جھونکا

March 09, 2018

آج جو میں نے قلم اور خیال کو قدرے آزاد کیا تو ذہن رنگا رنگ وادیوں میں کھوگیا، پھر اچانک خیال آیاکہ پاکستانیوں کی مانند مجھے بھی ا سرائیل سخت ناپسند ہے اور اس کے فلسطین اور بیت المقدس پر غاصبانہ قبضے اور مظالم کی وجہ سے میں اسرائیل کا شدید مخالف ہوں ۔ دوران ملازمت جب کبھی عالمی اداروں کی میٹنگوں میں کسی اسرائیلی نمائندے سے آمنا سامنا ہوتا تو میں سرد مہری سے منہ دوسری طرف موڑ لیتا۔ سوال یہ ہے کہ مجھے آج بیٹھے بٹھائے اسرائیل اور اس کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا خیال کیوں آیا؟ شاید اس لئے کہ پاکستان کی مانند اسرائیل میں بھی آج کل وزیر اعظم کے خلاف کھلم کھلا تفتیش ہورہی ہے اور پولیس کی پہلی رپورٹوں کے مطابق نیتن یاہو اور اس کی بیوی پر کرپشن کے الزامات عائد کئے جاچکے ہیں۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کا سابق اسسٹنٹ وعدہ معاف گواہ بننے کے لئے تیار ہوگیا ہے۔ اسرائیلی پولیس کی گستاخانہ دیدہ دلیری ملاحظہ فرمائیے کہ انہوں نے ملک کی خاتون اول اور وزیر اعظم کی بیگم کوInterrogationیعنی تفتیش کے لئے تھانے میں بلایا اور بیگم صاحبہ کی بزدلی دیکھئے کہ اس نے پولیس کو گالیاں دینے یا نوکری سے نکلوانے کے بجائے تھانے میں حاضری دی اور دیر تک تیکھے اور کاٹ دار سوالات کی بوچھاڑ خوش دلی سے برداشت کرتی رہی۔ گویا پاکستان اور اسرائیل کے حکمران کرپشن چارجز اور انکوائریوں کے حوالے سے ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم کا معاملہ ابھی عدالت کے پاس نہیں آیا نہ جرم ثابت ہوا ہے اس لئے وہ اپنے عہدے پر قائم ہے جبکہ ہمارے سابق وزیراعظم کو سپریم کورٹ نااہل قرار دے کر بھڑکتے تندور میں ہاتھ ڈال چکی ہے۔ گویا وزیر اعظم صاحب بھی گئے اور اب اپنے ہاتھ بھی مخالفانہ الائو میں جل رہے ہیں۔
یوں تو نیتن یاہو پر بہت سے الزامات ہیں لیکن جن الزامات کا ذکر عام طور پر میڈیا میں ہوتا ہے ان میں دو لاکھ پائونڈ کے تحائف، دوست نوازی، آزادی اظہار کو پابند کرنے کی کوشش وغیرہ شامل ہیں۔ ایک سخت الزام یہ بھی ہے کہ نیتن یاہو نے اسرائیل واپس آکر آباد ہونے والے یہودیوں کے لئے دس سال تک ٹیکس سے چھوٹ کی تجویز دی تھی جسے فنانس منسٹری نے مسترد کردیا۔ مسترد ہونے کے باوجود الزام یہ ہے کہ اس نے ایسی تجویز دی ہی کیوں؟ نیتن یاہو چار بار وزیر اعظم منتخب ہوچکا ہے اور امکان ہے کہ تمام تر الزامات کے باوجود وہ شاید اگلے سال بھی ہونے والے انتخابات جیت جائے ۔ اس کی بیوی سارہ پر آسٹریلین ارب پتی سے تحائف لینے کا الزام ہے۔ حیرت یہ ہے کہ ان پر نہ منی لانڈرنگ کا الزام ہے نہ آمدنی سے بڑھ کر اثاثے بنانے یا آف شور کمپنی بنانے کا الزام ہے۔ کئی دیگر الزامات کے علاوہ 2لاکھ پائونڈ کے تحائف میاں بیوی کے گلے پڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان سے موازنہ کیا جائے تو شرمندگی سے سرجھک جاتا ہے کیونکہ یہاں تو اس سے ہزاروں گنا زیادہ کے مالک صرف اراکین اسمبلی ہیں اور سینیٹ کے انتخابات میں اس سے کہیں زیادہ رقم وصول کرنے والوں کی تعداد بھی کوئی دو درجن ہے۔ چلئے ہمیں اس سے کیا، اسرائیل جانے اور اس کی پولیس یا ان کا وزیر اعظم، لیکن میرے لئے تو صدمے کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ دونوں بیچارے بے یارو مددگار پھر رہے ہیں اور کوئی انہیں گھاس ہی نہیں ڈالتا۔ آخر نیتن یاہو کی کوئی سیاسی پارٹی ہوگی، اس کے سیاسی کارکن، وفادار جیالے، جان نثار کرنے والے متوالے اور وزراء و مشیران بھی ہوں گے۔ وہ سب چپ کیوں ہیں؟ انہوں نے ابھی تک اس پولیس اسٹیشن کی اینٹ سے اینٹ کیوں نہیں بجائی جہاں خاتون اول کی کئی گھنٹے’’تلاشی‘‘ لی گئی اور انہوں نے ابھی تک ان پولیس ا فسروں کو گالیاں اور جان سے مار دینے کی دھمکیاں کیوں نہیں دیں جو نیتن یاہو کے خلاف پندرہ انکوائریاں کررہے ہیں اور وقتاً فوقتاً اس سے سوال جواب کی جسارت بھی کرتے ہیں۔ وفا، عقیدت، خوشامد، مطلب براری اور اپنے قائد پر اپنی محبت کا نقش بٹھانے کے لئے اس کے کارکنوں کو سڑکوں پر احتجاج کرنا چاہئے تھا، پولیس افسران کے گریبان چاک کرکے ریزہ ریزہ کرنے چاہئے تھے اور قائد سے وفا کی دوڑ اور مقابلے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانی چاہئے تھی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اسرائیلی کالم نگار، میڈیا پرسنز، تجزیہ نگار بھی نیتن یاہو کے قصیدے نہیں لکھ رہے نہ اسے آسمان کی بلندیوں پر بٹھا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نیتن یاہو ایک ناکام سیاستدان ہے جس نے حمایتیوں، درباریوں اور سیاسی وفاداروں کی فوج پالنے کے لئے نہ عہدے بانٹے، نہ خوشامدیوں کے منہ لعل و جواہرات سے بھرے، نہ ریوڑیوں کی مانند وزارتیں مشاورتیں اور سفارتیں تقسیم کیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے نالائق کا ایسا ہی حشر اور انجام ہونا چاہئے کہ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں۔ نہ کوئی اس کے حق میں قلم گھسا رہا ہے، نہ گلے پھاڑ رہا ہے اور نہ ہی محبت کا ثبوت دینے کے لئے جیل جانے والوں کی قطار لگی ہوئی ہے جو جلد از جلد ہونٹوں کو خون لگا کر شہید بننا چاہتے ہیں اور اپنی نوکری پکی کرنا چاہتے ہیں۔ نیتن یاہو بھی ہمارے سابق وزیر اعظم کا تقریباً ہم عمر ہی ہے کیونکہ اس کی عمر 68سال بتائی جاتی ہے۔ اسرائیل کی پولیس اس کے اقتدار میں سرنگ لگا رہی ہے اور انکوائریوں کا طوفان برپا کررہی ہے لیکن وہ امریکہ کے دورے پر نکلا ہوا ہے اور ٹرمپ سے آنکھوںمیں آنکھیں ڈال کر بات کررہا ہے۔ اس کے چہرے پر نہ صدمے، نہ اعصابی تھکن اور نہ ہی نفرت و بیزاری کے آثار ابھرتے ہیں جیسے اسے ان انکوائریوں کی کوئی پروا ہی نہیں اور یہ عجیب انسان ہے کہ اس نے آج تک نہ تفتیش کرنے والے اداروں پر ذاتی عناد اور نفرت کا الزام لگایا ہے اور نہ ہی انہیں سیدھا کرنے کے لئے اور پر کاٹنے کے لئے قانون سازی کی دھمکی دی ہے۔ شاید اسے احساس ہے کہ اگر وہ چاہے تو ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ ملکی نظام اسے ذات کے لئے قوانین بنانے اور مٹانے کی اجازت نہیں دے گا۔ گزشتہ دنوں اس نے کہا تھا کہ وہ ذات کے بجائے قانون کی حکمرانی اور جمہوری اقدار کے لئے ہر قسم کی قربانی دے رہا ہے اور دیتا رہے گا تاکہ ملک کا نظام مضبوط ہو ا ور قانون کی حکمرانی پروان چڑھے۔ مجھے اپنی ذات سے ملکی نظام کہیں زیادہ عزیز ہے۔ ان اعلانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ نیتن یاہو عملی انسان اور حقیقت پسند (Pragmatic) وزیر اعظم نہیں۔ وہ شاید اصولوں ا ور خوابوں کی دنیا میں رہنے والا انسان ہے کیونکہ عملیت پسند ہمیشہ اپنی ذات کو مکمل ترجیح دیتے اور اپنے مفادات کو سب سے اعلیٰ و ارفع سمجھتے ہیں اسے عوام کو جذباتی بنانے اور بھڑکانے کا خیال بھی نہیں آتا لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ناکامی کے ڈر سے ایسا نہ کرتا ہو کیونکہ اسرائیل میں خواندگی کی شرح99فیصد، اعلیٰ تعلیم کی شرح نہایت بلند ہے اس لئے عوام کا سیاسی شعور بھی نہایت پختہ ہے اور وہ عوامی جلسوں کی چنگاڑتی تقریروں سے پھسلتے ہیں نہ لیڈروں کے جھانسے میں آتے ہیں۔
خیال کا پیچھا کرتے کرتے میں سوچنے لگا کہ ہم تو یہود و نصاریٰ کا ذکر سنتے یا پڑھتے ہی غصے میں آجاتے ہیں ورنہ میں یہودی وزیر اعظم کو موقع نکال کر مشورہ دیتا کہ وہ ایسے ملک کی وزارت عظمیٰ پر لات مار دے جہاں نہ عدلیہ کو گالیاں دینے اور نفرت و حقارت کا نشانہ بنانے کی اجازت ہے، نہ فوج کو مطعون کرنے کی آزادی ہے، نہ اپنی مرضی سے بقول سابق وزیر اعظم کمینے اور نااہل کو وزارتیں ، سفارتیں اور دولت سے لادنے، عہدے دینے کی سہولت ہے، نہ ایسے وزیر، مشیر، درباری و حواری دستیاب ہیں جو حکمرانوں کی تان ٹوٹتے ہی اور اشارہ پاتے ہی آگ برسانا شروع کردیں، اپنی جانیں اور زبانیں ہتھیلی پر رکھ کر پیش کردیں۔ ایسے بےرنگ اور قانون میں بندھے ملک کی وزارت عظمیٰ کا کیا فائدہ جہاں وزیر اعظم اپنی مرضی ہی نہ کرسکے، ملکی وسائل اور شان و شوکت سے لطف اندوز ہی نہ ہوسکے۔ اسرائیلی وزیر اعظم سے تو کہیں زیادہ عیش ہمارے وزراء کرتے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ دولت مند ہمارے اراکین اسمبلی ہوتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ میں اسے مشورہ دے نہیں سکتا اگر اس کی قسمت میں ’’کھجل خوار‘‘ ہونا اور بے لذت گناہ ہی لکھے ہیں تو میں کیا کرسکتا ہوں؟،سچی بات یہ ہے کہ جو سواد چھجو کے چوبارے وہ نہ بلخ نہ بخارے، جو موجیں پاکستان میں ہیں وہ دنیا کے کسی ملک میں نہیں۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998