عالمی عدالت کا کل بھوشن پر فیصلے کا اردو ترجمہ

May 19, 2017

اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) نے بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کیس (بھارت بنام پاکستان) میں کل بھوشن کی سزائے موت کیخلاف بھارت کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ حتمی فیصلہ آنے تک اسے پھانسی نہیں دی جاسکتی۔ عدالت کی جانب سے جاری کیے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’’کیس کا حتمی فیصلہ آنے تک اسلامی جمہوریہ پاکستان بھارتی شہری کل بھُوشن سُدھیِر یادیو کی سزائے موت کو روکنے کیلئے ہر ممکن اقدام کرے۔‘‘ عدالت کی جانب سے اپنے متفقہ فیصلے میں عبوری اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے جن کے مطابق پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ عدالت کو اس کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے کیے جانے والے اقدامات سے آگاہ کرے۔ عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ جب تک کیس کا حتمی فیصلہ نہیں آ جاتا اس وقت تک اس فیصلے کے موضوع سے جڑے امور کا کنٹرول عدالت کے پاس ہوگا۔ بھارت نے 8؍ مئی کو عبوری اقدامات کی نشاندہی کیلئے درخواست دائر کی تھی اور اسی دن عدالت نے پاکستان میں سزائے موت پانے والے ایک بھارتی شہری کل بھوشن سُدھیر یادیو کے حوالے سے قونصلر تعلقات پر ویانا کنونشن مجریہ 24 اپریل 1963ء کے آرٹیکل 36 کی مبینہ خلاف ورزیوں کے تحت پاکستان کیخلاف کارروائی کا آغاز کیا۔ عدالت نے اپنی کارروائی کا آغاز اس بات پر غور کرتے ہوئے کیا کہ بادی النظر میں عدالت کے پاس مقدمہ کی سماعت کا اختیار ہے یا نہیں۔ اس حوالے سے بھارت ویانا کنونشن کے آپشنل پروٹوکول کے آرٹیکل نمبر ایک کے تحت عملدرآمد چاہتا ہے، اس آرٹیکل کے مطابق ویانا کنونشن کی تشریح یا عملدرآمد کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تنازعات پر عدالت کو دائرۂ اختیار حاصل ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو عدالت نے یہ پایا ہے کہ کل بھوشن یادیو تک بھارت کی قونصلر رسائی کے معاملے پر دونوں فریقوں کی رائے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کی جانب سے جن اقدامات کا الزام عائد کیا گیا ہے یعنی پاکستان کی جانب سے بھارت کو کل بھوشن یادیو تک قونصلر رسائی دینے اور ساتھ ہی اس کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی اجازت دینے سے انکار کا جو الزام عائد کیا گیا ہے وہ بظاہر اس کنونشن کے دائرے میں آتا ہے۔ عدالت کی رائے میں، یہ کافی ہے کہ بادی النظر میں اس کے پاس آپشنل پروٹوکول کے آرٹیکل نمبر ایک کے تحت مقدمہ کی سماعت کا اختیار ہے۔ عدالت یہ بھی قرار دیتی ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان 2008ء کے قونصلر تعلقات کے حوالے سے باہمی معاہدے کی موجودگی کے باوجود دائرۂ اختیار کے حوالے سے عدالت کا نتیجہ تبدیل نہیں ہوتا۔ اس کے بعد عدالت نے اس بات پر غور کیا کہ بھارت کی جانب سے جن حقوق کا دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ کم از کم مناسب ہیں یا نہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ قونصلر نوٹیفکیشن اور ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان رسائی اور ساتھ ہی زیر حراست رکھنے والی ریاست کی جانب سے قونصلر معاونت کے حوالے سے متعلقہ شخص کو اس کے حقوق سے بلا تاخیر آگاہ کرنے کی ذمہ داری اور ان حقوق پر عملدرآمد کی نشاندہی ویانا کنونشن کے پیرا نمبر اول میں آرٹیکل 36 میں کی جا چکی ہے۔ اور بھارت نے اسی شق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔ لہٰذا، عدالت کی رائے میں ایسا لگتا ہے کہ بھارت کی جانب سے جو دعویٰ کیا گیا ہے کہ معقول ہے۔ اس کے بعد عدالت نے اپنی توجہ اس معاملے پر مرکوز کی کہ جن حقوق کا دعویٰ کیا گیا ہے ان میں اور جن عبوری اقدامات کی استدعا کی گئی ہے ان میں کوئی تعلق ہے یا نہیں۔ عدالت سمجھتی ہے کہ جن اقدامات کی استدعا کی گئی ہے ان کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ویانا کنونشن کے پیرا نمبر اول کے آرٹیکل 36 میں جن حقوق کا ذکر کیا گیا ہے ان کا تحفظ کیا جائے۔ لہٰذا، عدالت کی رائے میں بھارت کی جانب سے جن حقوق کا دعویٰ کیا گیا ہے ان میں اور جن عبوری اقدامات کی استدعا کی گئی ہے ان کے درمیان تعلق موجود ہے۔ اس کے بعد عدالت نے اس معاملے کا جائزہ لیا کہ آیا اس معاملے میں ناقابل تلافی جانبداری اور عجلت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ عدالت سمجھتی ہے کہ کل بھوشن یادیو کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے اور امکان ہےکہ اسے سزا دیدی جائے گی، یہ بات بھارت کے حقوق کے حوالے سے ناقابل تلافی جانبداری کے عنصر کی موجودگی ظاہر کرتی ہے۔ عدالت یہ جانتی ہے کہ پاکستان نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ اگست 2017ء کے آخر تک ممکنہ طور پر کل بھوشن کی سزائے موت پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد کسی بھی وقت اس کی سزا پر عملدرآمد کا خدشہ موجود ہے۔ عدالت یہ بھی جانتی ہے کہ پاکستان کی جانب سے ایسی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی کہ اس کیس کا حتمی فیصلہ آنے تک کل بھوشن کو پھانسی نہیں دی جائے گی۔ ایسے حالات میں، عدالت کو یقین ہے کہ اس معاملے میں عجلت کا عنصر موجود ہے۔ عدالت مندرجہ ذیل اقدامات کی نشاندہی کرتی ہے: کیس کا حتمی فیصلہ آنے تک کل بھوشن یادیو کی سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کیلئے پاکستان ہر ممکن اقدام کو یقینی بنائے اور اس فیصلے پر عملدآمد کے حوالے سے پاکستان جو بھی اقدامات کرے ان سے عدالت کو آگاہ کرے۔ عدالت یہ فیصلہ بھی سناتی ہے کہ جب تک کیس کا حتمی فیصلہ نہیں آ جاتا اس وقت تک اس فیصلے کے موضوع سے جڑے امور کا کنٹرول عدالت کے پاس ہوگا۔ عدالت ان ارکان پر مشتمل تھی: صدر ابراہم، جج اووادا، جج کانسادو ٹرینیڈاڈ، جج شوئی، جج ڈونوگے، جج گاجا، جج سیبوتندے، جج بھنڈاری، جج رابن سن، جج کرافورڈ، جج گیوورجین، اور رجسٹرار کوورور۔ جج کانسادو ٹرینیڈاڈ نے عدالتی فیصلے کے ساتھ اپنی علیحدہ رائے بھی پیش کی ہے جبکہ جج بھنڈاری نے عدالت کے فیصلے میں علیحدہ اعلان شامل کیا ہے۔ 1) اس کیس کے حوالے سے جج کانسادو ٹرینیڈاڈ نے سات حصوں پر مشتمل اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیس کے فیصلے کے ساتھ اتفاق رائے کرتے ہوئے اس معاملے میں کچھ ایسے اہم پہلو بھی ہیں جن کے حوالے سے وہ اپنی رائے پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ ان کی رائے ریکارڈ پر رہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ عدالتی علمیت میں لا کر ان پر بحث کی جائے۔ اس حوالے سے انہوں نے جن نکات کا جائزہ لیا ہے وہ یہ ہیں:2) (حصہ اول) ۱۔ عالمی قوانین کے تحت ریاست اور افراد کے حقوق؛ ۲۔ ریاست اور افراد کے حقوق کی باہم موجودگی؛ ۳۔ قانونی دائرہ کار کی ضمانت کے فریم ورک کے تحت قونصلر معاونت کی معلومات کا حق؛ ۴۔ (معقول کی بجائے) بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ: حفاظتی نوعیت کی عدالتی ضمانت کے طور پر عبوری اقدامات؛ ۵۔ حفاظت کیلئے خودمختار عدالتی اصولوں کے فریم ورک (لیگل ریجیم) پر مشتمل عبوری اقدامات؛ ۶۔ قونصلر قانون کے وضع کردہ دائرہ کار کے تحت بین الاقوامی قانون کی انسانیت آموزی۔ 3) موجودہ یادیو کیس قونصلر تعلقات کے حوالے سے 1963 کے ویانا کنونشن کی مبینہ خلاف ورزیوں کے متعلق ہے جس میں پاکستان کی جانب سے ایک بھارتی شہری (ک بھوشن سُدھیر یادیو) کا کورٹ مارشل کرتے ہوئے اسے 10 اپریل 2017 کو موت کی سزا سنائی گئی۔ دونوں فریقوں (پاکستان اور بھارت) کی جانب سے عدالت میں پیش کیے گئے دلائل کے واضع نکات کو دیکھتے ہوئے جج کانسادو ٹرینیڈاڈ سمجھتے ہیں کہ موجودہ کیس عدالت کے سامنے 1963 کے ویانا کنونشن کے آرٹیکل (1)36 کے بین الاقوامی قانون کے تحت ریاستوں اور افراد کو حاصل حقوق کا معاملہ سامنے لے کر آیا ہے، یہ معاملہ اقوام متحدہ کے معاہدہ برائے سویلین اور سیاسی حقوق (پیرا نمبر 5 اور 6) سے وابستہ ہے۔ جج کانسادو ٹرینیڈاڈ کا اصرار ہے کہ موجودہ عالمی قانون کے تحت، ریاستوں اور افراد کے حقوق پر ایک ساتھ غور کرنا پڑے گا، انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا (پیرا نمبر 7)۔ انہوں نے یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ نئی صدی کے آغاز سے قبل انٹر امریکن کورٹ آف ہیومن رائٹس نے ’’قانونی دائرہ کار کی ضمانت کے فریم ورک کے تحت قونصلر معاونت پر معلومات کے حق‘‘ (یکم اکتوبر 1999ء) کے حوالے سے پہلی مرتبہ ایک ایڈوائزری رائے پیش کی یہ اقدام 1963 کے ویانا کنونشن کے آرٹیکل (1)36 کی موزوں تشریح کی جانب ایک قدم تھا، اس سے بین الاقوامی قانون برائے حقوق انسانی کے مجموعی قانون (Corpus Juris) پر اثرات کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔ اس موقع پر وہ ایک مرتبہ پھر یاد دہانی کراتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ عدالتی فیصلے کے ساتھ جڑی اپنی رائے میں انٹر امریکن کورٹ کی ایڈوائزری رائے کے حوالے سے اپنی رائے پیش کرتے ہیں جس میں انہوں نے ان اثرات کا جائزہ لیا اور ریاستوں کی اس پرانی اجارہ داری کو ختم کر دیا جس کے تحت ریاستیں مشروط انداز سے خود کو حقوق کا موضوع سمجھتی ہیں، اور ساتھ ہی انہوں نے متروک ارادیت پسند اثباتیت (پیرا نمبر 8) کی رکاوٹوں کو دور کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ رکاوٹیں غلط انداز سے انسانی علم و فہم کے دیگر حلقوں کے حوالے اور انسانوں کے وجودی وقت سے لاتعلق تھیں۔ یہ صورتحال ریاستوں کی خواہشات کی خودمختاری کے حوالے سے پریشان کن ہے۔ جج کانسادو ٹرینیڈاڈ کہتے ہیں کہ: یہ بات درست اور حیران کن ہے کہ بین الاقوامی قانون برائے حقوق انسانی کے مجموعی قانون (Corpus Juris) کے مستحکم انداز سے ابھر کے سامنے آنے کی وجہ انسانوں کی تذلیل کے متواتر واقعات کیخلاف عالمی سطح پر عدالتی ضمیر کا رد عمل ہے، جو مثبت قانون کی نظر میں قابل قبول ہے: اس کے ساتھ ہی، قانون انسانوں کے مد مقابل آگیا، اس میں ان کے پیدائشی حقوق شامل ہیں جس کا تحفظ اس کی اقدار کرتی ہیں ۔۔۔۔۔ اس نئے Corpus Juris کے فریم ورک کے تحت، کوئی بھی شخص انسانی علم و فہم کی جانب سے ادا کیے جانے والے مختلف کردار سے لاتعلقی اختیار کی جا سکتی ہے اور نہ ہی انسان کے وجودی وقت سے۔ قونصلر معاونت کے حوالےس ے معلومات کے حق کو آج کل خصوصی طور پر بین الریاست تعلقات کے دائرے میں رکھ کر کافی نہیں سمجھا جاسکتا، کیونکہ موجودہ دور کے قانون کی سائنس اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ قانونی اقدار کا مواد اور اس کا اثر ارتقائی عمل کے ساتھ جڑا ہے، اس میں آخر الذکر الگ نہیں ہے ۔۔۔۔ لہٰذا 1963 کے ویانا کنونشن کا آرٹیکل (1)36، 1966 کے اقوام متحدہ کے معاہدہ برائے حقوق انسانی کے مقابلے میں پہلے وجود میں آیا لیکن انسانی حقوق کے تحفظ کے معاملے میں اسے بین الاقوامی اقدار سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کا تعلق قانون کے تحت حاصل ضمانتوں اور ان کی ارتقائی تشریحات سے ہے۔ جج کانسادو ٹرینیڈاڈ قرار دیتے ہیں کہ (حصہ سوئم) ریاستیں اور افراد موجودہ بین الاقوامی قانون کا موضوع ہیں۔ اس حوالے سے تہران میں مغویوں کے کیس کا جائزہ لیا گیا۔ اس کیس میں عبوری اقدامات کے حوالے سے 15 دسمبر 1979 فیصلہ جاری کیا گیا تھا اور اس میں بیک وقت ریاستوں اور افراد کے حقوق کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس کیس میں اوینا اور میکسیکو کے دیگر شہریوں کے معاملے (31 مارچ 2004 کا فیصلہ) کا بھی جائزہ لیا گیا یہ پایا گیا کہ ویانا کنونشن کے تحت فرد کے حقوق کی خلاف ورزی بھیجنے والی ریاست کے حقوق کی مشروط خلاف ورزی ہے جبکہ ریاست کے حقوق کی خلاف ورزی کے نتیجے میں فرد کے حقوق کی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے (پیرا نمبر 14)۔ کل بھوشن یادیو کے موجودہ کیس میں مذکورہ بالا مقدمہ کے پیرا نمبر 16 کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ اسلئے تحفظ کے مقصد کو قونصلر معاونت کی معلومات کے حق کے ساتھ جوڑنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس ضمن میں جج کانسادو ٹرینیڈاڈ نے جیمز اور دیگر بنام ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو (1998-2000) کے کیس کواہم قرار دیا ہے جس میں سزا یافتہ افراد کی سزا پر عمل نہیں کیا گیا اور انہیں دی جانے والی سزائوں میں تخفیف کی گئی (پیرا نمبر 20 اور 21)۔

بقیہ دوسرے حصے میں ملاحظہ کیجئے ۔۔۔۔۔