خطرے کی بُو

October 24, 2017

اپنے نوجوان پڑھاکو دوست محمودالحسن کی مہربانی سے ہم نے بھی ارن دھتی رائے کا ناول The Ministry of Utmost Happiness پڑھ لیا۔ اب یہ ناول کیسا ہے؟ اس کے بارے میں تو پھر کبھی بات ہو گی البتہ ہم یہاں ناول کے اس حصے کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جسے پڑھتے ہوئے ہمارے دماغ کو زور کا جھٹکا لگا تھا اور ہماری آنکھوں کے سامنے ایک فلم سی چلنے لگی تھی۔ یہ حصہ دلّی کے اس مقام سے متعلق ہے جہاں بھانت بھانت کے سیاسی اور سماجی گروہ اپنے اپنے مطالبات کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔ یہاں ان صاحب کا ذکر بھی آتا ہے جنہوں نے ہندوستان میں کرپشن کے خلاف مہم چلائی تھی۔ ان صاحب کا نام انّا ہزارے تھا۔ جب وہاں یہ تحریک چل رہی تھی تو یہاں پاکستان میں بیٹھے ہم بھی خوشیاں منا رہے تھے کہ کہیں تو کرپشن کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ ہم امید لگائے بیٹھے تھے کہ ایسی مہم یہاں بھی کامیاب ہو گی۔ لیکن ارن دھتی رائے اس تحریک کو کسی اور طرح ہی دیکھ رہی تھیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ اس مہم نے نریندر مودی کو موقع فراہم کیا اور وہ گجرات سے نکل کر پورے ہندوستان پر چھا گیا۔ مودی کو وہ گجرات کا للا (لاڈلا بچہ) کہتی ہیں۔ مذہبی انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ نے آبادی کے اٹھارہ بیس فیصد مسلمانوں کے ووٹ کے بغیر ہی نہ صرف ہندوستان میں اپنی حکومت بنا لی، بلکہ اتر پردیش (یوپی) میں بھی ملائم سنگھ یادو اور مایا وتی جیسے سیکولر لیڈروں کی جماعتوں کا صفایا کر دیا۔ کیا یوپی کے باشندے کبھی سوچ بھی سکتے تھے کہ گیروی دھوتی باندھے اور گیروی چادر لپیٹے ایک مندر کا پجاری، یوگی (جوگی) آدتیہ ناتھ ان کے صوبے کا وزیر اعلیٰ بن جائے گا؟ ارن دھتی رائے کا خیال یہ ہے کہ یہ سب کرپشن کے نام پر کانگریس اور اس جیسی دوسری لبرل جماعتوں کو بدنام کرنے کا نتیجہ ہے۔ یہ جماعتیں اتنی بدنام کر دی گئیں کہ عام آدمی نے ان سے منہ موڑ لیا اور کٹر مذہبی جماعتوں کے ساتھ ہو گئے۔ یہ سب باتیں ناول میں اس وضاحت سے نہیں کہی گئی ہیں لیکن اشاروں کنایوں میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس خیال کو توسیع دے کر اپنے ملک کے حالات پر منطبق نہیں کر سکتے؟ ہو سکتا ہے ہمارے جغادری سیاسی مبصروں اور روزانہ شام چھ بجے سے رات کے بارہ بجے تک ٹیلی وژن اسکرینوں پر گلا پھاڑ پھاڑ کر بولنے والے بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کو ہمارے اس خیال سے اتفاق نہ ہو، لیکن ہم ارن دھتی رائے کے ساتھ ہیں۔ ذرا اپنے آس پاس نظر دوڑائیے، کیا ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں میں کوئی ایسا صادق اور امین دکھائی دیتا ہے جو آئین کی شق62 اور 63 پر پورا اترتا ہو؟ ہمارے آئین میں اس کی جو تعریف کی گئی ہے اس پر تو ہمیں کوئی بھی پورا اترتا نظر نہیں آتا حتیٰ کہ جس آمر مطلق نے یہ شقیں آئین میں شامل کی تھیں وہ بھی اس پر پورا نہیں اترتا تھا۔ بلکہ اس نے جتنے جھوٹ بولے اس بنا پر تو اسے سخت سے سخت سزا بھی مل سکتی تھی۔ کون ہے جس نے کبھی دانستہ یا نادانستہ یا مصلحتاً جھوٹ نہ بولا ہو؟ یا جس سے صغیرہ یا کبیرہ گناہ سرزد نہ ہوئے ہوں؟ ہاں، عام آدمی کی نظر میں اگر یہ دعویٰ کوئی کر سکتا ہے تو وہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں کے لیڈر ہیں۔ اس لئے کہ انہوں نے مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ ہم نے یہاں عام آدمی کی نظر کی بات کی ہے۔ اور یہ عام آدمی ہی انتخابات میں اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ عام آدمی کے ووٹ ہی حکومت بناتے ہیں۔
اب آپ اپنی ستر سال کی تاریخ پر نظر دوڑا لیجئے۔ مذہبی جماعتوں اور مذہبی گروہوں نے آہستہ آہستہ سیاسی میدان میں ایسے قدم جما لئے ہیں کہ اب یہ قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے، آگے ہی بڑھیں گے۔ پہلے مذہب کے نام پر سیاست کر نے والی ایک دو جماعتیں ہی تھیں۔ اب ان کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں سے زیادہ ہو چکی ہے۔ اب ہر مسلک اور ذیلی مسلک کی اپنی سیاسی جماعت ہے اور یہ جماعت الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔ پچھلے دنوں لاہور کے حلقے این اے120 میں جو ضمنی الیکشن ہوئے اس میں آپ نے دیکھ لیا کہ کن کن ناموں سے یہ جماعتیں میدان میں اتری تھیں۔ اور انہوں نے کتنے ووٹ حاصل کئے اور انہوں نے کس کس جماعت کے ووٹ کاٹے۔
حاشا و کلّا، ہم کرپشن کی حمایت نہیں کر رہے ہیں۔ کرپشن بہت بری بلا ہے۔ یہ کسی بھی معاشرے کے لیے ناسور ہے، طاعون ہے۔ اسے واقعی ختم ہونا چاہئے۔ لیکن اس حقیقت پر بھی غور کر لیجئے کہ اگر ہم اسی طرح کرپشن کرپشن پیٹتے رہے تو کیا ہندوستان کی طرح ہمارے ہاں بھی اس سے وہ عناصر فائدہ نہیں اٹھائیں گے جو مذہبی تفرقے پھیلا رہے ہیں؟ جو ہمارے معاشرے میں شدت پسندی اور فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں؟ اور جو پاکستان کو دنیا کی برادری میں تنہا اور الگ تھلگ کر رہے ہیں؟ نواز شریف نااہل ہو گئے، اب عمران خاں کی طرف توپوں کا رخ ہے۔ کل کلاں آصف زرداری بھی دوبارہ اس کی زد میں آ جائیں گے۔ ان کے بعد جو بھی دوسری سیاسی جماعت آئے گی اسے بھی صادق اور امین کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ پھراس کے بعد کون رہ جائے گا؟ یہی مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے نا؟ اب یہ جو ٹیکنو کریٹس یا ماہروں کی حکومتیں بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں اگر یہ بن بھی گئیں تو یہ کب تک رہیں گی؟ اس کے بعد حالات کیا رخ اختیار کریں گے؟ اور ان حالات سے کون فائدہ اٹھائے گا؟ یہ سوچ لیجئے۔ ہم نے تو ارن دھتی رائے کا ناول پڑھ کر خطرے کی بُو سونگھ لی ہے۔