ہمارے اشتہارات اور معاشرے پر پڑتے اثرات ۔ پارٹ ٹو

January 29, 2018

گزشتہ دنوں میں نےایک تحریر لکھی تھی جس کا عنوان تھا ’ہمارے اشتہارات اور معاشرے پر پڑتے اثرات‘جس پر میر ے کچھ پروفیشنل دوستوں نے موقف دیاکہ اگر اشتہار ایسا نہیں بنے گا تو مارکیٹ کے لیے جاذب ِ نظر نہیں رہے گا لہٰذا ایسا کانسپٹ سوسائٹی میں نہ صرف ’ لائیک‘ کیا بلکہ’شیئر‘ بھی کیاجاتاہے۔

لفظو ں کی یہ جنگ تو تادم مرگ جاری رہے گی ۔میںنے ا ن دوستوںپر ایک مرتبہ پھر یہ باور کرایا کہ میں خود یہ چاہتا ہوںکہ اشتہار ایسا بنے جو دلکش ہو اور راتوںرات’وائرل ‘ ہوجائے جیسے ان دنوں پڑوسی ملک کا ایک اشتہار خوب دھوم مچائے ہوئے ہے ۔جس کی اہم وجہ پاکستان کی سرزمین ’دینا‘ (جہلم) میں پیدا اور بھارت میںپروان چڑھنے والے نہایت نامور دانشور گلزار صاحب کی شاعری کا احاطہ ہے۔ اس کا عنوان ’چھتیں ‘ ہیں جس کے آخر میں’چھت پر ملتے ہیں‘ بھی لکھا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھئیے: سری لنکا، خواتین کا مذاق اڑانے والے اشتہار پر احتجاج

اس پورے اشتہار کے نظروں کی تحویل میںآنے کا بنیادی سبب ہی یہ ہے کہ جس پروڈکٹ کا یہ اشتہار ہے وہ ’چھت ‘ ، پرانے محلوں‘ یا ’چھت سے ملی چھت پر گزارے بچپن کے سہانے دن ہیں۔ دراصل یہ سیمنٹ بنانے والی ایک کمپنی کا اشتہار ہے جو چھتوںکی مرمت کے لئے خاص طور پر تیار کیا گیا ہے۔

ایک اور اشتہار جس کی ’خاموش اسکرپٹ ‘ بھی سب کچھ کہہ جاتی ہے انتہائی موثر ہے ۔ یہ کار کمپنی کا ایک ایڈ ہے جو بچوںکی کھلونا کار کمپنی سے تعلق رکھتا ہے اور زیر نظر تحریر کے ساتھ منسلک ویڈیو میں آپ ملاخطہ کرسکتے ہیں۔

اندازہ لگا یئے کہ خاموش اسکرپٹ بھی دل پر کتنا اثر رکھتی ہے کہ لو گ کار جیسی انتہائی مہنگی پروڈکٹ کی سیل کے لئے اسے استعمال کررہے ہیں۔ یہی وہ بات ہے جو میںکہنا چاہتا ہوںکہ اشتہار ایسا ہو جو پہلی نظر میںدلوں تک اُتر جائے اور اس کا رنگ پھر کبھی پھیکا نہ پڑے۔

ایسا نہیں ہے کہ ہمارے یہاںاچھے اشتہارات نہیںبنتے ، بہت بنتے ہیںلیکن ان کی تعداد اب بھی ’آٹے میںنمک کے برابر‘ ہے۔ مثال کہ طور پر وہ ایڈ یاد کیجئے جس میںچین اور پاکستان کے تعلقات کو کس قدر اچھے انداز میںپرویا گیا تھا۔ یاد نہ آئے ایک مرتبہ پھر ویڈیو دیکھئے :

اسی طرح پڑوسی ملک سے ہجرت کرکے پاکستان آبسنے والے رشتوںاور ان کے درمیان ذائقوںکی کہانی کو کس قدر موثر اور جاذب نظر انداز میں پیش کیا گیا کہ اس کی مثالیں کم ہیملتی ہیں ۔