روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار

August 26, 2017

برما حکومت اور وہاں کے بودھ مت انتہا پسندوں کے انسانیت سوز مظالم کے نتیجے میں لاکھوں لٹے پٹے روہنگیا مسلمان ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں ان کی اکثریت بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ ہجرت کر گئی لیکن بڑے دکھ کی بات ہے کہ کوئی بھی ملک انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں بنگلہ دیش سے نکالے جانیوالے کچھ لوگوں نے بھارت کے مختلف علاقوں میں پناہ لی اب بھارت نے اپنی ریاستی حکومتوں سے کہا ہے کہ ان روہنگیائی مہاجروں کی شناخت کرکے انہیں بھارت سے نکال دیا جائے جس پر احتجاج کرتے ہوئے بھارت میں انسانی حقوق کے قومی کمیشن نے حکومت کو نوٹس بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ چار ہفتے کے اندر اس بارے میں ایک تفصیلی بیان جاری کرے کمیشن کا کہنا ہے کہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اس انسانی مسئلے کے ہر پہلو کو مدنظر رکھا جانا لازمی ہے اقوام متحدہ کے ترجمان کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ایک بار مہاجرین جہاں رجسٹرڈ ہو جائیں وہاں سے انہیں ان ممالک میں واپس نہیں بھیجا جا سکتا جہاں انہیں جان و مال کا خطرہ ہو روہنگیا مسلمانوں کا تعلق برما کے صوبہ اراکان سے ہے جو ملک کے جنوبی حصے میں شمالاً جنوباً پھیلا ہوا خلیج بنگال کے مشرقی ساحل پر واقع ہے یہ لوگ محنت مزدوری کرتے ہیں زیادہ تر کا پیشہ ماہی گیری ہے 1400ء میں محنت مزدوری کیلئے وہ مغربی بنگال سے برما کے علاقے اراکان میں آباد ہوئے تھے 1785ء میں جنوبی حصے سے تعلق رکھنے والے بودھوں نے صوبہ اراکان کو فتح کیا تو وہاں سے روہنگیا مسلمانوں کو نکال دیا 1826ء میں جب انگریزوں نے برما کا کنٹرول سنبھالا تو اپنے کام کاج کرانے اور محنت مزدوری کیلئے انہیں واپس بلا لیا یہ سلسلہ انگریزوں کے قیام تک جاری رہا 2012ء کے بعد سے برما میں روہنگیا مسلمانوں پر بودھوں نے پھر ظلم ڈھانا شروع کر دیئےاب تک ہزاروں افراد کوقتل کیا جا چکا ہے ان کا مستقبل اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے لئے ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہےیہ لوگ نہ برما میں رہ سکتے ہیں اور نہ ہی برما سے باہر۔ عالمی برادری کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کے محفوظ مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہئے۔