پاناما کیس۔ وقت کا ضیاع کیوں؟

April 26, 2017

پاناما کیس کی سماعت پر ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ آف پاکستان کے 126دن یا پھر 111قیمتی گھنٹے صرف ہوئے۔ عمران خان کی طرف سے نعیم بخاری کی سربراہی میں 9 وکلاء نے پیروی کی۔ نوازشریف کی طرف سے مخدوم علی خان کی قیادت میں 6 وکلاء پیش ہوتے رہے۔ چیئرمین نیب کی طرف سے 5 قانونی ماہرین عدالت میں ان کی معاونت کرتے رہے۔ حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز کی طرف سے پیروی کرنے والے وکلاء کی تعداد 12 تھی جبکہ سراج الحق کی طرف سے توفیق آصف کی قیادت میں 10 وکلاء کی ٹیم عدالت عظمیٰ میں پیروی کرتی رہی۔ شیخ رشید احمد اپنے وکیل خود تھے جبکہ فیڈریشن کی طرف سے اوشتراوصاف کی قیادت میں 7 قانونی ماہرین پیش ہوتے رہے۔ یوں اگر دیکھا جائے تو اس معاملے میں پچاس سے زائد اعلیٰ پائے کے وکیلوں اور ماہرین قانون کی روزی روٹی لگی رہی۔ اس سطح کے وکلاء ان دنوں اس قسم کے کیسوں کی پیروی کے لئے کروڑوں میں فیس وصول کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب بعض وکلاء ٹیکسوں سے بچنے کے لئے فیسوں کی وصولی بیرون ملک کرتے ہیں یا پھر اگر پاکستان کے اندر بھی کرتے ہیں تو عموماً چیک اور بینک کے راستے سے اعراض کرتے ہیں تاکہ ٹیکس سے بچا جاسکے۔ اس طرح کے کیسوں میں جو وکلاء فیس نہیں لیتے یا پھر رعایت دیتے ہیں،وہ سیاسی فائدے کی صورت میں قیمت ضرور وصول کرلیتے ہیں۔ یوں پاناما کیس اربوں کا دھندہ بن گیا تھااوربنا رہے گا۔ وہ لیڈران کرام جن کے پاس اہم قومی مسائل کو وقت دینے کے لئے چند منٹ دستیاب نہیں ہوتے،نے اپنے ہزاروں گھنٹے اس کیس کی نذر کردئیے۔ مثلاً عمران خان 32 دن سپریم کورٹ آتے جاتے رہے۔ سراج الحق نے یہ سعادت 26 د ن حاصل کی جبکہ شیخ رشید احمد 31 دن سپریم کورٹ کی زیارت کرتے رہے۔ مشیر قانون ظفراللہ خان نے 77 گھنٹے سپریم کورٹ میں گزارے۔ مریم اورنگزیب نے 65 گھنٹے، خواجہ سعد رفیق نے 13گھنٹے جبکہ خواجہ محمد آصف نے کل 8 گھنٹے کمرہ عدالت میں گزارے۔ اسی طرح ٹی وی چینلز پر ہزاروں پروگرام اس موضوع پر ہوئے،لاکھوں گھنٹے اس پر بحث ومباحثے میں صرف ہوئے جبکہ سینکڑوں کالم نگاروں نے ہزاروں آرٹیکلز سپرد قلم کئے۔ ان پروگراموں کو دیکھنے اور سننے یا پھر ان آرٹیکلز کو پڑھنے پر قوم کے کتنے کروڑ افراد کے کتنے لاکھ گھنٹے ضائع ہوئے، اس کا تو حساب ہی نہیں لگایا جاسکتالیکن آخر میں بات جہاں پر تھی وہیں سے دوبارہ شروع ہوئی۔ ملک کا نظام جیسا تھا، آج بھی ویسا ہی ہے۔ اقتصادی حالت جو تھی، سو اب بھی ہے۔ دہشت گردی اور وفاقی یونٹوں کی بے چینی کا مسئلہ جیسا تھا، ویسا اب بھی ہے۔اور تو اور ہمارے علم میں کوئی اضافہ بھی نہیں ہوا۔ اس ساری مشق سے پہلے بھی ہمیں علم تھا کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی قیادت بدعنوان ہے اور آج بھی ہمیں علم ہے۔ پاناما سے متعلق عدالتی محاذ پر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو بھی نوازشریف کے مخالفین نے ان کی کمائی کو جائزنہیں ماننا تھا اور آج بھی نہیں مانتے جبکہ ان کے حامی پہلے بھی ان کو فرشتہ سمجھتے تھے اور آج بھی سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر حتمی نتیجے کے طور پر وزیراعظم نااہل ہوجاتے ہیں تو بھی نظام میں یا پھر عام آدمی کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ وزارت عظمیٰ کے منصب سے میاں نوازشریف کے علیحدہ ہوجانے کی صورت میں بس اتنی تبدیلی آئے گی جتنی یوسف رضاگیلانی کی جگہ راجہ پرویز اشرف کے وزیراعظم بننے سے آئی تھی۔ دکھ ہے تو اس بات کا ہے کہ عمران خان کے پاس پختونخوا کے تباہ حال اسپتالوں کو دیکھنے، عبدالولی خان یونیورسٹی کی طرح تباہی سے دوچار یونیورسٹیوں کے معاملات کو سدھارنے، حتیٰ کہ صوبے میں ڈیڑھ سال سے خالی پڑے ڈی جی احتساب کمیشن کے معاملے پر توجہ دینے کے لئے تو 32 گھنٹے نہیں لیکن سپریم کورٹ میں آنی جانیوں ٖپر انہوں نے اپنے 32 قیمتی دن ضائع کردئیے۔ سی پیک جیسے اہم ایشو کو سمجھنے کے لئے ان کے پاس چین جانے کا تو وقت نہیں تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پرویز خٹک غلط وقت پر، غلط طریقے سے صوبے کا کیس لڑنے کے بعد اب نون لیگ کے ساتھ سودے بازی کر بیٹھے لیکن پاناما کے ڈرامے کے لئے اب بھی خان صاحب کے پاس وقت بہت ہے۔سراج الحق صاحب کے ہاں وقت کی تنگی کا یہ عالم ہے کہ دس دن گزرجانے کے باوجود اپنی پولیس کی موجودگی میں بے دردی سے قتل کئے جانے والے اپنی رعیت یعنی مشال خان کی فاتحہ یا پھر ان کے والد کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے تو ایک گھنٹہ نکال کر صوابی نہیں جاسکتے لیکن یہاں عمران خان اور شیخ رشید احمد کی اقتدا میں انہوں نے اپنے 26 دن برباد کرلئے۔ اس سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ وہ میڈیا جس کو احتساب کے لئے ایک جامع اور ہمہ گیر نظام کی تشکیل پر توجہ دینی چاہئے، جسے پاکستان کے اسٹرکچرل مسائل کو اجاگر کرکے اس کا حل تجویز کرنا چاہئے، جسے تعلیم اور صحت جیسے بنیادی ایشوز کی بدحالی کی خبر لینی اوردینی چاہئے، جسے انتہاپسندی اور دہشت گردی کے عفریت کی مختلف جہتوں سے قوم اور فیصلہ سازوں کو آگاہ کرنا چاہئے۔ جسے محروم علاقوں کے محروموں کی محرومیوں کو سامنے لاکر اس کے مداوے میں مدد دینا اور فیڈریشن کے وجود کو لاحق خطرات سے قوم کو آگاہ کرنا چاہئے، جسے پاکستان کے خلاف بھارتی اور مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کا توڑ کرنا چاہئے،اس میڈیا کے چار سال چار حلقوں اور پاناما پر ضائع ہوگئے۔ جس کا حکمرانوں کو تو بہت فائدہ ہے لیکن ملک اور عوام کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ میاں نوازشریف کو یہ فائدہ ہے کہ سی پیک اور بڑے بڑے سودوں کی آڑ میں انہوں نے اپنی بادشاہت کو جس طرح مزید مضبوط کیا، اس کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ جس طرح انہوں نے جمہوریت کے نام پر خاندان اور پھر وسطی پنجاب کی آمریت قائم کرلی ہے، ان پر کسی نے ان کی پکڑ نہیں کی۔اسی طرح سندھ میں پیپلز پارٹی، پختونخوا میں پی ٹی آئی کے اور بلوچستان میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور سرداری مسلم لیگ وغیرہ کی ناقص حکمرانی اور بدترین جرائم میڈیا اور لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ افسوس عدالت کی حالت پر ہورہا ہے۔ سیاسی معاملات کے فیصلے کبھی عدالتوں میں نہیں ہوسکتے لیکن ہماری اعلیٰ عدالتیں مسلسل سیاسی فیصلوں میں الجھی رہتی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غیرسیاسی کیسوں میں لوگ سالوں تک سماعت اور انصاف کے منتظر رہتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ ان لوگوں یا پھر ان کی مائوں بہنوں کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی جب وہ دیکھتے ہیں ان کا بیٹا یا بھائی سالوں سے جیل میں اس لئے سڑ رہا ہے کہ اس کی پیشی کی نوبت نہیں آرہی لیکن دوسری طرف کبھی چار حلقوں اور کبھی پاناما کی روزانہ کی بنیادوں پر سماعت ہوتی ہے۔ کبھی ایک اور کبھی دوسرے سیاسی مسئلے کو عدالتوں میں لے جانے کی بجائے یہ بہتر نہ ہوتا کہ ساری توانائیاں احتساب کے ایک آزادانہ اور منصفانہ نظام کے قیام پر صرف کی جاتیں اور سیاسی تنازعات کے لئے ایک الگ آئینی عدالت قائم کی جاتی۔
ہماری عدالتوں کے پاس تو اب اہم قومی معاملات کی سماعت کے لئے بھی وقت نہیں بچتا۔ مثلاً پی ٹی آئی کے ممبران قومی اسمبلی کے ممبر ہیں یا ناجائز تنخواہیں لے رہے ہیں ؟۔ اس سوال کا جواب ابھی عدالت نے دینا ہے لیکن اگر ایک سال مزید گزر گیا تو پھر اس سماعت کا کیا فائدہ ہوگا۔ آخر ہماری عدالتوں کی یہ کیا حالت ہوگئی ہے کہ جہاں سیاسی اور قومی معاملات کا بھی تصفیہ نہیں ہوپاتا اور جہاں عام پاکستانی بھی انصاف کے لئے سالہاسال تڑپتا
رہتا ہے۔ ایک طرف وکلاء کی فیسز آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں اور دوسری طرف ان کا دھندہ بھی سیاستدانوں اور میڈیا کی طرح حد سے زیادہ گندہ ہوگیا ہے۔ پاناما کیس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے آغاز میں شاید بجا طور پر ماریو پوزو (Mario Puzo) کے ناول دی گاڈ فادر (The Godfather) سے یہ فقرہ نقل کیا گیا ہے کہ :
Behind every great fortune there is a crime
یعنی ہر بڑی دولت مندی کے پیچھے ایک جرم چھپا ہے لیکن بصداحترام یہ بھی عرض کرنا پڑرہا ہے کہ پاکستان میں ہر بڑی بدعنوانی، ہر بڑے فساد اور ہر بڑے جرم کے پیچھے ہو سکتا ہے کہ نظامِ انصاف کا کوئی حصہ چھپا ہوا ہو۔
مکرر عرض ہے کہ جب تک کوئی ایسا نظام انصاف اور نظام احتساب نہیں بنایا جاتا جس میں جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کا یکساں محاسبہ ہوسکے، جس میں عمران خان کے دھرنوں اور میاں نوازشریف کے پاناما اکاونٹس کا یکساں نوٹس لیا جاسکے اور جس میں بحریہ ٹائون کے ملک ریاض اورجسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہو، تب تک کچھ نہیں بدلے گا۔چہرے بدلیں گے لیکن نظام نہیں بدلے گا۔ تب تک تم جتنے پہاڑ کھودوگے، ہر پہاڑ سے چوہا نکلے گا۔



.