’’اندھیرے چھٹ رہے ہیں‘‘

March 03, 2018

عکاسی: محمد اسرائیل انصاری

ویسے تو ’’آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی‘‘ میں ہر روز ہی گہما گہمی رہتی ہے، شاید ہی کوئی ایسا دن ہو، جب وہاں ہنستے بولتے نوجوان ، لکھاری ، موسیقار یا گلو کار نہ نظر آئیں، کبھی کتاب کی رونمائی کے لیے اہلِ قلم وہاں کا رُخ کرتے ہیں، تو کبھی فن پاروں کی نمائش لگی ہوتی ہے، لیکن گزشتہ ہفتے17فروری سے اس کی رونقوں میں چار چاند لگ گئے، جب وہاں ’’دسویں کراچی یوتھ فیسٹیول 2018‘‘کا آغاز ہوا، یہ فیسٹیول 17تا 24فروری تک جاری رہا۔ کہنے کے لیے تو عمارت کو برقی قمقموں سے سجا کر روشن کیا گیا تھا، جو انتہائی دیدہ زیب لگ رہی تھی، لیکن اصل رونق اور روشنیاں تو نوجوانانِ کراچی کی صورت میں آرٹس کونسل میں نظر آرہی تھیں، جن کے آگے برقی قمقمیں بھی پھیکی پڑ گئیں۔ شہرِ جناح کا شاید ہی ایسا کوئی علاقہ ہو جہاں، کے نوجوانوں نے اس میں شرکت نہیںکی ،یہاں قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ پورے ہفتے ہی بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہنے کے باوجود آرٹس کونسل کے اطراف یا اندرکسی بھی قسم کی ٹریفک کی بد نظمی یا انتشار دیکھنے میں نہیں آیا۔یوتھ فیسٹیول کی افتتاحی تقریب اوپن ایئر تھیٹر میں منعقد ہوئی، تقریب کا افتتاح صوبائی وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ اور صوبائی وزیرثقافت سیاحت و نوادرات سید سردار علی شاہ نے کیا۔

نوجوانوں سے بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات نے کہاکہ ’’آرٹس کونسل نوجوانان سندھ کے لیے وہ کام کررہا ہے، جو حکومتوں کے کرنے کے ہیں، اس یوتھ فیسٹیول میں ہزاروں بچوں کو دیکھ کر دلی خوشی ہورہی ہے، کہ شہر میں اب امن بحال ہو گیا ہے،آنے والے دنوں میںصوبائی سطح پر یوتھ فیسٹیول منعقد کیے جائیں گے، جس میں کراچی کے ساتھ ساتھ پورے سندھ کے نوجوانوں کو شرکت کی دعوت دی جائے گی۔‘‘صوبائی وزیر ثقافت نے کہاکہ’’ اس طرح کے پروگرام منعقد ہونے سے ایک جانب شہر کی رونقیں بڑھتی ہیں ،دوسری جانب بیرون ملک ہماری ثقافت کوفروغ بھی ملتا ہے۔‘‘اس موقعے پر آرٹس کونسل کےصدر احمد شاہ نے کہاکہ’’ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کا بچہ وہ کام کرے جو وہ نہیں کرسکے،اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لیے اپنے بچوں کی طرف دیکھتے ہیں،ہم ان کی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیےایک پلیٹ فارم مہیا کر رہے ہیں۔کراچی میں رہنے والے ہر نوجوان کو آرٹس کونسل میں آنے اور اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا پورا حق ہے۔‘‘

نوجوانوں کا ایک گروپ خوش گوار موڈ میں

فیسٹیول کے دوسرے روزجب ہم آرٹس کونسل پہنچے تو ایسا لگا، گویا وہاں ایک دوسرا ہی شہر آباد ہے،جہاں غموں، دکھوں ، پریشانیوں، فکرات ، اداسیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، پُر عزم، بااعتماد ، نوجوان ہر سُوقوسِ قزح کی طرح بکھرے نظر آرہے تھے۔کچھ نوجوان اپنے فن کی مشق میں مصروف تھے۔ مرکزی دروازے سے بائیں جانب کھانے، پینے کے اسٹالز لگے تھے ،وہاں کوئی سندھ، پنجاب،خیبر پختونخوا،بلوچستان یا اُردو بولنے والوں کی نہیں بلکہ سب پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ ارے ذرا یہ تو دیکھیں، پانچ، چھ لڑکیوں کی ٹولی سیلفی بنانے میں مگن ہے، واہ۔۔ کتنا اچھا پوز کر رہی ہیں، ویسے کوئی بھی تقریب سیلفی کے بنا ادھوری ہی لگتی ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے مرکزی دروازے کے عین سامنے کیمپ لگایا گیا تھا، جہاں رجسٹریشن لسٹ تھیں ، وہاں الگ قسم کی گہما گہمی دیکھنے میںآئی، کوئی لسٹ میں اپنا نام دیکھ کر خوش تھا، توایک نوجوان لڑکی اس پریشانی میں نظر آئی کہ انتخاب ہونے کے باوجود ،میرا نام کیوں نہیں مل رہا،جب انتظامیہ کے ایک کارکن نے تحمل سے اس کا نام کیٹگری کے لحاظ سے تلاش کیا ، تو پتا چلا کہ نوجوان لڑکی کے والد کا نام غلط لکھا ہوا تھا،

خیر وہ مسئلہ جلد ہی حل ہوگیااور ایسے بڑے پروگراموں میں اس طرح کے مسائل آتے رہتے ہیں۔ ابھی ہم یہی دیکھ رہے تھے کہ نظر ایک خاتون پر پڑی ، جو اپنی بیٹی کو جوس پلا رہی اور تسلی دے رہی تھیں کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہےتمہارا انتخاب ضرور ہوجائے گااور اگر فائنل مقابلے کے لیے منتخب نہ بھی ہوئیں، تو مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہاں تک پہنچنا اتنے بڑے گلوکاروں کے سامنے گانا ہی بڑی بات ہے۔ اُ ن کی یہ بات سن کر احساس ہوا کہ واقعی اگر ہمارے ملک کے سارے والدین ایسی ہی سوچ رکھیں، اور اسی طرح ہار جیت سے بالا تر ہو کر بچوں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیں، تو کوئی بچہ مایوسی کا شکار نہ ہو۔ اس سے قبل کے ہم اور آگے بڑھتے، اوپن ایئر تھیٹر کی جانب سے آنے والی سریلی آواز نے ہمیں اپنے سحر میں مبتلا کر دیا، تھیٹر کی جانب قدم بڑھایا ،تو لیاری سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان بلوچی گیت گا رہا تھا، گوکہ بول ہماری سمجھ میں نہیں آئے، لیکن وہ نوجوان کی آوازاتنی سریلی اور گانے کے بول اتنے میٹھے لگ رہے تھے کہ ہم داد دئیے بنا نہ رہ سکے اور ہم ہی کیا، وہاں موجود ہر شخص اس نوجوان کی گائیکی کی تعریف کر رہا تھا۔فیسٹیول میں لیاری سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی بڑی تعدادرضاکارانہ ذمے داریاں انجام دیتی ہوئی نظر آئی۔ فیسٹیول میں50ہزار سے زائد نوجوانوں نے حصہ لیا12سے زائد شعبہ جات میں مقابلے منعقد ہوئے۔ دوسرے اور تیسرے روز پانچ کیٹیگریز کے آڈیشن منعقد کیےگئے تھے،جن میں اُردو تقاریری مقابلے، موسیقی، رقص، تھیٹراور اُردو مضمون نویسی میں 14سے 29 سال کے نوجوانوں کے درمیان مقابلے ہوئے۔ آڈیشن میں منتخب ہونے والے نوجوانوں نےفائنل مقابلوں میں قسمت آزمائی کی ۔مقابلے میں حصہ لینے والے نوجوانوں کوان کے شعبوں کے لحاظ سے معروف و ممتاز افراد نے خصوصیورک شاپس میں تربیت بھی دی۔ جس میں معروف اداکار وہدایت کار خالد انعم نے تھیٹر کے مقابلے میں شریک نوجوانوں کو تھیٹر کے رموز سیکھائے۔ اسی طرح موسیقی میں معروف گلوکار عمران عباس نے موسیقی کے مقابلے میں شریک نوجوانوں کو سُر اور ساز کا استعمال اور آواز میں پختگی کے گُر سکھائے ۔

تقریر میں اقبال لطیف نے نوجوانوں کو آواز کے اُتار چڑھاؤ اور جملوں کی ادائی کے فن سے روشناس کرایا، جب کہ مضمون نویسی میں معروف مصنفہ حسینہ معین نے نوجوانوں کو لکھنے کے آداب، زبان کی درستی اور صحیح استعمال سکھایا۔علاوہ ازیں پینٹنگ ، شارٹ فلم، تھیٹر کے مقابلے بھی منعقد کیے گئے، پورے ہفتے منظر اکبر ہال میں اُبھرتے ہوئے فن کاروں کے فن پاروں کی نمائش جاری رہے، جس سے نہ صرف نسل نو میں اپنے کام سے متعلق اعتماد پیدا ہوا،

بلکہ ان کا کام واقعی اس نوعیت کا تھا کہ دیکھنے والے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے، پینٹنگز میں رنگوں کا جس خوب صورتی سےاستعمال کیا گیا تھا، کینوس پر بولڈ اسٹروکس جس مہارت و نفاست سے نظر آرہے تھے،یوں محسوس ہو رہا تھا، جیسے وہ فن پارے نو آموز نہیں بلکہ منجھے ہوئے فن کاروں کے دماغ کی تخلیق ہیں۔ منظر اکبر ہال میںجہاں فن پاروں کی نمائش جاری تھی، وہیں مقابلے میں حصہ لینے والے نوجوانوں کو رقص کی تربیت بھی دی جا رہی تھی ۔مقابلے میں حصہ لینے کے ساتھ اپنے متعلقہ شعبے میں ماہرین سے تربیت حاصل کرنا کسی نعمت سے کم نہیں۔مقابلے میں شریک نوجوانوں کا بھی یہی کہنا تھا کہ چاہے ہم جیتیں یا نہیں تربیتی ورک شاپس سے ہمارے اعتماد میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی کے ا س دور میں جہاں تعلیم حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے، وہاں اپنےشوق ، ہنر یا من پسند شعبے سے متعلق مفت تعلیم حاصل کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

تقریری مقابلے، شارٹ فلم اور اسکریننگ کے مقابلوں میں منتخب ہونے والے تقریباً آٹھ سو سے زائد نوجوانوںنے حصہ لیا ۔فائنل مقابلوں کا انعقاد 23فروری کو کیا گیا، جس میں تھیٹر، موسیقی، رقص، مضمون نویسی، کوئز میں منتخب ہونے والے پچیس نوجوانوں کے مابین مقابلہ ہوا،جس میںانہوں نے اپنی شا ن دارکار کر دگی سے سب کے دل جیت لیے۔

فائنل مقابلہ جیتنے والے نوجوانوں کے لیے تقریب تقسیم اسناد24فروری کو منعقد کی گئی،تقریب کے مہمان خصوصی صوبائی وزیر ثقافت، سیاحت و نوادرات سید سردار علی شاہ تھے، جنہوں نے مختلف شعبوں میں بہترین کارکردگی حاصل کرنے والے 66نوجوانوں میں ایوارڈ اور 12شعبوں میں پوزیشن حاصل کرنے والوں کو بارہ لاکھ روپے نقد تقسیم کیے۔ اس موقعے پر صوبائی وزیر ثقافت کا کہنا تھا کہ ’’ نوجوان اس ملک کا مستقبل ہیں، انہیں ہی اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ زندگی کی سب سے بڑی نعمت جوانی ہے ،اسے مثبت سوچ کے ساتھ استعمال کریں۔ کراچی میں امن قائم ہوچکا، اب سمندر کنارے ریت کے گھروندے بنائے جا سکتے ہیں۔‘‘اور یوں تمام ہوا ’’دسواں کراچی یوتھ فیسٹیول 2018‘‘یہ وہ ایونٹ ہے، جس کا انتظار نوجوانان کراچی پورا سال کرتے ہیں،

ویسے تونوجوانوں کوآگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے کے دعوے آج کل ہر سیاسی جماعت کرتی ہے، لیکن محض وعدے کرنے سے کچھ نہیں ہوتا ، اصل تعریف کے حق دار وہ ہیں، جو بیان نہیں دیتے بلکہ نسل نو کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے، ان کی حوصلہ افزائی کرنے اور اخوّت کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں ۔ اس ایونٹ کی خاص بات یہ تھی کہ مختلف طبقات سے قطع نظر یہاں اورنگی سے لے کر کورنگی لانڈھی تک گلشن حدید سے کیماڑی تک، ڈیفنس کلفٹن سے لے کرگلشن معمار تک ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوںنے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، مقابلے کا ہر فیصلہ خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر کیا گیا، جس کا اظہار خود مقابلے کے شرکاء نے بھی کیا۔ ایسے پروگرام نہ صرف شہر کی رونقیں بحال رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیںبلکہ اس سے بھی بڑھ کر نسل نو کو پُراعتمادبنانے ان میں اُخوت کے جذبے کو فروغ دینے، صلاحیتیں نکھارنے کے لیے پلیٹ فارم بھی مہیا کرتے ہیں۔

چند نوجوانوں کی آراء

عابد علی، عزیر زاہداورعبدلرافع ’’بےنظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری‘‘، میں سیکنڈ ایئر کے طلباء ہیں،وہ تھیٹر کے مقابلے میں شریک تھے، ان کےگروپ ’’ڈراماٹک سوسائٹی‘‘ نےپہلی مرتبہ کراچی یوتھ فیسٹیول میں حصہ لیا۔ نوجوان فن کاروں کا کہنا تھا کہ ہمیں یہاں آکر اور اس مقابلے میں شرکت کرکے بہت اچھا لگ رہا ہے، خود اعتمادی میں بے پایاں اضافہ ہوا۔ اس کی سب سے اچھی بات تربیتی ورک شاپس کا انعقاد ہے، جب ہمارا انتخاب ہو گیا، توآرٹس کونسل کے ٹیچر ہمیں تربیت دینے ہماری یونیورسٹی بھی آئے، اس طر ح ہمیں تھیٹر کی باریکیاں سیکھنے کا موقع ملا۔ ہر کسی کی طرح ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ مقابلہ جیتیں لیکن اگر کوئی پوزیشن حاصل نہ بھی کر سکے، تب بھی دکھ نہیں ہوگا، کیوں کہ ہمیں تھیٹر سے متعلق بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے، آج کل جب آرٹ اسکول کی فیس اتنی زیادہ ہوتی ہے، ایسے دور میں ہمیں مفت میں اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے اوراتنے ماہر فن کاروں کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا یہ بہت بڑی بات ہے۔

رباب امام بخش ، لیاری کالج میں فرسٹ ایئر کی طالبہ ہیں، انہوں نے موسیقی کے مقابلے میں حصہ لیا، ان کا کہنا تھا کہ اپنی صلاحیتیں دنیا کے سامنے اُجاگر کرنے کا یہ بہترین پلیٹ فارم ہے، مجھے یہاں آکر بہت اچھا لگ رہا ہے، میں اپنی پوری فیملی کے ساتھ آئی ہوں، ہم یہاں بہت انجوائے کر رہے ہیں، میں نے نئےبہت سے نئے دوست بنا ئے ہیں ، یہاں ایک میلے کا سا سماں ہے۔

بالاج شاہ انٹر پری انجینئرنگ کے طالب علم ہیں، انہوں نے موسیقی کے مقابلے میں حصہ لیا ، ان کا کہنا تھا کہ میرے لیے خود کو منوانے اور اپنا شوق پورا کرنے اک یہ بہت بڑا موقع ہے،میں فائنل مقابلے کے لیے منتخب ہو چکا ہوں، جب یہاں آڈیشن کے لیے آیا تھا ، اس وقت میرے گھر والوں کو نہیں پتا تھا کہ میں موسیقی کے مقابلے میں حصہ لے رہا ہوں، مگر جب فائنل کے لیے میرا انتخاب ہو گیا ، تو انہیں بہت خوشی ہوئی، وہ اب کہہ رہے ہیں کہ پڑھائی کے ساتھ میں موسیقی کی تربیت بھی لے سکتا ہوں۔ اس حوالے سے یہ ایونٹ میرے لیے انتہائی اہم رہا۔

’’ڈراماٹک سوسائٹی ‘‘کا گروپ نمائدۂ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

عبدالرافع ویب ڈیزائننگ کرتے ہیں، وہ اپنے دوست کو سپورٹ کرنے کے لیے آئے تھے، انہوں نے کہا کہ میں یہاں پہلی مرتبہ آیا ہوں، ایسا لگ رہا ہے، جیسے کوئی میلہ سجا ہو، ہمارےمعمولات زندگی اتنی پریشانیوں میں گھری ہوتے ہیں ، ایسے میں یوتھ فیسٹیول جیسے پروگرام دماغ کو ترو تازہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

اقرا ءجامعہ کراچی سے انگلش ادب میں ماسٹر ز کر رہی ہیں، انہوں نے اردو مضمون نویسی کے مقابلے میں حصہ لیا،اقراء کا کہنا تھا کہ میں نے پچھلی بارپہلی پوزیشن حاصل کی تھی، اس بار بھی پُرامید ہوں ،کہ میں ضرور جیتوں گی۔ یوتھ فیسٹیول ہمارے لیے تفریح سے زیادہ تربیتی پروگرام کی حیثیت رکھتا ہے، جس میں نہ صرف مختلف شعبوں میں مقابلے ہوتے ہیں بلکہ تربیتی ورک شاپس کی وجہ سے سیکھنے کا بہت موقع ملتا ہے، علاوہ ازیں، یہاں آکر دیگر نوجوانوں سے بات ہوتی ، ان کے خیالات جاننے کا موقع ملتا ہے، جو معاشرے میں اخوت ، خوش اخلاقی کو پروان چڑھانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔

اپنے ایک دوست کو سپورٹ کرنے کے لیے آنے والےعبدالرحیم خان غوری کا کہنا تھا کہ کراچی یوتھ فیسٹیو ل جیسے پروگراموں سے ہماری صلاحیتیں نکھرتی ہیں، یہاں ہزاروں کی تعداد میں نوجوان آئے ہیں، شہر میں صحت مندانہ سرگرمیوں کی وجہ سے نوجوانوں کی علمی ، فکری تربیت بھی ہوتی ہے اور خود اعتمادی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔