جذباتیت کے مفاسد؟

May 11, 2017

انسانی احساسات شعوری استدلال اور جذبات سے نمو پاتے ہیں ۔ اچھے یا برُے جذبات ہی انسان کو کچھ کر گزرنے پر ابھارتے ہیں لیکن اگر کوئی فرد یا گروہ ان جذبات کا اسیر ہو جائے یا انہیں اپنے اوپر مسلط کر لے تو سوچنے سمجھنے کی شعوری صلاحتیں جام ہو جاتی ہیں اسی کیفیت کا نام جذباتیت ہے اور یہ اتنی خطرناک ہوتی ہے کہ لوگوں کو ان کے مفاسد کا ادراک اُس وقت ہوتا ہے جب ہونی ہو چکی ہوتی ہے ہم اس کیفیت کی مثال نشے سے دیتے ہیں ۔ جس طرح ایک نشئی حالتِ نشہ میں وہ کچھ کر گزرتاہے جس کے مفاسد کا اُس وقت اُسے ادراک نہیں ہوتا لیکن جب یہ نشہ اترتا ہے تو وہ تصورات کی بجائے حقائق کی دنیا میں آتا ہے ۔ اگر جرائم کی دنیا میں تباہ کاریاں لانے والوں کا نفسیاتی جائزہ لیا جائے تو ثابت ہو گا کہ اُن کی قوتِ متحرکہ یہی جذباتیت تھی جس کا توڑ صرف شعور کی تفہیم یا برین واشنگ میں ہے ۔ جذباتیت لازم نہیں کہ محض منفی جذبے سے ہی تشکیل پاتی ہو بلکہ بالعموم اس کے مرتکبین چاہے کتنے بڑے قاتل ہی کیوں نہ ہوں اس تمام تر غلط کاری کا ارتکا ب مثبت جذبے سے کرتے ہیں ۔
آج دنیا میں خود کش حملوں کی صورت جتنی بھی دہشت گردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں ان کے مرتکبین تو لقمۂ اجل بن جاتے ہیں لیکن سہولت کار یا فکری معمار اگر پکڑے جائیں یا کسی خود کش بمبار کی جیکٹ عین موقع پر پھٹ نہ سکے اور وہ بارود پھٹے بغیر زندہ دبوچ لیا جائے تو تحقیق و تفتیش کرنے والوں کو انتہائی دلچسپ انکشافات سننے کو ملیں گے انہیں یوں محسوس ہو گا کہ یہ لوگ جرائم پیشہ نہیں ہیں بلکہ شاید ہم سے زیادہ مذہبی اور سچائی کے پرچارک ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے کبھی ایسے لوگوں کو اصل مجرم نہیں سمجھا حتیٰ کہ بن لادن اور ایمن الظواہری جیسے لوگوں کو بھی کبھی اصل مجرم نہیں گردانا۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ موت کے ان سوداگروں کو سزائیں نہ دی جائیں یا دھرتی کے اس بوجھ کو ختم نہ کیا جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ نفرت اور موت کے اصل مافیا کا کھرُا ضرور ڈھونڈھ نکالا جائے۔ عین ممکن ہے کہ اصل مافیا سوسائٹی کے ایسے مقدس مقام پر فائز یا براجماں ہو کہ اُن پر ترچھی نظر ڈالنا بھی سوسائٹی کی نظروں میں گناہ سے بھی کہیں آگے خیال کیا جائے لہٰذا احتیاط کی ضرورت ہے یہ وہ مقام ہے جہاں بڑوں بڑوں کے پر جلتے ہیں ۔ یہ جذباتیت اگر شدت کی گھناؤنی سطح تک پہنچ جائے تو وہ کچھ ہوتا ہے جو عبدالولی خاں یونیورسٹی میں ایک ذہین اور بے گناہ طالب علم مشال خاں کے ساتھ ہوا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے جو بھی مقاصد تھے اس سانحہ کے مرتکبین جذباتیت یا جنونیت کی آخری شیطانی حالت کو پہنچے ہوئے تھے کیونکہ اگران میں انسانیت کی کوئی رمق ہوتی تو اس حیوانی فعل کو سرانجام دیتے ہوئے کسی میں کچھ تو انسانی ہمدردی پیدا ہو جاتی جس کا نتیجہ اختلاف رائے کی صورت میں نکلتا ایک گروہ اگر جان سے مارنے پر آمادہ ہوتا تو دوسرا گروہ اُسے بچانے کی کاوش پر تُل جاتا۔ کوئی اتنا ہی کہہ دیتا کہ چلیں ہم نے اسے بے عزت کرتے ہوئے زخمی کر دیا ہے اب باقی کام قانون پر چھوڑ دیا جائے ۔
اندھی جذباتیت میں ڈوبے ہوئے لوگوں کے سامنے ہمیشہ ایک سوال ضرور رکھا جانا چاہیے کہ جسے مارنے کے لیے آپ لوگ غیر انسانی سطح تک پہنچے ہوئے ہو کیا اُس نے آپ کا کوئی ذاتی حق تو نہیں دبایا ہے؟ اگر دبایا ہے تو آپ عدالتی یا قانونی چارہ جوئی کر سکتے ہیں لیکن اگر یہ دین یا خدا کا معاملہ ہے یعنی اس نے کسی خدائی حکم کی خلاف ورزی کی ہے تو مت بھولیں کہ جس خدا نے یہ اتنی بڑی کائنات بنائی ہے اور وہ بغیر تھکاوٹ کے اس کا انتظام و انصرام چلا رہا ہے وہ اپنے دشمنوں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے ہم جیسے کمزور لوگوں کا محتاج نہیں ہے ۔ وہ اگر فرعون کو پانی میں ڈبو کرمار سکتا ہے تو اپنے کسی بھی نافرمان یا دشمن کو کوئی بھی شدید ترین سزا دینے کی پوری طاقت رکھتا ہے اگر وہ سزا نہیں دیتا تو بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں وہ اپنی حکمتوں کو ہم سے بہتر جانتا پہچانتا ہے اُس نے تو اپنے محبوبؐ کو پتھروں سے لہولہان کرنے والوں کو بھی کوئی سزا نہیں دی تھی کہ ان کی نسلوں سے بہترین لوگ پیدا ہو سکتے ہیں اور پھر اس سے بھی بڑھ کر ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ جنت اور دوزخ کا نظریہ کیا ہے ؟ اُس نے فیصلے یا جزا سزا کا دن کیوں مقرر کر رکھا ہے ؟ اگر اُس نے اپنے مجرموں کو عین موقع پر ہی سزا دینی ہے تو پھر وہ ’’مالکِ یوم الدین ‘‘ کیونکر ہے ؟جب وہ رب العالمین ہے اور اس کا حبیبؐ رحمۃ للعالمین ہے تو پھر ہم کیوں فکر مند ہوتے ہیں ؟ ہم بندے ہیں تو بندے بن کر رہیں کیا کسی انسان کو یہ زیب دیتاہے کہ وہ بندہ ہوتے ہوئے دوسرے انسانوں کے لیے خدا بن جائے ۔ جان جس نے دی ہے واپس لینے کا حق بھی صرف اُسی کا ہے آپ کون ہوتے ہیں دوسروں کی زندگیوں کے فیصلے کرنے والے؟ اس سلسلے میں ہم ہمیشہ اپنے پیغمبرؐ کے دادا عبدالمطلب کی مثال پیش کیا کرتے ہیں یمن کا حکمران ابراہہ جب اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ مکہ پہنچا کہ بیت اللہ شریف کو منہدم کر دے تو اُس نے سب سے پہلے مکے کے گردونواح میں چرنے والے اونٹوں کو اپنے قبضے میں لے لیا جن میں عبدالمطلب کے اونٹ بھی تھے ۔ جنہیں چھڑانے کے لیے آپ سردارِ مکہ کی حیثیت سے حکمران یمن کے پاس جا پہنچے وہ حضرت کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آیا لیکن جناب عبدالمطلب سے اونٹوں کی حوالگی کا مطالبہ سن کر حیران رہ گیا ۔ بولا میں تو آپ کے قبلہ یعنی خانہ کعبہ کو ڈھانے آیا ہوں آپ عجب سردارِ مکہ ہیں کہ آپ کو اپنے کعبے کی فکر نہیں اپنے اونٹوں کی فکر ہے؟ عبدالمطلب نے اس موقع پر جو تاریخی الفاظ بولے کاش آج کے ہمارے مسلمان بھی جدِ پیغمبر علیہ السلام کے اس ایمان کی عظمت کو سمجھ سکیں جو انہیں بیت اللہ کے مالک کی طاقت پر تھا فرمایا ’’اے شاہ یمن ہمارے اونٹ ہمارے حوالے کر دو انہیں چھیننے کا آپ کو کوئی حق نہیں رہ گیا بیت اللہ شریف کو منہدم کرنے کا معاملہ تو اس سلسلے میں مجھے کوئی پریشانی نہیں اس لیے کہ خانہ کعبہ کا جو مالک ہے وہ خود اتنا طاقتور ہے کہ وہ اپنے گھر کو بچانے کے لیے میرا محتاج نہیں ہے وہ خود تم سے نمٹ لے گا‘‘۔آج چترال یا حب میں جو کچھ ہورہا ہے ۔ ہم اپنی اقلیتوں ہندوں، مسیحیوں یا کمزور مسلمانوں کے ساتھ مذہبی حوالوں سے جس طرح چڑھائی کیے ہوئے ہیں خدا کا خوف کرتے ہوئے خدائی معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لینے سے باز آ جائیں اپنے بے خبر بھائیوں کو عظیم ہستی کے جدامجد کی نصیحت یاد دلاتے ہوئے سمجھائیں کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کیا فرق رکھا گیا ہے۔

.