سیاسی ڈائری،وطن عزیز کی تاریخ کے غیر معمولی 90دن شروع

February 24, 2018

اسلام آباد (محمدصالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار) ملک عزیز کی تاریخ کے غیر معمولی طورپراہم وہ نوے دن شروع ہورہے ہیں جن کے اختتام پر پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت اپنی پانچ سالہ میعاد مکمل ہوجائے گی اور ملک میں نئے انتخابات کے نظام الاوقات کااعلان ہوجائے گا ان نوے دنوں میں وقوع پذیر ہونےوالے واقعات ملک کی سیاسی اور آئینی تاریخ میں کسی نئے باب کا اضافہ بھی کرسکتے ہیں۔ عام انتخابات اکیس ہفتے کی دوری پر ہیں باریک بین تجزیہ کار گمان کررہے ہیں کہ عام انتخابات ہوئے تو ان میں کس طرح کے رجحانات غالب رہیں گے۔ انتخابی نتائج نوشتہ دیوار ہیں یہی وجہ ہےکہ جن سیاسی پارٹیوں کوانتخابی نتیجے کے سلسلےمیں ابھی سے مایوسی لاحق ہونا شروع ہوگئی ہے وہ ایسے حیلے بہانوں پرکام کررہے ہیں جن کا سہارا لیکر انتخابی عمل میں رخنہ اندازی کا سامان پیدا کیاجاسکے اس نوع کی مایوسی بھابڑہ بازار کے ایک بیسار گورکن قومی اسمبلی کو بھی لاحق ہے جسے ذاتی طور پراپنی نشست بچانے کا یقین نہیں ہے وہ پانچ سال ٹیلی ویژن پرآکر اپنے مخالفین کے بارے میں یا وہ گوئی کا مرتکب ہوتا آیا ہے شہر کے لوگوں کا کہنا ہےکہ اسے عوام کی نمائندگی کے لئے چنا گیا وہ اس کی بجائے ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر بے سروپا اور لایعنی گفتگو کرتا رہاہے وہ شہر کے لئے باعث ننگ ہے اس نے شہریوں کی بھلائی میں ایک دھیلے کے برابر دلچسپی نہیں لی۔ اب وہ عدالت عالیہ میں پہنچ گیاہے کہ پارلیمان کی رکنیت کے امیدوار کے لئےجمع کرائے گئے نامزدگی کےفارم سے متعدد معاملات کو ہی حذف کردیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس سلسلے میں واضح کر رکھا ہے کہ ملک میں مروج قوانین کےتابع ہے اس مرحلے پر کاغذات نامزدگی کی ترتیب سے اختلاف کیا جائے تو اس کا بدیسی مقصد یہی ہے کہ انتخابی عمل میں رکاوٹ پیدا کی جائے۔ یہ کسی ایک رکن کی آواز نہیں ہے اس کی پشت پرو ہ عناصر کارفرما ہیں جنہیں کبھی اقتدار بنی گالا میں اترتے دکھائی دے رہا تھا اب وہ دوسری طرح کی مصروفیات میں مگن ہیں۔ حالات کے تیور سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ عام انتخابات اور اس سے پہلے سینیٹ کی نصف نشستوں کے انتخاب میں حکمران پاکستان مسلم لیگ نون کی شاندار کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔ ان امکانات کومعدوم کرنے کے لئے فی الوقت جن منصوبوں پر درپردہ سرگرمی سے کام شروع ہوگیا ہے ان کے ذریعے نگران انتظامیہ کے معرض وجود میں آتے ہی ایسی صورتحال پیدا کردی جائے گی جس میں انتخابات کا انعقاد مشکوک ہوجائے گا یہی وجہ ہے کہ کم وبیش چار ماہ تک مدفون رہنے کے بعد ایک مرتبہ پھر طویل عرصے کی نگران حکومت کی باتیں شروع ہوگئی ہیں جس میں ٹیکنوکریٹس شامل ہونگے اس کے خلاف سب سے بڑا استدلال یہ ہوتا ہے کہ آئین میں ایسے کسی بندوبست کی سرے سے گنجائش ہی موجود نہیں۔ جواب میں کہا جاتا ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالتیں ایسی موشگافیوں اور ’’آزمائشوں‘‘ میں مدد فراہم کرنے کے لئے تیار بیٹھی ہیں۔ ایک سفید کاغذ درکار ہوتا ہے جس پر چند سطور تحریرکردی جاتی ہیں اور پھر وہی کچھ ہوتا ہے جس کی ملک اور معاشرے کو ’’اشد ضرورت‘‘ ہوتی ہے۔ اس نوع کی منصوبہ بندی کرنے والے ایک لمحے کے لئے فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ پاکستان میں اگر جمہوریت کی راہ کھوٹی کی گئی تو اس ملک کے دشمن گھات میں بیٹھے ہیں وہ ا س پر یوں جھپٹیں گے کہ دنیا کے کسی بھی حصے سے اس کے لئے ہمدردی کا ایک بول بولنے والا بھی نہیں ملے گا۔