بہار میں بھی مودی کی سیاسی پکڑمضبوط

July 27, 2017

بھارتی لوک سبھااور راجیہ سبھا( سینیٹ) میں نشستوں کے اعتبار سے بھارت کی چوتھی بڑی ریاست بہار کی سیاست نے ایک دن میں ایسا پلٹا کھا یا کہ سیاسی پنڈت حیران رہ گئے، وزیراعلیٰ نتیش کمار سے سیاسی گٹھ جوڑ کے بعدوزیراعظم مودی کی ملکی سیاست پر پکڑ مزید مضبوط ہوگئی ہے، مگر کیسے؟


یہ بہت اہم سوال ہے، 2014ء کے عام انتخابات کے نتائج میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی اتحاد نے بڑی کامیابی سمیٹی اور اقتدار نریندر مودی کے حوالے کردیا ،وزیراعظم کی قیادت میں حکمرانوں نے نئی دہلی اور بہار کو چھوڑ کر تمام ہی ریاستی الیکشنز میں فتح پائی ۔


ساڑھے6 کروڑ سے زائد ووٹر رکھنے والی ریاست بہار کے 2015ء کے انتخابات میں لالو پرساد یادیواورنتیش کما ر کا گرینڈ الائنس 243نشستوں کی ریاستی اسمبلی 178سیٹوں پر کامیاب رہا اور اقتدار کے مسند پر براجمان ہوا۔
بہار کے صوبائی الیکشن سے پہلے نریندر مودی کی خواہش تھی کہ نئی دہلی کی شکست کو کسی اور ریاست میں نہ دہرایا جائے، اس لئے یہاں کئی بڑے عوامی جلسے کئے گئے ،پارٹی کے مرکزی صدر نے خوب جوڑ توڑ کی ،لیکن لالو پرساد یادیو اور نتیش کمار کے گرینڈ الائنس انہیں شکست فاش دی ۔


اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی وکٹری کا حامل سیاسی اتحاد صرف20 ماہ میں کیسے ’ہوا ‘ہوگیا ؟اگر بات واقعی وہ ہے ، جو نتیش کمار نے استعفیٰ دیتے وقت کہی کہ’ لالو پرساد یادیو کے بیٹے اور نائب وزیراعلیٰ پر لگے’ کرپشن الزامات‘ والے ماحول میں کام کرنا مشکل ہورہا تھا،اس لئے عہدہ چھوڑ دیا ‘۔


نتیش کمار یقینی طور پر بہار کے ذہین اور زیرک سیاستدان ہیں،انہوں نے چھٹی مرتبہ وزرات اعلیٰ کا حلف اٹھایا،کیا وہ 2015 ء کے ریاستی انتخابات سے قبل سے لالو پرساد یادیو ، رابڑی دیوی کے کرپشن اسکینڈلز سے ناواقف تھے؟ توایسا بالکل نہیں ہے ، کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ ان دونوں کے صاحبزادے کا چال چلن کیسا ہے؟تو بات یوں بھی نہیں ہے ۔


بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق استعفیٰ دینے سے 12 گھنٹے پہلے تک نتیش کمار اپنے اتحادیوں کے ساتھ خوش تھے،لیکن جیسے ہی لالوپرساد یادیو اور کانگریس کے اتحادیوں نےبہار کے نائب وزیراعلیٰ کے استعفیٰ دینے کے معاملے پر انکار کیا تو نتیش کمار کا ’ من ‘ بوجھل ہوگیا۔

بات اگر یوں ہے کہ اصولوں پر سمجھوتا’ ناممکن ‘ ہے تو پھر یہ کیوں ہوا کہ جس گورنر کو چند گھنٹوں پہلے وزرارت کا استعفیٰ تھمایا گیا تھا،اسی کے ہاتھ میں نئے اتحاد اور وزیراعلیٰ بننے کا لیٹر دیدیا گیا ؟اور صبح سویرے ہی حلف برداری کا میدان سجا اور قانونی طور پر کل کے حریف آج کے حلیف بن گئے ، کئی برس کی سیاسی کرواہٹ کو شہد سمجھ کرپی لیا گیا ۔

کیا سب کچھ لالو پرساد کے ایک انکار کے بعد ہوا ؟اس کا جواب بہار کی سیاست کے مستقبل کے لئے یقینا اہم ہے،لیکن کچھ کڑیاں ،بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے ٹوئٹر پیغام ،بی جے پی بہار کے کرتا دھرتا سوشیل کمار مودی کے بیان سے جڑ جاتی ہے اور باقی سب کچھ ایک اتحاد سے چھٹکارے کے بعد اقتدار کے لئے عجلت میں بنایا گیادوسرا اتحاد سب کچھ واضح کر دیتا ہے۔

سابق نائب وزیراعلیٰ بہار تجیسوی یادیو نے سیاسی الٹ پھیر پر کہا کہ ہمارا نام لے کر بہانا کیا گیا اصل میں نتیش کمار کے بہت پہلے بی جے پی سےمعاملات طے پاگئے تھے،ہمارے پورے خاندان پر پوائنٹس اسکورنگ کے لئے الزامات لگائے گئے،اگر ہم پر لگائی گئی باتیں درست ہیں تو تمام پارٹیوں سے عوام کے پاس ایک بار پھر چلنے کا کہہ دیتے ہیں،ہم تواس کے لئے تیار ہیں۔

بہار کے وزیراعلیٰ کےیو ٹرن سے وزیراعظم مودی کی ملکی سیاست پر پکڑ مضبوط ہوچکی ہے ،وہ تقریباً ڈیڑھ برس بعد پٹنہ کا دورہ کرنے جائینگے ،اس وقت نئی دہلی میں کیجری وال کی حکومت کے سوا بھارت کے ہر کونے سے’ جیے ہومودی کی سرکار‘ کی گونج ہے، بہار میں 1997 ءکے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مرکز اور صوبے میں ایک ہی حکمران اتحاد اقتدار کی مسند پر برا جمان ہے۔

( گزشتہ روز بھارتی پارلیمنٹ میں حکمران جماعت نے یہ بات قبول کی ہے کہ گزشتہ 3 برس کے دوران ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں انسانی جانوں کےزیاں میں 41فیصد اضافہ ہوا ہے،اس دوران یہ نہیں بتایاگیا کہ’ گائے رکشا ‘کے نام پر کتنے انسانوں کو ’بلی‘ چڑھایا گیا) دیکھتے ہیں بہار کے عوام کی ترقی کے دعووں سے مزین ’ سیکولر بھارت ‘ میں’ بھگوا‘ اقتدار کا یہ نیا روپ کیا’ گجرات فسادات اور’ اتر پردیش کے حبس زدہ‘ ماحول کے مناظر تو نہیں دوہراتا ۔