارات میں چھپ چکی ہیں۔امریکہ میںلوگوں نے اس موضوع پر ریسرچ مکالے لکھے ہیں۔اقوام متحدہ کی مختلف ذیلی کمیٹیوں میں اس پر طویل بحث ہوئی ہے۔
ان حلقوں کا موقف ہے کہ ہمیں اس خبر میں چھپنے والی معلومات سے غرض نہیں ہے ۔بلکہ ہمارے تحفظات یہ ہیں کہ یہ تمام معلومات ملک کی قومی سلامتی کی میٹنگ کے حوالے سے شائع ہوئی ہیں اور بھارت سمیت دنیا بھر میں ہمارا مذاق اڑایا گیا ہے۔اس لئے یہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔بہرحال اس خاکسار کو معاملات ایک مرتبہ پھر پیچیدگی کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔جمعہ کی رات کو آرمی چیف اور تحریک انصاف کے سربراہ کے درمیان ہونے والی ملاقات بھی ایک اہم پیش رفت ہے۔موجود ہ حالات میں اس کو نظر انداز کرنا بیوقوفی ہوگی۔لیکن اس ساری صورتحال میں افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی اکابرین کی غیر سنجیدگی ملک میں سویلین بالادستی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دے گی۔اگر آج خارجہ امور کے شخص کو ہٹا دیا جاتا ہے تو کیا فائدہ ہوگا؟ اگر ہٹانا تھا تو پہلے دن ہٹا دیا ہوتا تاکہ کریڈٹ آپ کے پاس رہتا ۔اب جب ہٹایا جائے گا تو تاثر ابھرے گا کہ عسکری حلقوں کی اہم ملاقاتوں اور دباؤ کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔گزشتہ چارسالوں میں یہی تجربہ ہوا ہے کہ منتخب وزیراعظم سے کوئی اختیارات لے کر نہیں جاتا بلکہ منتخب وزیراعظم خود اپنے اختیارات اپنے ہاتھ سے کسی کو تھما دیتے ہیں۔کامیابی اسی میں ہوتی ہے کہ آپ اتنا ہی اسٹینڈ لیں،جس پر موثر انداز میں کھڑے ہوسکتے ہیں۔پہلے اسٹینڈ لینا اور پھر سرنڈر کردینا ،بہت نقصان پہنچاتا ہے۔وزیراعظم میاں نوازشریف صاحب ! آپ میں بہت خوبیاں ہیں،سویلین بالادستی کے داعی ہیں،پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جو ایک زیرک اور دانا حکمران میں ہونی چاہئیں مگر کاش آپ اس پر بھی سمجھوتہ کرسکتے
ٹوٹ تو سکتا ہوں مگر لچک سکتا نہیں…



.