بی بی حضرت زینبؓ۔ ہمدردی، صبر و شکر اور استقامت کا پیکر

October 01, 2017

بلاشبہ انسانی تاریخ میں حضرت حسینؓ امام عالی مقام جیسی مثال نہیں ملتی۔ قائداعظمؒ نے یوم کربلا کے حوالے سے اپنے مختصر لیکن نہایت جامع پیغام میں حضرت امام حسینؓ کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے عقیدت کے سمندر کو ان چند فقروں کے کوزے میں بند کردیا تھا۔ ’’بنی نوع آدم کی تاریخ حضرت امام حسینؓ جیسی روشن مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ وہ محبت، شجاعت، ایثار و قربانی اور عزم و استقلال کا پیکر تھے‘‘۔حقیقت یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں حضرت زنیبؓ جیسی عظیم بہادر، صابر و شاکر اور رضائے الٰہی پہ راضی خاتون کی بھی مثال نہیں ملتی۔ خاتون تو کیا، مرد حضرات کی بھی ایسی مثال نہیں ملتی۔ میں جب بھی حضرت زینبؓ کو کربلا کے انسانیت سوز مظالم کے پس منظر میں دیکھتا ہوں تو مجھے وہ عظمت، کردار کا روشن مینار اوربہادری، صبر و شکر اور عزم و استقلال کا کوہ ہمالیہ نظر آتی ہیں جس کی مثال انسانی تاریخ نہ پیش کرسکی ہے اور نہ آئندہ پیش کرسکے گی۔
کئی برس قبل میں حضرت زینبؓ کے مزار پہ بیٹھا تھا تو دل نے کہا فیض اور نور کا سمندر بہہ رہا ہے۔ یہ سمندر صبر، شکر اور رضا کی دین ہے جس کا بے مثال مظاہرہ حضرت زینبؓ نے کر کے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لئے ایک ایسی شمع روشن کر دی جو قیامت تک روشن رہے گی۔ اس سے رہنمائی حاصل کرنا بھی اپنے اپنے نصیب کی بات ہے، پھر خیال آیا کہ کیا اس سے بڑا اور عظیم تر حسب و نسب کسی کا ہوسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ ہمارے پیارے رسولﷺ کی چہیتی نواسی، خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرہؓ کی پیاری بیٹی اور تربیت یافتہ تھیں اورمولائے کائنات حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا تھیں۔ کیا اس سے بڑا، اس سے اعلیٰ کسی کا حسب نسب ہوسکتا ہے۔ پھر وہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کی پیاری بہن تھیں۔ اس خیال کی لہر جاری تھی کہ دل نے کہا مسلمان کا ایمان عشق رسولؐ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ عشق رسولﷺ کے بغیر نہ روح منور ہوتی ہے اور نہ دل کا آئینہ چمکتا ہے، نہ باطن کی آنکھ کھلتی ہے نہ زندگی کا راز سمجھ آتا ہے۔ ذرا سوچو کہ عشق رسولؐ اہل بیت کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ان کڑیوں کو جوڑا جائے تو روحانیت کی رنجیر بنتی ہے۔ کبھی غور کیا تم نے حضورﷺ نے فرمایا تھا۔ میںؐ علیؓ سے ہوں اور علیؓ مجھ سے ہیں۔ میںؐ حسنؓ اور حسینؓ سے ہوں اور وہ مجھ سے ہیں۔ ذرا ان الفاظ کی گہرائی پر غور کرو۔ یہ بات محض حسب نسب کی نہیں، حسب نسب کی بات سطحی ہے۔ ذرا ان الفاظ کے سمندر کی گہرائی میں اترو اور سمجھنے کی کوشش کرو کہ کوئی کسی سے کب اور کیونکر ہوتا ہے؟ یہ محض خون اورگوشت کے رشتے کی بات نہیں۔ یہ اپنی مکمل شخصیت کے ٹکڑوں اور حصوں کا معاملہ ہے جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس لئے حب رسولؐ اور حب اہل بیت ایک ہی سلسلے کی کڑیاں، ایک ہی چراغ کی دو بتیاں اور ایک ہی جذبے کی دو تہیں ہوگئیں۔
نوافل ادا کرنے کے بعد میں مزار اقدس کی صف پر بیٹھا تھا۔ میرے اردگرد بیٹھے لوگ حضرت زینبؓ کے مزار کی سنہری طلائی جالیوں پر آنکھیں جمائے اپنی جذب و مستی کی دنیا میں گم تھے، لیکن میرے قلب و ذہن پر خیالات کی پریاں قطار اندر قطار اتر رہی تھیں۔ معاً خیال آیا کہ ہم کیسے مسلمان ہیں کہ ان عظیم ہستیوں سے عقیدت بھی رکھتے ہیں، لیکن ان کی زندگی کی شمع سے روشنی بھی حاصل نہیں کرتے۔ ان ہستیوں کے اعمال کو مثال بھی سمجھتے ہیں، لیکن ان سے ذرا بھی سبق نہیں سیکھتے۔ ذرا سوچو کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے محبوب رسولﷺ نبی آخر الزمان کی نواسی، حضورﷺ کی نہایت پیاری بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی بیٹی اور مولائے کائنات خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا میدان کربلا میں اپنے پیارے بھائی حضرت امام حسینؓ اور اپنے دو جگر گوشوں حضرت محمد بن عبداللہؓ اور حضرت عون بن عبداللہؓ کے علاوہ اپنے بھتیجوں، بھانجوں، قریبی عزیزوں کی شہادت کے بعد صحرا کی وحشت اور رات کی تاریکی میں تنہا غموں کا پہاڑ اٹھائے بیٹھی تھیں لیکن نہ کوئی ماتم، نہ گریہ اور نہ ہی معصوم ہونٹوں پر شکایت۔ صبر کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا تھا، اللہ کی رضا پر اس قدر راضی کہ اپنے رب سے ان قربانیوں کی قبولیت کی دعا میں مصروف تھیں۔ دوسری طرف دشمن کے خیموں میں فتح کا جشن منایا جارہا تھا۔ دشمن نے اہل بیت کی عبادت گزار اور حرم نبویؐ کی عفت مآب بیٹیوں کے سروں سے چادریں بھی اتار لی تھیں اور کانوں سے سونے کی بالیاں بھی کھینچ لی تھیں۔ کئی دن سے بھوکی، پیاسی حضرت زینبؓ اور بچوں کو یزیدی امیر لشکر عمر بن سعد نے جلا ہوا خیمہ بھیجا تو حضرت زینبؓ نے اسے بچوں پر لگا کر انہیں سلا دیا اور خود عبادت میں مصروف ہوگئیں۔ قیامت کی اس رات بھی آپ نے نہ نماز تہجد قضا کی اور نہ ذکر و اذکار میں کمی آنے دی۔ سبحان اللہ! صبر و شکر اور رضائے الٰہی کی انتہا ہے کہ جب اس لٹےپٹے غم کے لہو میں ڈوبے قافلے کو کوفہ کے گورنر ابن زیاد کے دربار میں لایا گیا تو اس نے حضرت زینبؓ سے پوچھا۔ آپ نے اپنے بھائی کے سلسلے میں خدا کے امر کو کیسا پایا؟ حضرت زینبؓ نے نہایت اطمینان اور یقین کے ساتھ جواب دیا۔ ’’ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ انہیں مقتول دیکھے اور اب وہ لوگ خدا کی ابدی بارگاہ میں آرام کررہے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ! کیا صبر، شکر اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی اس سے بڑی مثال دی جاسکتی ہے؟ ہوسکتا ہے میری کم علمی ہو، لیکن تاریخ عالم میں اس طرح کے صبر و شکر کی مثال شاید ہی ملے۔
اس خیال کے آتے ہی دل کے ایک گوشے میں کانٹے کی سی چبھن محسوس ہوئی جس نے اس احساس کو جنم دیا کہ ہم صبر اور شکر کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، عشق رسولؐ اور حب اہل بیت کے دعوے بھی کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ پائوں میں ذرا سا کانٹا چبھے، کوئی مصیبت یا مشکل آجائے یا غم و صدمہ کا سامنا کرناپڑے تو صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے گلے شکوے کرنے شروع کردیتے ہیں اور آہیں بھر بھر کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ کسی بدو نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ جہنم کی آگ کس شے سے ٹھنڈی ہوتی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا۔ ’’دنیا کی مصیبتوں پر صبر کرنے سے۔‘‘ بدو نے عرض کیا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔‘‘ میں حضرت زینبؓ کے مزار اقدس پر بیٹھا سوچتا رہا کہ کیا دنیا کی مصیبتوں پر صبر کی اس سے بڑی مثال مل سکتی ہے؟ کیا غم کے پہاڑ تلے دب کر صبر و شکر کے ساتھ بھوکے پیاسے بھائی، بیٹوں، بھانجوں، بھتیجوں کے خون شہادت کے باوجود اس قدر کثرت سے ذکر الٰہی کیا جاسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ جن کا نام خود ہمارے پیارے رسول ﷺ نے حکم خداوندی پر رکھا تھا اور جسے کھجور کے ساتھ اپنے لعاب دہن سے ’’گڑھتی‘‘ دی صرف وہی عظیم ہستی اس قدر صبر و شکر کا مظاہرہ کرسکتی تھی اور صدمات میں ڈوب کر بھی ذکر الٰہی کرسکتی تھی۔ ہم ان کی مثال کی شمع سے روشنی کی ایک کرن بھی حاصل کرلیں تو زندگی میں عظیم انقلاب آجائے۔