چین، امریکا کی تجارتی جنگ کے پاکستان پر اثرات

March 30, 2018

چند دن ہوئےرات 12بجے (پاکستان) اچناک سی این این (CNN) پر ڈونلڈ ٹرمپ کا خصوصی بلٹن سنانے کا اعلان ہوا پہلے سے ان کے مددگار کھڑے تھے ان کے چہروں پر بھی اداسی چھائی ہوئی تھی ایسا لگتا تھا کہ شاید روس سے کسی بات پر کوئی چھوٹی موٹی جنگ ہونے والی ہے۔یا شام میں کوئی نیا حملہ ہونے والا ہے اور پھر خیال آیا کہ شاید فیس بک ڈیٹا کے بحران کے بارے میں کچھ کہنے امریکی صدر نمودار ہورہے ہیں لیکن ایسا کچھ بھی نہ تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا اعلان اور تجارتی جنگ کا آغاز

ڈونلڈ ٹرمپ اوسٹرم پر آئے اور براہ راست بولنے لگے انہوںنے اچانک یہ انکشاف کیا کہ امریکا اس وقت توازن ادائیگیوں میں چین کے ساتھ تجارت کی وجہ سے 500ارب ڈالر کے خسارے میں ہے اور مجموعی طورپر 800ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہے مزید انہوں نے کہا کہ عالمی تجارتی تنظیم کے ضابطوں نے امریکا کو برباد کردیا ہے حالانکہ عالمی تجارتی تنظیم، واشنگٹن اتفاق کے اجلاس کے بعد سامنے آئی 1995میں اس کے ضابطوں کا اعلان کیا گیا اور 2005پر دنیا بھر نے اس پر دستخط کردئیے لاطینی امریکا ور پس ماندہ ملکوں نے اس پر جبراً دستخط کردئیے حالانکہ یہ ترقی یافتہ دنیا کا پس ماندہ دنیا کے قدرتی وسائل اور قومی اثاثوں کی نجکاری کرنے کا حملہ تھا۔

سرحدوںکو کھلا چھوڑنے کا کہا گیا براں بریں کسٹم ڈیوٹیز اور زر تلافی کو ختم کرنے کی ہدایت کی گئی تاکہ ترقی یافتہ ممالک اپنی برآمدات کا آزاد تجارت کے تحت ترقی پذیر ملکوں میں ڈھیر لگائیں اور وہ مزید محتاج ہوجائیں تاکہ توازن ادائیگیوں کا خسارہ آئی ایم ایف سے قرضے لے کر خسارہ پورا کریں اور یوںتیسری دنیا ترقی یافتہ دنیا کے قبضے میں آجائے۔

صدر ٹرمپ نے 50ارب ڈالر کی کسٹم ڈیوٹی عائد کردی

امریکا اور دیگر مغربی ممالک کو یہ علم نہیں تھا کہ چین 2005کے بعد اپنی سستی برآمدات کی وجہ سے دنیا پر چھا جائے گا۔ یاد رہے کہ صارف میںمعاشی حب الوطنی نہیں ہوتی اسے جہاں سے سستا اور بہتر مال ملے گا اسے خرید لے گا جس طرحسرمایہ دار کا کوئی گھر نہیںہوتا جہاںاس کا منافع ہوتا ہے وہ اس کا گھر ہوتا ہے پاکستان میںنقصان ہوا تو بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کرے گا۔

دبئی میںکاروبار کرتے گا چنانچہ چین کے ساتھ تجارت میں500ارب ڈالر کا خسارہ تاریخ اقوام عالم اتنا بڑا خسارہ نہیںدیکھا گیا۔

اس لیے صدر ٹرمپ نے عالمی تجارتی تنظیم کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 50ارب ڈالر کی چین پر ڈیوٹیز عائد کردیں اور چین نے بھی رد عمل میں ایسا ہی کیا۔

اگر پاکستان ایسا کرتا تو اس پر مختلف پابندیاں عائد ہوجاتیں اس لیے چین اور امریکا کے مابین توازن ادائیگیوں اور ہائی ٹیکنالوجی کے مسئلہ پر تنائو بڑھ سکتا ہے دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ اعتدال پسند ساتھیوں کی بات مانیںگے یا انتہا پسندوں کی بات یہ مستقبل طے کرے گا۔

صدر ٹرمپ کا غصہ

امریکی صدر ٹرمپ کو اس بات پر زیادہ غصہ ہے کہ ملک میںصارف اور کچھ بڑی کمپنیاں ان کے اس اقدام کی مذمت کررہی ہیں پہلے ہی ہزاروں لوگ ان کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ برہمی اس بات پر بھی ہے کہ چین کی تجارت کے نتیجے میں امریکا میں60ہزار فیکٹریاں بند ہوگئی ہیں اور 50لاکھ سے زیادہ لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں اور اس وقت 16ہزار ارب ڈالر کا مقروض بھی ہوگیا ہے تاہم امریکا کی بیرونی ملکوںمیں سرمایہ کاری اس کے قرضوں کی کمزوری سے زیادہ طاقت ور ہے۔ اس لیے وہ چل رہا ہے لیکن کسی نہ کسی طریقے سے چلانے کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا کی عالمی بالادستی خطرے میںہے۔ اس لیے امریکا کو تشویش ہے۔

امریکا ، چین تجارتی جنگ کے پاکستان پر اثرات

پاکستان واحد ملک ہے جس کی تجارت امریکا کے اتھ خسارے میں نہیںہے لیکن اس کا حجم چین کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے پاکستان کو تجارت میں کوئی خطرہ تو فی الحال نہیں ہے البتہ سی پیک اور دہشت گردی کے حوالے سے امریکا ایک عرصےسے اس کوشش میںہے کہ پاکستان کی فوجی امداد مکمل طورپر بند کردے۔ اس کے علاوہ معاشی پابندیوںکے چکر میں ہے امریکی جریدے ’’فارن پالیسی‘‘نے یہ انکشاف کی اہے کہ پاکستان کی فوجی امریکی امداد کی مستقل بندش ، سیاسی پابندیاں، نیٹو اتحادی کا درجہ واپس لینے سے متعلق وائٹ ہائوس میں بحث جاری ہے جان بولٹن پابندیوں کا حمایتی ہے حالانکہ 2004سے 2018تک امریکا نے پاکستان کے علاقوں میں400ڈرون حملے کئے ہیں۔

امریکیوں کا کہنا ہے کہ پاکستان دہشت گردوںپر موثر کارروائی کرنے میں ناکام رہا ہے حالانکہ امریکا کو علم ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں شدید ترین نقصانات اٹھائے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا کیوں افغانستان میں آیا؟

پہلے روس سے جنگ میں امریکا نے طالبان کو پاکستان کی مدد سے استعمال کیا اور اب وہ ان کو بالکل نابود کرنے کے درپے ہے۔ جبکہ خود امریکا افغانستان میں طالبان کے ساتھ براہ راست لڑ نہیں رہا۔ اپنے آپ کو حصار میںرکھا ہے اور حیرت کی بات ہے کہ نیٹو کے 48ممالک وہاںکیا کررہےہیں۔

بہرحال امریکا ہندوستان سے مل کر پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے لیکن چین اور روس اس سلسلے میں پاکستان کے ساتھ ہیںلیکن اس قسم کا ماحول پاکستان کے لے سازگار نہیںہے۔

صدر ٹرمپ کی پریشانی اور ایپل کمپنی

تجارتی خسارہ تو پریشان کن ہے لیکن ٹرمپ اس وجہ سے بھی پریشان ہے کہ چین امریکا کے علاوہ یورپ اور دیگر ممالک کی کمپنیوںسے جدید ترین ٹیکنالوجی بھی حاصل کررہا ہے۔ خدشہ ہے کہ تجارتی جنگ ایک نئی سرد جنگ میں تبدیل ہوجائے جس کا نقصان پاکستان کو بھی سی پیک کے حوالے سے ہوسکتا ہے ٹرمپ اس لیے بھی مشتعل ہیںکہ ٹیکنالوجی ایک بڑی کمپنی ایپل نے اپنا نیا سینٹر چین میں بھی قائم کیا ہے اور وہاںڈیٹا سینٹر بھی قائم کرنا چاہتی ہے۔

دراصل امریکی سرمایہ داری نظام بحران کا شکار ہے اور امریکا کی توسیع پسندی اور ضرورت سے زیادہ پھیلائو اس کے اخراجات کو بڑھارہا اس لیے امریکی بھی ٹرمپ کی پالیسیوں سے خوش نہیںہیں۔