پی ٹی آئی میں نوجوانوں اورخواتین کیلئے ابھی کوئی پالیسی بنی ہی نہیں،گلالئی

August 20, 2017

کراچی (ٹی وی رپورٹ)پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان پر جنسی ہراسگی کے الزامات لگانے والی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی نے کہا ہے کہ میری سابقہ پارٹی(پی ٹی آئی) میں نعرے تو بہت لگائے جاتے ہیں لیکن نوجوانوں اورخواتین کے لئے ابھی کوئی پالیسی تو بنی نہیں ہے۔وہ جیو نیو زکے پروگرام’’جرگہ‘‘میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کررہی تھیں۔اس پروگرام میں ان کی بہن عالمی اسکوائش کھلاڑی ماریہ تورپکئی اوران کے والد شمس القیوم وزیر بھی موجود تھے۔ماریہ تورپکئی نے پروگرام میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اسپورٹس کے میدان میں آگے بڑھنے اور یہاں تک پہنچنے کا کریڈٹ میرےوالد شمس القیوم کو جاتا ہے کیونکہ کہا یہ جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن میں کہتی ہوں کہ ہمارے معاشرے میں ہر کامیاب بیٹی ، بہن کے پیچھے ایک باپ اور بھائی کا ہاتھ ہوتا ہے،اگر میرےوالد بچوں کی تعلیم اور کھیلوں پر یقین نہ رکھتے تو آج میں شادی کرکے مسئلے مسائل میں پھنسی ہوئی ہوتی۔ماریہ تورپکئینے شکوہ کیا کہ اسکواش میں عالمی اعزازات کے باوجود آج تک حکومت پاکستان کی طرف سے کوئی سرپرستی نہیں مل سکی،میرے پاس ابھی تک پاکستان کی طرف سے کوئی اسپانسر بھی نہیں ہیں۔ماریہ اور عائشہ کے والد شمس القیوم کا سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ زندگی ماریہ کی تھی اب اس کی مرضی جس طرح گزارے، میں کیوں کر اس میں مداخلت کروں کیونکہ کھیلنا، تعلیم حاصل کرنا اس کا حق ہے،میری دوبیٹیاں ہیں،ایک سیاست میں،دوسری اسپورٹس میں لیکن دونوں ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت بھی نہیں کرتی ہیں اور نہہی میں کرتا ہوں ۔عائشہ کا سیاستاو رماریہ کا اسپورٹس میں جانے کا فیصلہ اپنا تھا اس میں میرا کوئی کردار نہیں ہے اور نہ ہی میں نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ یہ ان شعبوں کا انتخاب کریں۔سلیم صافی نے پروگرام کے آغازمیں کہا کہ ایک ایسی بچی جس نے انتہائی صعوبتیں برداشت کرکے آج اسکواش کے میدان میں ایک مقام حاصل کیا اور خواتین اسکواش میں نمبر ون ہے ، عالمی سطح پر بھی پاکستان کے لئے اعزاز حاصل کررہی ہے یہی نہیں بلکہ ماریہ تور پکئی نے اوسلو میں فریڈم فورم پر ایک خطاب بھی کیا جس میں پاکستان کے کیس کو عالمی سطح پر اس انتہائی خوبصورتی سے پیش کیا ہے جو ہمارے سفیر بھی پیش نہیں کرسکے ہیں ۔ لیکن یہ ہمارے لئے شرم کا مقام ہے کہ آج تک پاکستان کی جانب سے اس بچی کی کوئی سرپرستی نہیں کی گئی ہے ۔ جبکہ یہ ہمارے لئے شرم کا مقام ہے کہ کینیڈا سے اسکواش کا ایک سابق کھلاڑی اس کھلاڑی لڑکی کو سپورٹ کرنے کے لئے آجاتا ہے لیکن پاکستان میں اربوں کھربوں فضولیات پر تو خرچ کردیئےجاتے ہیں لیکن اس میں ان جیسے ہونہار بچیوں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔اس موقع پر گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ماریہ تو ر پکئی کا کہنا تھا کہ اسپورٹس کے میدان میں آگے بڑھنے اور یہاں تک پہنچنے کا کریڈٹ میرےوالد شمس القیوم کو جاتا ہے کیونکہ کہا یہ جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن میں کہتی ہوں کہ ہمارے معاشرے میں ہر کامیاب بیٹی ، بہن کے پیچھے ایک باپ اور بھائی کا ہاتھ ہوتا ہے اگر میرےوالد بچوں کی تعلیم اور کھیلوں پر یقین نہ رکھتے تو آج میں شادی کرکے مسئلے مسائل میں پھنسی ہوئی ہوتی ۔لڑکی ہوتے ہوئے لڑکے کا روپ دھار کر رکھنے کا آئیڈیا میرا اپنا ہی تھا،پانچ سال کی عمر سے میں نے محسوس کیا کہ لڑکے بڑے آرام سے باہر کھیلتے ہیں جدھر چاہتے ہیں چلے جاتے ہیں تو میں نے محسوس کیا کہ میں وہ انرجی رکھتی ہوں خود کو اتنا مضبوط محسو س کرتی ہوں کہ اگر لڑکا بن کر باہر نکلوں تو میں ان کا مقابلہ کرسکتی ہوں ان کے ساتھ کھیل سکتی ہوں باہر گھوم پھر سکتی ہوں ۔ میں نے اپنے تمام لڑکیوں والے کپڑے جلادیئے اور بھائی کے کپڑے پہن لئے جب میرے والد نے مجھے دیکھا تو انہوں نے سختی کے بجائے مجھے مسکراکر دیکھا اور کہا کہ آج سے تمہارا نام چنگیز خان ہے ۔ میرا بھائی اس عمر سے میرے دوست کی طرح رہا اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ لڑکوں کی زندگی کیا ہوتی ہے یعنی بہت آزادی سے گھومنا پھرنا ۔اسپورٹس میں بھی میں لڑکوں کی طرح ہی آئی اور اپنا پہلا ویٹ لفٹنگ ٹورنامنٹ لاہور میں چنگیز خان کے نام سے ہی کھیلا تھا پھر جب اسکواش کو دیکھا کہ پشاور میں زیادہ کھیلا جاتا ہے تو میں نے سوچ لیا تھا کہ میں لڑکوں کی ورلڈ چیمپئن بنوں گی اور جب وہاں داخلہ لیا اور اپنا برتھ سرٹیفکیٹ جمع کرانا پڑا تو پھر ان کو پتہ چلا کہ میں لڑکی ہوں اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اس معاشرے میں لڑکی کے لئے رولز اور اور لڑکے کے لئے رولز اور ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام نے خواتین کو تمام حقوق دیئے مگر ہمارا معاشرہ عورت کو حق دینے کو تیار نہیں،میں سمجھتی ہوں کہ خواتین کو ہر شعبے میں فیصلے کا اختیار ملنا چاہئے ۔ اپنے اعزازات کے حوالے سے بتاتے ہوئے ماریہ تور پکئی کا کہنا تھا کہ اسکواش میں انڈر13 چیمپئن بنی ، انڈر 15 ہوتے ہوئے بھی میں نے نیشنل ٹورنامنٹ تک جیتا ۔ جبکہ سارے جونیئر ٹائٹل بھی اپنے نام کئے ، اس کے علاوہ ورلڈ جونیئر جس میں ہزار سے زائد خواتین تھیں اس میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ اس کے علاوہ مصر، ہانگ کانگ ،انڈیا ، امریکا او ردیگر ممالک میں بھی کئی ٹورنامنٹ جیتے ۔ میں ٹاپ ٹین کے تمام پلیئرز سے جیت چکی ہوں میری رینکنگ 41تک آچکی ہے ۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ اسکواش میں عالمی اعزازات کے باوجود آج تک حکومت پاکستان کی طرف سے کوئی سرپرستی نہیں مل سکی،میرے پاس ابھی تک پاکستان کی طرف سے کوئی اسپانسر بھی نہیں ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے سیکورٹی کا بھی مسئلہ رہا ہے کیونکہ مجھے کافی تھریڈ آئی ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے وزیراعظم او رکور کمانڈر کو خطوط لکھے ہیں جس طرح اچھی پرفارمنس پر کھلاڑیوں کو پلاٹ اور دیگر انعامات دیئے جاتے ہیں اسی طرح سے میں بھی اس کی حقدار ہوں لیکن شاید کہ ان کو میرا پیغام ملا نہیں ہے تاہم میں ابھی تک ان کےجواب کی منتظر ہوں ۔ باہر ممالک کے حوالے سے ماریہ تور پکئی کاکہنا تھا کہ باہر کے لوگ میری مدد کررہے ہیں ، کینیڈا اور امریکا میں رہی تو وہاں مجھے ٹورنامنٹ بھی آسانی سے ملتے تھے ۔ماریہ کا کہنا تھا کہ کینیڈا کی طرف سے بھی مجھے آفر ہوئی کہ میں ان کے ملک کی طرف سے کھیلوں جبکہ اور بھی ممالک سے کھیلنے کی مجھے آفر ہے لیکن میرا انتخاب پاکستان ہی رہا ہے کیونکہ میرے باپ کی تربیت یہی رہی ہے کہ ہمیں ہمیشہ ملک کے لئے لڑنا ہے ، ملک کے لئے ہی کرنا ہے ۔ میری پوری فیملی باہر منتقل ہوسکتی تھی لیکن میرے والد کی ترجیح پاکستان میں رہنا تھی وہ کہتے تھے کہ آپ باہر جاکر کھیلو لیکن ہم پاکستان میں ہی رہ کر آپ کا حوصلہ بڑھاتے رہیں گے ، میری دعا ہے کہ اللہ تمام بیٹیوں کو ایسے ہی والد دے ۔ ماریہ تورپکئی نے انکشاف کیا کہ وہ اپنے علاقے میں قبائلی بچے ، بچیوں کے لئے اسپتال بنارہی ہیں جس کے لئے زمین مجھے میرے والد نے گفٹ کی ہے۔میری مصروفیات باہر زیادہ ہیں اس لئے کینیڈا و ردیگر ممالک میں زیادہ رہتی ہوں لیکن میری کوشش رہتی ہے کہ پاکستان آتی جاتی رہوں ۔ ماریہ نے بتایا کہ 2007 میں انہیں عسکریت پسندوں کی طرف سے دھمکیاں ملی تھیں۔ عسکریت پسندوں نے میرے والد کی کار کے وائپر میں ایک خط اٹکا دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ آپ کی بیٹیاں جو کررہی ہیں وہ ہمارے معاشرے اور مذہب میں نہیں لہٰذا ان کو گھر پر بیٹھائیں اور خود تبلیغ پر جائیں ،جس کے بعد میں نے کچھ عرصے تک کھیل کا سلسلہ ترک کردیا،پھر میں باہر چلی گئی اور 2012 ء میں واپس آئی تو پھر مجھے دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں جس پر میں نے اس وقت کے وزیراعظم سے خط کے ذریعے اسلام آباد میں گھر کے لئے درخواست کی تھی ۔میں پاکستان اسکواش فیڈریشن کا کیمپ اٹینڈ کرنے اسلام آباد گئی تو وہاں سے ایک دن کے لئے سب کھلاڑی مری گئے تفریح کے لئے،میں بھی گئی تو وہاں میرا پیچھا کیا جاتا تھاجس پر مجھے او ر دیگر تمام کھلاڑیوں کو ایئر میس بھیجوادیا گیا جہاں سے اگلے دن مجھے ایک خصوصی گاڑی کے ذریعے واپس اسلام آباد بھجوادیا گیا۔ماریہ کا کہنا تھا کہ میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔مجھے سیاست میں نہیں گھسیٹاجاناچاہئے تھا، ضروری نہیں کہ میری بہن اگر کسی پارٹی میں ہے تو میں بھی اسی پارٹی کو پسند کرتی ہوں۔میں صرف اسکواش کھیلناچاہتی ہوں جبکہ میری فاؤنڈیشن ماریہ تور پکئی فاؤنڈیشن جنوری 18ء میں نیویارک میں لاؤنچ ہوگی جس کے ذریعے میں پاکستان میں اسپورٹس اور تعلیم کے لئے کام کرناچاہتی ہوں ۔ماریہ اور عائشہ کے والد شمس القیوم کا سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ زندگی ماریہ کی تھی اب اس کی مرضی جس طرح گزارے، میں کیوں کر اس میں مداخلت کروں کیونکہ کھیلنا، تعلیم حاصل کرنا اس کا حق ہے،میری دوبیٹیاں ہیں،ایک سیاست میں،دوسری اسپورٹس میں لیکن دونوں ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت بھی نہیں کرتی ہیں اور نہہی میں کرتا ہوں ۔عائشہ کا سیاستاو رماریہ کا اسپورٹس میں جانے کا فیصلہ اپنا تھا اس میں میرا کوئی کردار نہیں ہے اور نہ ہی میں نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ یہ ان شعبوں کا انتخاب کریں ۔ شمس القیوم وزیر کا کہنا تھا کہ مزاحمت تو ہراس معاشرے میں ہوتی ہے اور اگر آپ اپنے قبیلے سے انحراف کرتے ہیں تو تکالیف کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے،لوگ مجھے طعنے بھی دیتے تھے، آوازیں بھی کسی جاتی تھیں،صورتحال یہ تھی کہ میں حجرے میں جاکر بیٹھ بھی نہیں سکتا تھاکیونکہ مجھے وہاں عجیب نظروں سے دیکھا جاتا تھا لیکن میں نے ان تکالیف کو اپنے قریب آنے نہیں دیا اور نہ ہی اپنی بچیوں پر اس کے اثرات پڑنے دیئے۔اپنے بیٹوں کے سیاست میں نہ آنے پربات کرتے ہوئے شمس القیوم وزیرکا کہنا تھاکہ بیٹو ں نے تعلیم کی طرف دھیان زیادہ رکھا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ یہ سروس کی طرف آجائیں ،میرا ایک بیٹا الہام بھی انڈر 18 چیمپئن ہے جبکہ دوسرا بیٹا ایشین گیمز میں نمبر تین کی پوزیشن پر رہ چکا ہے۔رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی نے پروگرام جرگہ میں اپنے قبائلی مردانہ لباس میں پگ لگا کر شرکت کی اورسلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج جو پگڑی اورلباس میں پہن کر آئی ہوں یہ میں اس وقت تک پہنوں گی جب تک ہمارے معاشرے میں مجھے اور دیگرخواتین کو انصاف نہیں مل جاتا۔یہ معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے اور رضیہ سلطانہ نے بھی مرد بن کر مردوں کا مقابلہ کیا تھا،میں سمجھتی ہوں کہ خاتون کو مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہئے تاکہ میسج جائے کہ ہم ڈرنے والے نہیں اور اپنی بات سے پیچھے بھی نہیں ہٹیں گے۔ میں اس پگڑی کوپہننے کی حقدار ہوں کیونکہ میں نے اس معاشرے میں اپنے حق کے لئے او راپنے حق سے زیادہ باقی خواتین کے حقوق کے لئے آواز بلند کی تاکہ آئندہ کوئی مرد غلط رویہ رکھنے سے پہلے سو دفعہ سوچے ۔ یہ آواز بلند کرکے میں سمجھتی ہوں کہ میں نے پختونوں کی اس پگڑی کو بلند کیا ہے،اپنے والد کی پگڑی کو بلند کیا ہے۔ہماری خواتین جب گھروں سے باہر نکلتی ہیں تو مردوں کا رویہ اس معاشرے کا رویہ ان کے ساتھ کیسا ہوتا ہے،یہ سب نے دیکھا ہے،سیاست میں بھی خواتین کو ان کا حصہ نہیں دیا جاتا ہے،بے نظیر بھٹو جیسی خاتون نے بھی مردوں کے اس معاشرے میں کافی مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میں مردوں کا لباس پہنوں ، پگ لگاؤں لیکن میں خاتون ہی رہوں گی لیکن ایک ایسی مضبوط خاتون جس کا کوئی استحصال نہیں کرسکے گا ۔ عائشہ گلالئی کا اپنی تعلیم کے حوالے سے کہنا تھاکہ میں نے اپنی میٹرک تک تعلیم قبائلی علاقوں بنوں ، نارتھ وزیرستان ، ایف آر کوہاٹ سے حاصل کی جبکہ انٹر کی تعلیم پشاور میں حاصل کی ہے ۔ سیاست میں آمد کیسے ہوئی پر بات کرتے ہوئے عائشہ گلالئی کا کہنا تھا کہ مجھے پانچ سال کی عمر سے شوق تھا کہ میں مختلف موضوعات پر تقاریر کروں ، میرےوالد مجھے اسلامی موضوعات کی کتابیں پڑھایا کرتے تھے، آل پاکستان ڈیبیٹ کمپٹیشن بھی میں نے کافی جیتے ہیں ، آٹھ سال کی عمر میں بے نظیر بھٹو سے ملاقات ہوئی تو اس وقت میں نے کشمیر ایشو پر اپنے خیالات کا اظہار ان کے سامنے کیا تھاجس کے بعد انہوں نے مجھ کہا تھا کہ آپ مجھے وزیراعظم نہیں ماں کہیں کیونکہ آپ میری بیٹی کی طرح ہیں جس کے بعد انہوں نے ناہید خان کو کہا کہ ان کو پورا پرائم منسٹر ہاؤس دکھایا جائے ۔ جب میں نو سال کی تھی اس وقت بے نظیر بھٹو اپوزیشن میں تھیں اور نوشہرہ میں ایک جلسے سے انہوں نے بھی خطاب کیا اور میں نے بھی خطاب کیا ۔ 2007 میں بے نظیر بھٹو نے مجھے سیاست میں آنے کی دعوت دی ۔انہوں نے بتایا کہ پرویز مشرف مارشل لاء کے خلاف احتجاج کی وجہ سے خیبر ایجنسی میں مجھے گرفتار کیا گیا تھا،میں پہلی خاتون تھی جو پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے گرفتار ہوئی ،میری سیاسی جدوجہد کوئی آج کی نہیں بہت پہلے سے ہے ۔میری سیاست میں آنے کی وجہ سے طالبان کی طرف سے مجھے بھی دھمکیاں ملی تھیں ۔پی ٹی آئی کے حوالے سے ان کا کہنا تھاکہ میری اس سابقہ پارٹی میں نوجوانوں اور خواتین کے نعرے تو بہت لگائے جاتے تھے لیکن اس حوالے سے کوئی بھی پالیسی ان کی ابھی تک تو تھی نہیں ۔ عمران خان خو دایک کھلاڑی ہیں لیکن جس طرح سے ان کی ٹیم کی طرف سے میری بہن کے خلاف مہم چلائی گئی وہ افسوسناک ہے لیکن خوشی ہے کہ ان کی طرف سے اس مہم کو روکنے کے لئے ٹوئٹ کیا گیا،کسی اور سیاسی پارٹی میں شمولیت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ وقت آنے پر کروں گی لیکن جہاں پر ہمارے نوجوانوں اور خواتین کے حقوق کی بات ہوگی ، کسانوں او رمزدوروں کے حقوق کی بات ہوگی وہ میری ترجیح ہوگی۔