ایٹمی جنگ کی سوچ کا پھیلائو؟

July 29, 2017

بحرالکاہل میں تعینات امریکی بحری بیڑے کے کمانڈر اسکاٹ سوفٹ کا کہنا ،کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر چین پر جوہری حملہ کرسکتے ہیں، اس سوچ کی موجودگی کا اظہار ہےکہ واشنگٹن کسی بھی ملک کو ایٹمی تباہی سے دوچار کرسکتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اگست 1945ء میں جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے ایٹم بموں کی تباہی کی بعض نشانیاں آج بھی موجود ہیں۔ آج سے کئی عشرے قبل پچھلی صدی کے دوران کیوبا کے مسئلے پر سوویت یونین اور امریکہ اس طرح آمنے سامنے آئے تھے کہ ایٹمی جنگ کسی بھی لمحے چھڑنے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا مگر صورتحال کی سنگینی دیکھ کر جب ماسکو نے اپنے ہتھیار کیوبا سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تو دنیا کو اطمینان کا سانس لینے کا موقع ملا۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے جس وقت بجلی گھر کیلئے دی گئی یورنیم چوری کرکے پہلا ایٹمی دھماکہ کیا اس وقت سے پاکستان کو دھمکیاں دینے اور اس کیلئے عرصہ حیات تنگ کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرکے اپنے پاس بھی اس ہتھیار کی موجودگی کا اعلان کیا، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ بھارتی وزیراعظم واجپائی اپنے لب و لہجے میں تبدیلی کرکے امن مشن پر پاکستان آئے۔ بعدازاں نئی دہلی کی طرف سے دہشت گردی کے ذریعے پراکسی وار کے اقدامات، کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن، مختصر مدت کے تیز رفتار حملوں اور محدود ایٹمی جنگوں کے مذموم عزائم اگرچہ مسلسل سامنے آتے رہے ہیں مگر کسی بڑی مہم جوئی کی اسے ہمت نہیں ہوسکی۔ امریکی بحریہ کے ایڈمرل نے آسٹریلیا کی نیشنل یونیورسٹی میں خطاب کے دوران جس انداز میں چین پر حملے کی بات کی ،چینیوں کے الفاظ میں وہ غیرمحفوظ، غیر پیشہ ورانہ اور غیردوستانہ ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ رعونت والی سوچ تاریخ کے مختلف ادوار میں بڑے المیوں کو جنم دیتی رہی ہے،اس سے بڑے اور چھوٹے ممالک کو بچانے کے لئے تمام جوہری ملکوں کی مشاورت سے عالمی میکنزم کو زیادہ موثر بنایا جانا چاہئے۔ جو لوگ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی سوچ پھیلانے کا ذریعہ بن رہے ہیں ان کی بازپرس بھی کی جانی چاہئے۔