سر راجر مور

May 28, 2017

دو چیزوں کا مجھے جنون تھا۔ ابن صفی کے ناول اور جیمز بانڈ کی فلمیں۔ آج بھی ہے۔ ابن صفی کے ناول جب بھی موقع ملے نکال کر پڑھنا شروع کر دیتا ہوں اور بانڈ کی نئی فلم کا پہلے دن کا پہلا شو دیکھنا اب بھی لازمی ہے۔ لیکن بانڈ کی جو فلمیں وی سی آر کے زمانے میں دیکھی تھیں وہ بھلائے نہیں بھولتیں۔ پہلی بانڈ فلم میں نے ایک نو دولتیے دوست کے گھر دیکھی جنہوں نے نیا نیا وی سی آر خریدا تھا، میں ذرا دیر سے پہنچا تھا اور فلم کا کلائمکس چل رہا تھا، فلم کا نام تھا Live and let Die، ولن ڈاکٹر کننگا تھا جو کسی دور افتادہ جزیرے کا وزیراعظم تھا اور اس کا دوسرا روپ ایک منشیات ڈیلر کا تھا جسے لوگ مسٹر بِگ کے نام سے جانتے تھے۔ فلم کے کلائمکس میں جیمز بانڈ اور ڈاکٹر کننگا کے درمیان لڑائی ہوتی ہے، بانڈ ڈاکٹر کننگا کو زبردستی ایک ایسی گولی نگلنے پر مجبور کر دیتا ہے جس میں کمپریسڈ گیس ہوتی ہے، اس سے کننگا کا جسم یکدم پھول کر پھٹ جاتا ہے اور اس کے لوتھڑے فضا میں بکھر جاتے ہیں، بانڈ کی ہیروئین حیرانی سے پوچھتی ہے: ’’کننگا کہاں گیا؟‘‘ بانڈ جواب دیتا ہے :’’He always did have an inflated opinion for himself۔ ‘‘1973میں بطور جیمز بانڈ یہ راجر مور کی پہلی فلم تھی۔ اس کے بعد راجر مور نے بارہ برس تک بانڈ کا کردار کل سات فلموں میں نبھایا، اس سے پہلے یہ کردار شون کونری کے پاس تھا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ بانڈ کا کردار شاید کونری سے بہتر کوئی نہیں کر سکے گا، کم از کم ہم سے پچھلی نسل کایہی خیال تھا۔ راجر مور نے اس خیال کو غلط ثابت کردیا، شان کونری نے جیمز بانڈ کے کردار میں جو بزرگی ڈالی تھی، راجر مور نے اس کے برعکس بانڈ کے مکالمے لطیف اور طنزیہ پیرائے میں ادا کرنے کا ٹرینڈ دیا، راجر مورابرو اٹھا کر مخصوص انداز میں ڈائیلاگ ادا کرتے تھے اور اُن کے چہرے پر اپنے دشمن کا غصہ دلانے والی ایک خفیف سی مسکراہٹ رہتی جو اُن کی شخصیت کا خاصا تھی۔ یوں تو بانڈ کا کردار ادا کرنے والے تمام اداکار مردانہ وجاہت کا شاہکار تھے مگر راجر مور کے نمبر شاید ان سب میں زیادہ ہیں، کچھ لوگ کثرتی جسم کی وجہ سے موجودہ بانڈ ڈینیئل گریگ کو بہترین مانتے ہیں مگر ڈینیئل صاحب کی آنکھیں ہی چندھیائی ہوئی ہیں، کھلتی ہی نہیں اور نہ ہی موصوف کے چہرے پر سوائے غصے کے کوئی تاثر ابھرتا ہے، حتی کہ محبت کا سین فلماتے ہوئے بھی سرکار سلطان راہی کی طرح غصے میں ہی نظر آتے ہیں ، ان حالات میں ڈینیئل گریگ اور کسی بھی ایکشن فلم کے ہیرو میں کوئی فرق نہیں۔ یہی بات راجر مور کو دیگر بانڈز سے ممتاز کرتی ہے، راجر مور نے بانڈ کے کردار کو ایک نیا انداز دیا، راجر مور کی جیمز بانڈ سیریز دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ فلمیں یا بانڈ کا کردار کسی بھی ایکشن فلم کی طرح محض ماردھاڑ کا شاہکار ہے۔
ایک مرتبہ راجر مور سے کسی نے پوچھا کہ کامیابی میں کتنے فیصد ہاتھ تقدیر کا ہوتا ہے، مور نے جواب دیا :
’’نناوے فیصد ۔‘‘یہ بات سو فیصد راجرمور پر صادق آتی ہے۔ خوش قسمتی سے مور کی تمام فلمیں بانڈ سیریز کا شاہکار تھیں، سوائے A View to a Killکے ۔The Man with the Golden Gunمیں راجر مور کا سامنا کرسٹو فر لی سے ہوا جس نے اُس فلم میں بطور ولن فرانسسکو سکارامنگا کا کردار نبھایا، یہ ایک یادگار فلم تھی جس میں دونوں سپر اسٹارز کی اداکاری لا جواب تھی۔ راجر مور کا ایک ولن ہوگو ڈریکس بھی تھا، فلم تھی Moon Raker، ان صاحب کا پلان زمین سے نسل انسانی کا خاتمہ کرکے ایک نئی اعلی و ارفع نسل کی افزائش کرنا تھا، ظاہر ہے کہ بانڈ نے یہ پلان ناکام بنا دیا۔ فلم میں یوں تو کئی بہترین سین اور کردار تھے مگر سب سے دلچسپ ڈائیلاگ وہ تھاجب ایک موقع پر ڈریکس جیمز بانڈ کو اپنے ہاں مدعو کرتا ہے اور اسے دھوکے سے مروانے کی کوشش کرتا ہے، ڈریکس شکار کے بہانے بانڈ کو بندوق تھما دیتا ہے اور ساتھ ہی اپنا ایک آدمی درختوں میں چھپا دیتا ہے، بانڈ پرندے کا نشانہ باندھتا ہے جوبظاہر چوک جاتا ہے، ڈریکس طنزا ًکہتا ہے :’’You missed Mr. Bond۔‘‘ لیکن ساتھ ہی درختوں میں چھپا آدمی بانڈ کی گولی کا شکار ہو کر نیچے گر جاتا ہے۔ راجر مور اپنے مخصوص انداز میں جواب دیتا ہے :’’Did I؟ ‘‘اور بندوق ڈریکس کو تھما کر نکل جاتا ہے۔ راجر مور کا یہ انداز پھر کسی بانڈ سے نہیں اپنایا گیا، جتنے بھی ہیرو راجر مور کے بعد آئے اُن میں کوئی بھی جیمز بانڈ نہیں بن سکا، ان کی بانڈ فلمیں دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے آپ کوئی بھی ایکشن فلم دیکھ رہے ہوں، صرف License to Kill اور The Living Daylights دو ایسی فلمیں تھیں جنہیں صحیح معنوں میں بانڈ سیریز کی کہا جاتا ہے۔
اپنی حقیقی زندگی میں بھی راجر مور بزلہ سنج واقع ہوا تھا ۔1983کا واقعہ ہے، راجر مور نیس کے ہوائی اڈے پر اپنی پرواز کا انتظار کر رہا تھا، اچانک ایک سات برس کے بچے کی نظر اُس پر پڑی اور وہ ’’جیمز بانڈ‘‘ کو دیکھ کر بے حال ہو گیا، اس نے اپنے دادا سے فرمائش کی کہ اسے ہر حال میں بانڈ سے آٹو گراف لینا ہے، دادا کو بانڈ کا کچھ پتا نہیں تھا مگر پوتے کی خواہش پوری کرنی ضروری تھی سو دونوں بانڈ کے پاس گئے اور آٹو گراف مانگا، راجر مور نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ بچے کی ٹکٹ پر اپنا نام لکھ دیا اور اس کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ اپنی سیٹ پر واپس پہنچ کر بچے نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ ٹکٹ پر جیمز بانڈ کی جگہ راجر مور لکھا ہے، پوتے نے دادا کو کہا کہ بانڈ نے اپنا نام غلط لکھ دیا ہے، اسے ٹھیک کروانا چاہئے، ایک مرتبہ پھر وہ ’’جیمز بانڈ‘‘ کے پاس گئے۔ راجر مور نے جب یہ بات سنی کو اس نے بچے کو اپنے قریب کیا، چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھا، مخصوص انداز میں اپنے ابرو اٹھائے اور پھر سرگوشی کی ’’میں نے جان بوجھ کر اپنا نام راجر مور لکھا ہے کیونکہ اگر میں صحیح نام لکھ دوں تو شاید بلوفیلڈ (بانڈ کا روایتی ولن ) مجھے ڈھونڈ لے، اس لئے تم نے کسی ذکر نہیں کرنا کہ تم بانڈ کو دیکھا تھا ! ‘‘
بچے نے جب یہ بات سنی تو اس کا چہرہ تمتما اٹھا، اسے لگا کہ اب وہ حقیقت میں جیمز بانڈ کے ساتھی کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔ اس واقعے کو کئی برس گزر گئے، وہ بچہ بڑا ہو کر لکھاری بن گیا اور ایک موقع ایسا آیا کہ اسے راجر مور کے ساتھ یونیسف کے ایک پراجیکٹ پر کام کرنے کا موقع ملا، شوٹنگ کے وقفے کے دوران اس لکھاری نے مور کو یاد دلایا کہ کئی سال پہلے نیس ائیر پورٹ پر اُن کی ملاقات ہو ئی تھی جب اُس نے بطور جیمز بانڈ کہا تھا کہ اس ملاقات کو خفیہ رکھنا، اس پر راجر مور نے کہا ’’آں، مجھے یاد تو نہیں مگر یہ خوشی کی بات ہے کہ تم جیمز بانڈ سے ملے۔‘‘ کچھ دیر بعد جب شوٹنگ ختم ہوئی اور راجر مور اپنی کار کی جانب جانے لگا تو جاتے ہوئے اس لکھاری کو پاس بلایا، چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھا، اپنے مخصوص انداز میں ابرو اٹھائے اور سرگوشی کی :’’مجھے نیس والا واقعہ یاد ہے، شوٹنگ کے وقت چونکہ کیمرہ مین پاس تھے اور اُ ن میں سے کوئی بھی بلوفیلڈ کا ساتھی ہو سکتا تھا اس لئے میں نے بات دبا دی!‘‘یہ تھے سر راجر مور۔
گزشتہ دنوں جب میںنے اس عظیم اداکار کی موت کی خبر پڑھی تو میرے سامنے اسّی کی دہائی کا وہ پورا دور گھوم گیا جب ہم اِس جیمز بانڈ کی فلمیں دیکھا کرتے تھے، راجر مور کو اپنی زندگی میں شاید اندازہ ہی نہیں ہوا ہوگا کہ پاکستان میں اُن کے کس قدر پرستار ہیں۔ الوداع جیمز بانڈ۔



.