ویلفیئر آئی، گیارہ لاکھ گندے انڈے

June 13, 2017

حال ہی میں پولیس نے ایک نئی ایس ایم ایس سروس ’’ویلفیئر آئی ‘‘ کے نام سے متعارف کرائی ہے یہ سروس عام لوگوں کے لئے نہیں بلکہ یہ سروس پولیس کے شہدا کے خاندانوں کے لئے شروع کی گئی ہے۔ایک مدت سے وہ پولیس ملازمین جو دہشت گردی میں شہید ہو گئے ان کے خاندانوں کو مختلف مشکلات کا سامنا تھا چنانچہ سی سی پی او لاہور اور ایس ایس پی ایڈمن ایک مدت سے اس حوالے سے منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ شہدا کے خاندانوں کے مسائل کو کس طرح حل کیا جائے تاکہ ان کے مسائل فوری طور پر براہ راست اعلیٰ افسران تک پہنچ سکیں۔
لاہور پولیس کے تین سو سے زائد اہلکار اور افسر دہشت گردی کی نذر ہوئے شاید اعلیٰ افسروں کے خاندانوں کو مالی طور پر اور ویسے بھی ان مشکلات کا سامنا نہ ہو جو پولیس کے دیگر اہلکار شہدا کے خاندانوں کو ہوتا ہے کیونکہ بعض شہید ہونے والے اہلکاروں کے بچے چھوٹے ہیں جن کو ابھی ملازمت نہیں دی جا سکتی۔دوسرے ضروری نہیں کہ ہر شہید ہونے والے ملازم کے بچے پولیس میں ملازمت کرنے کے خواہاں ہوں شہید ہونے و الے اہلکاروں بلکہ بعض افسران کےبھی والدین بوڑھے ہیں اب ان کے گھر میں کمانے والا کوئی نہیں ان کو مختلف کاموں کے سلسلے میں اور اپنے شہید ہونے والے بچوں کی پنشن اور واجبات کے لئے مختلف دفاتر میں آنا پڑتا تھا ہمارے علم میں کچھ ایسے واقعات بھی ہیں کہ بعض دفعہ دفاتر میں موجود عملے نے ان لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ چنانچہ ہم سمجھتے ہیں کہ واقعی شہدا پولیس کے خاندانوں کے لئے ویلفیئر آئی بنا کر لائق تحسین کام کیا ہے۔ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ جو افسر کوئی اچھا کام شروع کرتا ہے وہ کام اس کے دور میں بڑے اچھے انداز میں ہوتا رہتا ہے جونہی اس کا تبادلہ کہیں اور ہوتا ہے وہ سلسلہ یا تو خراب ہو جاتا ہے یا پھر بند ہو جاتا ہے اس ویلفیئر آئی ایپ کے ذریعےشہدا کے خاندان کے افراد ایس ایم ایس گھر بیٹھے کریں گے اور یہ پیغام سی سی پی او کے آفس میں موجود تربیت یافتہ عملے کو موصول ہوگا۔ جو فوری طور پر اس مسئلے کے حل کے لئے اقدامات کرے گا وہ کسی مسئلے کے لئے کوئی لمبی چوڑی قانونی کارروائی یا کوئی لمبا چوڑا طریقہ کار نہیں بتائیں گے۔پولیس کے ڈیپارٹمنٹ سے متعلقہ کاموں میں ویلفیئر آئی کے ذریعے ان شہداکے خاندانوں کے مسئلے تو حل ہو جائیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خاندانوں کو دوسرے محکموں میں کام ہوا تو اس سلسلے میں پولیس ڈیپارٹمنٹ ان کی کس حد تک مدد کرے گا؟ کیونکہ ان شہداکے بچوں کی تعلیم ان کے بوڑھے والدین کے لئے علاج معالجے کی سہولتیں بہت اہم ہیں۔ان شہداکے خاندانوں کا مکمل ڈیٹا بھی اس ویلفیئر آئی ایپ میں موجود ہے ہم سمجھتے ہیں کہ پولیس کو اپنا کوئی بہت بڑا اسپتال بنانا چاہئے۔
لوجی پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ایک اور زبردست معرکہ مارا ہے۔ ویسے تو جب سے نورالامین مینگل کو اس اتھارٹی کا ڈی جی مقرر کیا گیا ہے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ مضر صحت اشیا تیار کرنے والی فیکٹریوں، کارخانوں، ہوٹلوں اور دکانوں پر چھاپے نہ پڑ رہے ہوں۔ اب تک لاکھوں لیٹر انتہائی ناقص دودھ فوڈ اتھارٹی والے ضائع کر چکے ہیں۔ اس نئے معرکے میں انہوں نے لاہور کے قریب مانگا منڈی میں انڈوں سے پائوڈر بنانے والی فیکٹری پر چھاپہ مارا اور 11لاکھ گندے انڈے تلف کردیئے۔ گندے انڈوں کے جس پروسیسنگ یونٹ پر چھاپہ مارا گیا وہ یونٹ ملک کی معروف بسکٹ تیار کرنے والی کمپنیوں کے لئے ان گندے انڈوں کی زردی اور سفیدی کو الگ کرکے پائوڈر تیار کرتا تھا۔
ہم نے خود میڈیا پر دیکھا کہ بعض انڈے اس حد تک خراب یا تیار ہو چکے تھے کہ جب چھاپہ مارا گیا تو کئی انڈوں میں سے چوزے باہر آ رہے تھے۔ دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ اس فیکٹری کو چند روز قبل بھی سیل کیاگیا تھا مگر مالکان نے چوری چھپے کام جاری رکھا ہواتھا۔
اطلاع ملنے پر ڈی جی فوڈ اتھارٹی نے دوبارہ چھاپہ مارا اور یونٹ کو مکمل طور پر سیل کرکے اس کے مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں اقدار سے گرے ہوئے لاکھوں لوگ (جنہیں انسان کہنا غلط ہوگا، بلکہ یہ بھی معاشرے کے گندے انڈے اور ناسور ہیں) کھانے پینے کی ایسی غیر معیاری اشیا تیار کر رہے ہیں جو سو فیصد کئی خطرناک بیماریوں کی وجہ بن رہی ہیں۔ حال ہی میں ڈی جی فوڈ اتھارٹی نے دودھ کے نام پر فروخت ہونے والے ٹی وائٹنرکے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا اور چھاپے مارے تو آپ سوچیں ماہانہ دو ارب روپے کی سیل کرنے والوں کی سیل اب صرف 12 کروڑ روپے رہ گئی ہے۔
فوڈ اتھارٹی نے ملاوٹ اور غیر معیاری کھانے پینے کی اشیا تیار کرنے والوں کے خلاف انتہائی سخت سزائوں کی تجاویز دی ہیں۔ اب پتا نہیں کب یہ منظور ہوتی ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ کھانے پینے میں ملاوٹ کرنے والوں کی سزا موت ہونی چاہئے۔ انہیں انتہائی بھاری جرمانے اور ان کی تیار کردہ ناقص غذا اور دودھ وغیرہ ان کو اور ان کے بچوں کو سزا کے طور پر کم از کم چھ ماہ قانوناً کھلایا اور پلایا جائے۔ چین میں ملاوٹ کرنے والے کی سزا موت ہے۔
نور الامین مینگل کھانے پینے کی مافیا کے خلاف تو کارروائی کر رہے ہیں کاش معاشرے اور ملک کے ہر محکمے میں جو بے شمار گندے انڈے موجود ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی اور نئی طرز کی سزائیں دی جائیں۔
عید قریب ہے ہر محکمے میں رشوت کابازار گرم ہے۔ ریٹ دگنے ہو جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک ریٹائرڈ سینئر بیوروکریٹ اور ہمارے کلاس فیلو احمد کمال سے بات ہوئی تو انہوں نے اپنے تجربے کی روشنی میں بتایا کہ جب وہ نئے نئے اے سی لگے تو انہوں نے بڑی سختی کی تو ان کے آفس کے سپرنٹنڈنٹ نے جو کہ اپنی سروس میں بے شمار بیورو کریٹس کے ساتھ ملازمت کر چکے تھے۔ اب اس کو حکومت نے ریٹائرمنٹ کے بعد انڈر ٹریننگ اے سی صاحبان کو ان کے محکمے کے بارے میں مزید معلومات دینے کے لئے رکھا ہوا تھا تو اس نے مجھ سے ایک دن کہا کہ صاحب آپ جتنی سختی کرو گے رشوت کا ریٹ اتنا بڑھ جائے گا کیونکہ نچلا عملہ لوگوں سے کہے گا کہ صاحب بہت سخت ہے۔ اس سے کسی فائل پر دستخط کرانا بہت مشکل ہے لہٰذا نچلا عملہ زیادہ پیسے لے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر افسر نرمی کرے گا تو تب بھی رشوت کابازار گرم رہے گا اور سختی کرے گا تو تب بھی آپ رشوت ختم نہیں کرسکتے۔ویسے حیران کن بات یہ ہے کہ فوڈ اتھارٹی میں کوئی رشوت نہیں ہے۔کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ محکمہ صحت کے کلرک (جو سیکرٹریٹ میں کام کرتے ہیں) ہڑتال کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ اگر وہ ایک دن بھی ہڑتال پر چلے جاتے ہیں تو ان کی دیہاڑی ماری جاتی ہے۔ ہر رشوت خور گندا انڈا ہے۔ فوڈ اتھارٹی کے دوستو اور خادم اعلیٰ پنجاب گندے انڈے صرف پراسیسنگ یونٹوں میں نہیں مل رہے بلکہ ملک کے ہر محکمے میں انسانی گندے انڈے موجود ہیں۔
کیا گردہ چور ڈاکٹر گندے انڈے نہیں ہیں۔ جنہیں حال ہی میں ایف آئی اے والوں نے لاہور میں ایک گھر میں آپریشن کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا اور اس میں وائی ڈی اے کا ایک لیڈر ڈاکٹر میڈیا والوں کو دھمکیاں بھی دے رہا تھا جو ایک نیوز چینل نے دکھایا ہے۔ کتنی دلچسپ حقیقت ہے کہ گردہ چور سرجن ڈاکٹر یہ بیان دیتا ہے کہ وہ وہاں کسی کام سے گیا تھا اس کو وہاں پر موجود ڈاکٹروں نے آپریشن کٹ پہنا دی، یعنی ڈاکٹر کو پتا نہیں چلا۔