تعلیم کے موضوعات پر بننے والی مشہور فلمیں

March 25, 2018

تھری ایڈیٹ ، ایسی انڈین فلم تھی جس نے طلبہ کے مسائل کو بہت عمدہ طریقے سے پیش کیا تھا، اس سے پہلے ’تارے زمین پر‘ نے بھی بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھول دی تھیں۔

فلم انڈسٹری میںخاص طور پر ہولی وڈ میںہر موضوع پر فلمیںبنی ہیں،ان میںسے ہم ان فلموں کا تذکرہ کررہے ہیں جو درس و تدریس سے جڑے مسائل کو سامنے لاتی ہیں، جن میںیہ دکھایا گیا ہے کہ تعلیم دینا یا اسے حاصل کرنا، آسان نہیں ہے۔

اس کیلئے بہت زیادہ کوشش اور توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ معاشی، نسل پرستی، مساوات وغیرہ کچھ سماجی مسائل ہیں جن کا طالب علموں کو عام طور پر سامنا کرنا پڑتا ہے کچھ ایسے مسائل ہیں جو صرف اساتذہ یا طالب علموں تک محدود ہیں۔ اگر پڑھائی سے فرصت ملے تو ان فلموںکودیکھنے کی کوشش کریں۔

ٹو سر ، وِد لو 1967

یہ فلم نسل پرستی اور سماجی عدم مساوات کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ فلم یک سابق انجینئر مارک ٹھیکیرے کی کہانی بیان کرتی ہے جو لندن میں رہنے والے کم معیار کے ساتھ ایک علاقے میں تعلیم دینے میں اپنا کیریئر شروع کرتا ہے. جلد ہی، مسٹر ٹھیکیرےکو یہ احساس ہو جاتاہے کہ ریاضی یا کسی دوسرے مضامین کے بجائےوہ اپنے طلبہ کو یہ بتائے کہ زندہ کیسے رہا جاتاہے۔

ایجوکیٹنگ ریٹا 1983

'’ایجوکیٹنگ ریٹا ‘ خود کو تلاش کرنے اور فیصلہ کرنے کی طاقت کو سامنے لاتی ہےاور یہ طاقت صرف تعلیم کے ذریعے ہی ملتی ہے۔ اس فلم کا کہنا ہے کہ ایک نوجوان بیوی ریٹا (اداکارہ جولی والٹر ) کی زندگی بدلتی ہے جب وہ اوپن یونیورسٹی کے تفویض کردہ پروفیسر فرینک برائنٹ کے ساتھ شادی کرنے کیلئے اپنی تعلیم مکمل کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ مسٹر برائینٹ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اسے سکھاتے ہیں کہ اپنے خیالات کی قدر کیسے کی جاتی ہے۔

بریک فاسٹ کلب 1985

’بریک فاسٹ کلب ‘ یہ عام طور پر استاد طالب علم کے تعلق پر مبنی ایک چھوٹی سی مختلف سی کہانی ہے جس میںمختلف اسکول گروپس کے پانچ طالب علموں کی کہانیاں، جو ہر ایک مختلف ہائی اسکول کے گروپ سے تعلق رکھتا ہے، جو ہفتے والے دن ایک حراست کے دوران ایک دوسرے سے رابطے میںآتے ہیں۔ پھر اس کے بعد فلم ان کے تعلیمی نظام اور ان کےآپس میںہونے والی اونچ نیچ کو سامنے لاتی ہے ۔

اسٹینڈ اینڈڈیلیور 1988

یہ فلم ہائی اسکول کے ریاضی کے استاد، جیمی ایسسلنٹ کے ارد گرد گھومتی ہے، جو تعلیم کے فروغ کے لئےاپنی اعلی ٰ تنخواہ والی ملازمت کو چھوڑ دیتا ہے۔اس فلم میںجیمی ایسسلنٹ ایک حقیقی کہانی پر مشتمل ایک کردار ہے جو باغی اور غیر منظم طلبہ کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ تعلیم کے ذریعے ہی اپنی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔

اس فلم میں، اداکار ایڈورڈ جیمز اولسم نے جیمی ایسسلنٹ کا کردار ادا کیا ہے۔

ڈیڈ پوئٹس سوسائٹی 1989

ایک حسّاس آدمی کے لیے سب سے تکلیف دہ بات یہ ہو گی کہ اسے وہ کرنا پڑے جو وہ نہیں کرنا چاہتا اور جو کرنا چاہتا ہے وہ کرنے نہ دیا جائے۔ ایسے میں زندگی نہایت بُری محسوس ہونے لگتی ہے اور ہم اُکتا جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ رویہ بہت عام بلکہ سارا سماج اس المیے ا شکا رہے۔ یہی رویہ لوگوں میں عدم دلچسپی، ذہنی دباؤ، بیگانگی اور تخلیقیت کی موت کا باعث بنتا ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم دنیا کی کسی بھی ترقی یافتہ قوم سے کم محنت نہیں کرتے ہوں گے، مگر ابھی تک بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

اس فلم میں رابن ولیمز (Robin Williams) انگریزی ادب کا نہایت سرشار اور منفرد پروفیسر ہے۔ John Keating نامی یہ پروفیسر اپنے طلبہ کو سکھاتا ہے کہ زندگی میں تجربہ نہایت اہم عمل ہے۔ وہ اپنے طلبہ کو نئے انداز سے ادب کا مطالعہ کرنا سکھاتا ہے۔

‘‘Seize the Day. Make your lives extra ordinary.’’

نوجوان پروفیسر کا یہ جملہ طلبہ کی زندگی پلٹ دیتا ہے اور انہیں ادراک ہوتا ہے کہ آخر وہ کس لیے پیدا ہوئے ہیں۔ فلم کیسے آگے بڑھتی ہے؟ Dead Poet’s Society کیا ہے؟ جان کیٹنگ اپنے طلبہ کو کیا کہتا ہے کہ وہ کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ اور نہایت اہم کہ تعلیم دراصل ہے کیا؟ اور تعلیمی نظام کسے کہتے ہیں؟ یہ سارے سوالات آپ کو یہ فلم دیکھنے کے بعد گہری سوچ میں مبتلا کر دیں گے۔ اگر آپ ایک استاد یا معلّم ہیں تو یہ آپ کے طریقہ تعلیم کے لیے ایک چیلنج ہو گی، اور اگر طالب علم ہیں تو ایک عظیم زندگی گزارنے اور اپنے لیے بہترین کے انتخاب کی جستجو کا جذبہ بھر دے گی۔

چاک 2006

فنکشنل ڈاکیومینٹری ’ چاک ‘ ٹیچر کے ایکڈمک کیریئر میں آنے والے چیلنجز اور ان کا سامنا کرنے کے عوامل کو بیان کرتی ہے۔ اس کے کچھ مناظر آپ کو قہقہے لگانے پر مجبور کردیں گے اور کچھ مناظر سے آپ کی آنکھیں نم ہوجائیںگی کہ اس عظیم پیشے کو ایمانداری سے نبھانے کیلئے کس طر ح جتن کرنے پڑتے ہیں ۔

تارے زمیں پر2009

’تارے زمین پر ‘، پرائمری تعلیم میں بچوں کی نفسیات کے حوالے سے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ بچے کا پیدائشی تعلیمی اور تخلیقی رُجحان کی سمت ہے۔ وہ کیا سوچتا ہے، اُسے کیسا ماحول پسند ہے، کس طرح کے لوگوں میں رہنا پسند کرتا ہے اور کون سی سرگرمیاں اُسے بنا سوچے اپنی طرف مائل کرتی ہیں۔

یہ سب باتیں بچے کی ذہنی نشوونما اور بڑھوتری پر براہِ راست اثرانداز ہوتی ہیں۔ اس لیے ایک صحتمند معاشرے میں ہر بچہ خاص توجہ مانگتا ہے۔ والدین اور اِردگرد کا ماحول یہ فیصلہ کرتا ہے کہ بچے کو کیا کرنا ہے، حالاں کہ یہ فیصلہ خود بخود بچے کا رُجحان اور وقت کر دیتا ہے۔

والدین کو اِس بات کی پریشانی نہیں ہونی چاہیے کہ بچہ کیا کرے گا، بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ بچہ جو کر رہا ہے اور جو کرنا چاہتا ہے اُس کے لیے بہترین اور سازگار ماحول کیسے مہیا کیا جائے، تاکہ اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو اظہار کا موقع ملے۔