چند تلخ حقائق

September 26, 2017

دوستو! یہ ہیں وہ تلخ حقائق جن کا ہمیں بحیثیت قوم سامنا ہے۔ تاریخ کا ایک واضح سبق ہے کہ سیاستدان کو نہ غیر سیاسی موت مارا جاسکتا ہے اور نہ ہی انہیں غیر سیاسی طریقوں یا ہتھکنڈوں سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ میری مراد ایسے سیاستدانوں سے ہے جن کا’’کرشمہ‘‘ہوتا ہے اور جن کا مستقل ووٹ بینک ہوتا ہے۔ ووٹ بینک کوئی جامد (Fixed)شے نہیں ہوتی، یہ وقت کے تقاضوں کے مطابق گھٹتا بڑھتا رہتا ہے، لیکن اگر لیڈر صحیح معنوں میں لیڈر ہو تو ووٹ بینک بہرحال قائم رہتا ہے۔ میرے سامنے پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کے اوراق کھلے پڑے ہیں۔ یہاں مختلف الزامات لگا کر ایبڈو کے تحت بھی سیاستدانوں کو نااہل قرار دیا گیا، سیاسی میدان میں داخلے پر پابندی لگائی گئی اور پروڈا کے تحت بھی سیاستدانوں پر پابندیاں لگائی گئی لیکن جونہی حکمران کی گرفت ہوئی، پابندی زدہ سیاستدان متحد ہو کر حکمرانوں کے خلاف باہر نکلے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور حکومتوں کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہوگئے۔ایک کرپشن کا الزام وہ ہوتا ہے جو ایوب خان سے لے کر غلام اسحاق تک حکمران سیاستدانوں پر لگاتے رہے لیکن ووٹرز کو قائل نہ کرسکے۔ ایک کرپشن وہ ہوتی ہے جسے لوگ دل سے تسلیم کرکے لیڈر کی سیاسی حمایت سے تائب ہوجاتے ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے زرداری صاحب کی کرپشن پیپلز پارٹی کو کھاگئی اور سندھ کارڈ کے علاوہ باقی تین صوبوں میں پی پی پی اپنی روایتی حمایت سے محروم ہوگئی۔ یہی الزامات محترمہ بینظیر بھٹو پر بھی تھے لیکن اگر وہ زندہ رہتیں تو پھر وزیر اعظم بنتیں کیونکہ سیاسی کرشمے والی سیاسی قیادت بڑی سخت جان ہوتی ہے اور اسے کسی بھی طریقے سے ختم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اول تو سیاستدان کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے الزام اور کڑوے سچ کو’’انتقام‘‘ کا نام دے ہضم کر جاتا ہے، اس کے حمایتی بھی ان الزامات کو دل سے نہیں مانتے اور اسے جتنا دبایا جائے وہ اتنا ہی ابھرتا ہے۔ اس پر مقدمات بنائے جائیں تو وہ مظلوم بن جاتا ہے اور اسے جیل بھجوایا جائے تو شام غریباں سجا کر مظلوم ترین بن جاتا ہے۔اس کی مظلومیت اس کے سارے اعمال پر پردہ ڈال دیتی ہے اور ووٹروں کے جذبات کو ابھار کر اسے ہیرو بنادیتی ہے۔الزامات سچ ہوں اور انہیں شواہد سے ثابت بھی کردیا جائے تو اس کے ووٹ بینک پر معمولی سااثر پڑتا ہے، اس کا زیادہ حصہ انتقام کے خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ سیاستدان کو اگر دیوار سے لگا دیا جائے اور اسے زبردستی سیاسی میدان سے نکال دیا جائے تو وہ زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے اور اگر اسے سیاسی میدان میں رہنے دیا جائے تو وہ مختلف طریقوں سے بھڑاس نکالتا رہتا ہے، سیاسی نظام کو ڈھانے کی بجائے اس کے اندر رہ کر جدوجہد کرتا ہے اور اس طرح قدرے کم خطرناک ثابت ہوتا ہے، ورنہ اگر اسے دیوار سے لگادیا جائے تو وہ نظام ہی کا دشمن بن جاتا ہے۔ یہ ہیں وہ تاریخ کے تلخ حقائق جو میرے مطالعے کا نچوڑ ہیں۔ مثالیں دوں تو کتاب کا موضوع ہے لیکن اس کی سمری یہی ہے۔ اسی لئے میں اس تھیوری کا قائل ہوں کہ نواز شریف کے لئے سیاسی میدان میں جگہ رہنی چاہئے اور میاں صاحب کو دودھ سے مکھی کی مانند نکالنا دیر پا ثابت نہیں ہوگا جب تک عوام انہیں مسترد نہ کریں، چنانچہ میں اپنے کتابی پس منظر میں دیکھوں تو تنقید کے خدشات کے باوجود قانون بننے کے بعد میاں صاحب کے پارٹی صدر بننے کی گنجائش اور قومی دھارے میں رہنے کی صورت مجھے قومی مفاد میں لگتی ہے۔ اس مسودہ قانون کا ایک ووٹ سے سینیٹ سے منظور ہوجانا، ایک سیاسی کرامت ہے جسے آپ سینیٹ میں موجود پارٹیوں کی ملی بھگت بھی کہہ سکتے ہیں، البتہ یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تو کیا ہوگا؟میری حیثیت محض ایک طالبعلم کی سی ہے اور مجھے تو موجودہ حالات میں میاں صاحب کے لئے بہتر حکمت عملی یہی لگتی ہے کہ وہ عدالتی بائیکاٹ کی پالیسی اور تصادم کی حکمت عملی اپنانے کی بجائے عدالتوں میں اپنی صفائی پیش کریں۔ مقدمات لڑیں اور اپنا مقدمہ عوامی عدالت میں بھی پیش کرتے رہیں۔ اس سے وقت کے ساتھ الزامات کا گہرا تاثر زوال پذیر ہوجائے گا، ان کے لئے نرم گوشے میں اضافہ ہوگا اور پھر عدالتی جنگ مہینوں نہیں بلکہ برسوں کا عمل ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اگر انہیں سزا ہوتی ہے اور جیل جانا پڑتا ہے تو اس سے بھی انہیں سیاسی فائدہ ہوگا۔پاکستان میں موجودگی سے ان کی حالات پر گرفت قدرے بہتر رہے گی جبکہ بیرون ملک اور ’’فرار‘‘کے تاثر سے گرفت تھوڑے ہی عرصے میں ختم ہوجائے گی۔ نتیجہ پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ وغیرہ وغیرہ ہوگا۔ میں نے ز ندگی میں کسی سیاستدان کو دی گئی سزا بھگتتے اور مکمل کرتے نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی سیاستدان کو جیل میں رہ کر غیر مقبول ہوتے اور سیاسی طور پر گھاٹے میں رہتے دیکھا ہےجب تک وہ ملک دشمن قرار نہ پائے۔ تخت اور تختہ ہمیشہ سیاست کا حصہ رہے ہیں اور اس اصول سے فرار ممکن نہیں ۔ شاید میاں صاحب موجودہ تلخ دور سے گزرنے کے بعد سیاسی حوالے سے بلوغت کی مزید منزلیں طے کریں، کچھ سبق سیکھیں اور لوگوں کو پہچاننے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں، اگر گزشتہ جلاوطنی سے انہوں نے کچھ سیکھا ہوتا تو دوبارہ ہرگز وہ غلطیاں نہ کرتے جن کا ذکر ہر روز میڈیا پر ہوتا ہے اس لئے دہرانے کی ضرورت نہیں،اگر انہوں نے معمولی سا سبق سیکھا ہوتا تو مشرف کے ساتھیوں کو اپنی بیساکھیاں نہ بناتے، نہ حواریوں اور خوشامدیوں کے اسیر بنتے، نہ خاندانی بادشاہت کا خواب دیکھتے بلکہ جمہوری عمل کو مضبوط کرنے کے لئے پارٹی کو مضبوط کرتے، اہل اور مخلص قیادت کو ابھرنے دیتے، پارلیمنٹ کو صحیح معنوں میں سیاسی قوت کا سرچشمہ بناتے، اپنے’’جرنیلوں‘‘ اور’’اپنے ججوں‘‘ کی خواہش سے تائب ہوجاتے اور ایک دفعہ وعدہ معاف گواہ بن کر اعترافی بیان دینے والے پر کبھی بھروسہ نہ کرتے، جو ایک بار جھکا وہ مشکل وقت آنے پر دوبارہ بھی جھک سکتا ہے۔ جناب اسحاق ڈار کے پاس کوئی جادو ہے کہ وہ اپنے اعترافی بیان میں منی لانڈرنگ اور جعل سازی کی ساری تفصیلات دینے کے باوجود اور سارے رازوں سے پردہ اٹھانے کے باوجود میاں صاحب کے قریب ترین رہے۔ ان کا بیان پڑھتا ہوں تو لندن والے مسعود قاضی کا خط ایک’’آہ‘‘ لگتی ہے، ایک مظلوم کی آہ۔ میرا مشاہدہ ہے کہ مظلوم کی آہ ایک نہ ایک دن اثر دکھاتی ہے اس لئے ہائی کورٹ سے حدیبیہ پیپر ملز پر پردہ ڈلوانے کے باوجود مجھے یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ’’آہ‘‘فریاد بن کر گونجے گی اور اس کی آواز دبانا ممکن نہیں رہے گا۔ اسی طرح سانحہ ماڈل ٹائون بھی مظلوموں کی ایک آہ ہے اسے بھی فریاد بننے سے نہیں روکا جاسکتا۔ یہ قانون قدرت ہے جہاں دیر ہے، اندھیر نہیں، مگر اس ٹریجڈی کا کیا کیجئے کہ ہمارا ایک مائنڈ سیٹ یا ذہنی رویہ بن چکا ہے۔ جب عدلیہ بڑے لوگوں کی مرضی کے مطابق فیصلے کرتی تھی تو ہم اس پر بداعتمادی کا تبریٰ بھیجتے تھے۔ اب اگر عدلیہ نے آئین و قانون کے مطابق آزادانہ فیصلے کرنے شروع کئے ہیں تو ہم ان کے پس پردہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ڈھونڈھتے ہیں۔ ہم نہ ماضی میں مطمئن تھے نہ اب مطمئن ہیں نہ ہی یہ مانتے ہیں کہ کبھی کبھی قدرت بھی تالاب کو صاف کرنے کے لئے حرکت میں آتی ہے۔