انسداد دہشت گردی کا عالمی مرکز

May 28, 2017

بظاہر آج ہمیں بجٹ اور رمضان شریف کی آمد پر قلم اٹھانا چاہئے لیکن جس موضوع پر سبھی لکھ رہے ہوں یا محض الفاظ کی جگالی ہو رہی ہو اس سے پرہیز ہی بہتر ہے اپنی تو ہمیشہ سے یہ سوچ رہی ہے کہ مکھی پر مکھی مارنے کی بجائے جس ایشو کو نظر انداز کیا جا رہا ہو یا اس کے کسی مخصوص پہلو سے پہلو تہی کی جا رہی ہو غیر روایتی اسلوب میں اس کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ ہماری مسلم سوسائٹی میں مسنونات کے فضائل سے کس کو انکار ہے؟ اس حقیقت کا علم ہونے کے باوجود ایسے قلمکاروں کی کمی نہیں جو ایسے ہی موضوعات پر لکھ لکھ کر ہلکان ہو رہے ہوتے ہیں۔
روز مرہ وقوع پذیر ہونے والے بعض واقعات تاریخی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کسی بھی اچھے لکھاری کو انہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئے سعودی عرب کے دارالسلطنت ریاض میں ان دنوں جو عرب اسلامک امریکن سمٹ منعقد ہوئی ہے اگرچہ یہ دہشت گردی کے خلاف عالمی عزم کا اعلان تھا جس طرح مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عالمی و علاقائی سطح پر دہشت گردی و انتہا پسندی کی روک تھام اور امن و استحکام کی ترقی کے لئے عرب و اسلامی ممالک امریکہ کے ساتھ قریبی پارٹنر شپ قائم کریں گے لیکن اس کے ساتھ کچھ دیگر پہلو بھی ہیں جو مڈل ایسٹ میں حالات کا دھارا نئی صف بندی کی طرف موڑنے کا داعیہ ظاہر کر رہے ہیں جو لازم نہیں ہے کہ منفی ہی ہوں کئی بظاہر متنازع باتوں کے مثبت اثرات بھی وقت کے ساتھ سامنے آئیں گے۔
پہلی مثبت چیز تو خود امریکی صدر ٹرمپ کے اپنے اولین بیرونی دورے کا سعودی عرب سے آغاز ہے پھر یہاں پہنچ کر یہ اعلان ہے کہ’’دہشت گردی کے خلاف آواز تہذیبوں کے درمیان آویزش نہیں بلکہ نیکی اور بدی کی جنگ ہے سعودی عرب دنیا کے بڑے مذہب کی مقدس سرزمین ہے میں یہاں امریکی عوام کی طرف سے امن اور دوستی کا پیغام لایا ہوں انتہا پسندی کے خلاف لڑائی کسی مذہب کے خلاف نہیں ہے خود پچانوے فیصد مسلمان دہشت گردی کا شکار ہیں امتِ مسلمہ شدت پسندی کو ختم کرنے کے لئے خود آگے آئے‘‘۔ یہ وہی ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جن کی انتخابی تقاریر سب کے ذہنوں میں ہیں اور جن کے متعلق عمومی تاثر مسلم بیزاری اور اسلام دشمنی پر مبنی ہے آج وہ سعودی عرب سے ایوارڈ وصول کرتے ہوئے اتنے جھک گئے کہ بہت سے امریکیوں کو امریکی تفاخر سرنگوں ہوتا محسوس ہوا۔ ما بعدسعودی فرمانروا نے صاف صاف کہہ دیا کہ ڈیڑھ ارب مسلمان دہشت گردی کے خلاف امریکہ کے اتحادی ہیں اور بالفعل 54مسلم ممالک کی قیادت کو صدر ٹرمپ کے ساتھ کھڑے کر کے ثابت کر دیا کہ ملتِ اسلامیہ واشنگٹن کے ساتھ ہے۔ عالم ِ اسلام کی سب سے قدیمی یونیورسٹی جامعہ الازہر کے مفتی اعظم نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی شریفِ مکہ کے پڑپوتے ہاشمی خاندان کے چشم و چراغ شاہ عبداللہ دوئم اس کی حمایت میں اٹھے تو انڈونیشیا و ملائشیا کی منتخب قیادتوں نے بھی وہی زبان بولی جس کا اظہار خادم حرمین شریفین نے کیا تھا مصری صدر اور امیر کویت بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ اگر کوئی پیچھے رہ گیا تو وہ تھا پاکستان اور اس کا وزیراعظم جسے سعودی عرب کا اتنا قریبی سمجھا جاتا ہے کہ پاک چین دوستی بھی پاک سعودی دوستی کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کو ان تاریخی لمحات میں دعوتِ خطاب کیوں نہ دی گئی حالانکہ ماقبل اس کا اعلان ہو چکا تھا اور پاکستان کی اہمیت سب پر واضح تھی ہم کہتے ہیں کہ بہت ہی اچھا ہوا جو نواز شریف کو زحمت نہیں دی گئی۔ اب تو ایک اعتراض ہے تب ایک سو ایک اعتراضات وارد ہو جانے تھے اس عرب اسلامی امریکی کانفرنس کا پورا ماحول ایران مخالف تھا یوں محسوس ہو رہا تھا کہ دنیا میں دہشت گردی پھیلانے کا ذمہ دار تنہا ایران ہےکانفرنس میں یہاں تک کہا گیا کہ انقلاب کے بعد ایران دہشت گردی کا مرکز بنا ہوا ہے اور ہماری خاموشی کو کمزوری سمجھ رہا ہے۔ ایران کی دیگر ملکوں کے معاملات میں مداخلت عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے ہم ایرانی حکومت کے کسی بھی فعل کا ذمہ دار وہاں کے عوام کو نہیں بلکہ ایرانی حکومت کو سمجھتے ہیں۔ ایران کو دہشت گردی کی حمایت اور دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت ترک کرنا ہو گی۔ اسلامی عسکری اتحاد دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے بنایا گیا ہے‘‘۔ دیگر مسلم ممالک بھی بڑھ چڑھ کر اسی لہجے میں بول رہے ہوں تو وزیراعظم نواز شریف کے لئے تقریر کرنا بنتا ہی نہیں تھا اگر کچھ کہتے تو ایرانی ناراض نہ کہتے تو عرب ناراض۔ پاکستان فی الحقیقت کسی کو بھی ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ہمیں دونوں کے ساتھ چلنا اور دونوں کے ساتھ رہنا ہے۔
وہاں تو دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہونے پر انڈیا سے اظہارِ یکجہتی و ہمدردی کیا جا رہا تھا یہاں اگر وزیراعظم نواز شریف انڈیا کے خلاف بولتے تو عرب اسلامی امریکی قیادت اسے تنگ نظری پر مبنی رویہ قرار دیتی کیونکہ ایسا رویہ کانفرنس کی مجموعی فضا کے خلاف جاتا اور اگر وزیراعظم اس حوالے سے نرمی اختیار کرتے تو پورے ملک میں ہمارے میڈیا اور اداروں نے عوام کو جو بخار چڑھا رکھا ہے اس کا تمام تر نزلہ نواز شریف کی ذات پر گرتا۔ یہ درویش اپنی قوم اور میڈیا کی خدمت میں ایک گزارش ضرور کرنا چاہتا ہے کہ خدارا آپ لوگ جھوٹ کو چھوڑ کر سچائی بیان کرنے کی اجازت دے دیں کسی بھی بحران یا طوفان میں شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپانے کی عادت بہت برُی ہے عالمی میڈیا میں ہر چیز کھلے بندوں بیان ہوتی ہے جبکہ اندرون ملک آزادی اظہار ایک گھٹیا چیز بنا کر پیش کی جاتی ہےہمارا میڈیا عرب ایران آویزش (جو حقیقتاً موجود ہے) پر تہذیب و تحقیق کے ساتھ بھی کچھ لکھنے کی اجازت نہیں دیتے یہی وتیرہ پاک ہند تعلقات کے حوالے سے بھی روا رکھا جاتا ہے عالمی سطح پر تنگ نظری پر مبنی پروپیگنڈے کے لئے ٹکے کی اہمیت نہیں ہوتی اور یہ طرزِ فکر بالآخر ملک کے بھی وسیع تر مفاد کے خلاف جاتاہے۔
ہم ایران کی ناجائز حمایت نہیں کر رہے مگر ایران جسے عرب دنیا اپنی بقا کے لئے داعش سے بھی بڑا چیلنج خیال کر رہی ہے لیکن داعش، القاعدہ طالبان حماس یا بوکو حرام تو ایران کی پیداوار نہیں ہیں۔ ان کا بھی تو سراغ لگایا جانا چاہئے کہ یہ اور ان جیسے دیگر خوفناک دہشت گرد گروہ کہاں سے آن ٹپکے؟۔ ان کے ظہور کا جائزہ لینے کے لئے الگ کالم کی ضرورت ہو گی۔



.