آئین کی بالادستی اورجمہوریت کی توانا آواز

April 02, 2018

چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار سے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی حالیہ ملاقات آج کل میڈیا اور ڈرائنگ روم کی سیاست کا موضوع بحث بنی ہوئی ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ یہ ملاقات وزیر اعظم کی درخواست پر ہوئی ہے ۔ پاکستان اور دنیا کی تاریخ مین یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اگرچہ ایسی ملاقاتیں شاذو نادر ہی ہوتی ہیں لیکن ہوتی رہتی ہیں ۔ اس واقعہ کو گفتگو کا موضوع بنا کر ایسی باتیں ہو رہی ہیں ، جو مناسب نہیں ہیں ۔ وزیر اعظم ایک ادارے کے سربراہ ہیں ۔ اسی طرح چیف جسٹس بھی اپنے ادارے کے سربراہ ہیں اداروں کے مابین گفتگو نہیں ہو گی تو مسائل کیسے حل ہوں گے ۔ اگرچیف جسٹس اس ملاقات کے نتیجے میں حکمرانوں کو کسی قسم کی رعایت دیں ، جو قانونی طور پر ان کا حق نہیں بنتی تو چیف جسٹس پر انگلی اٹھائی جائے لیکن اب تک ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی ہے ۔ لہٰذا قیاس آرائیوں یا مفروضوں کی بنیاد پر باتیں بنانا انتہائی نامناسب ہے ۔
ایک منصوبہ بندی کے تحت میڈیا پر مہم چلائی جا رہی ہے ، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عدلیہ حکومتی اور انتظامی امور میں مداخلت کر رہی ہے ، سویلین حکومتوں کے اختیارات محدود کئے جا رہے ہیں ، غیر سیاسی قوتیں اب جمہوری حکومتوں کو کمزور کرنے اور اپنے آئندہ ایجنڈے کیلئے مبینہ طور پر عدلیہ کو استعمال کر رہی ہیں ۔ چیف جسٹس اور وزیر اعظم کے مابین ملاقات کے حوالے سے چیف جسٹس کے ابزرویشن کو spin کر کے اس تاثر کو مضبوط کیا جا رہا ہے ۔ وزیر اعظم خودکہتے ہیں کہ وہ پاکستان کا فریادی بن کر چیف جسٹس کے پاس گئے تھے ایسی باتوں کی آڑ میں یکطرفہ مباحثہ شروع ہو گیا ہے ۔ جبکہ ہمارے سیاست دان بھی ایسی بحث میں الجھ گئے ہیں ۔ یہاں اس حقیقت کا انتہائی افسوس کے ساتھ بیان ضروری ہے کہ ہمارے آج کےبعض سیاست دان ذہنی طور پر دیوالیہ پن کا شکار ہیں وہ نہ تو پڑھتےاور نہ ہی لکھتے ہیں ۔ انہیں قومی اور بین الاقوامی صورت حال کا ادراک بھی نہیں ہے اور نہ ہی وہ قومی اور بین الاقوامی معاملات میں خود کو الجھانا چاہتے ہیں ، ہمارے سیاست دان وہ ذمہ داریاں لینے کو تیار نہیں ہیں ، جو ایک قومی رہنما کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں ۔ چیف جسٹس نے 9مقدمات کا کراچی میںاز خود نوٹس لیا ہے ان کے بارے میں انہوں نے کہاہے کہ وہ حکومت کے کسی کام میں مداخلت نہیں کر رہے۔یہ تو کہا جاتا ہے کہ عدلیہ انتظامی امور میں مداخلت کر رہی ہے لیکن سویلین حکومتوں کے کچھ انتظامی، معیشت اور خارجہ کے امور ایسے ہیں ، جن سے خود سویلین حکومتیں اور سیاستدان دستبردار ہو چکے ہیں ۔ ملک کے خارجہ امور سے سیاست دان خصوصاً آج کے حکمراں قطعی طور پر لاتعلق ہیں ۔ وہ نہ تو ان امور کا ادراک رکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ۔ عالمی، خطہ اور علاقائی سطح پر تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں میں ہماری قومی سیاسی قیادت کو جو کردار ادا کرنا چاہئے وہ شعوری طور پر ادا نہیں کر رہی ہے۔عالمی اسٹیج پر ہمارا کوئی سیاست دان نظر نہیں آتا ۔ ہمارے وزیر خارجہ رسمی طورپر اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ حکمراں پاکستان مسلم لیگ (ن) صرف نواز شریف بچاؤ پارٹی بنی ہوئی ہے ۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی آگے بڑھ کر خارجہ امور میں کوئی کردار ادا کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ شمالی کوریا کے نوجوان صدر ’’ کم جونگ ان ‘‘ نئے لیڈر بن کر ابھرے ہیں، انہوں نے اپنے ملک کو تنہائی سے نکال کر قائدانہ کردار سونپ دیا ہے ۔ چین کے دورے کے بعد وہ جلد امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنیوالے ہیں ۔ جنوبی کوریا کے ساتھ بھی معاملات طے کرنے میں وہ بہت کوششیں کر رہے ہیں ۔ شمالی کوریا کا خطے میں نیا کردار اس خطے میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے ۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بدلتی ہوئی دنیا کا ادراک کرکے سعودی عرب میں اصلاحات کا عمل شروع کرکے انقلاب برپا کر دیا ہے ۔ سعودی عرب میں خواتین کیلئے آزادی ، نئے اور جدید شہر کی تعمیر اور تیل کی معیشت پر انحصار کا خاتمہ مذکورہ اصلاحات کے اہم عوامل ہیں ۔ عراق ، اردن اور شام میں داعش کی کارروائیاں ختم ہو رہی ہیں ۔ مشرق وسطی میں بڑی تبدیلی نظر آ رہی ہے ۔ سعودی عرب ، امریکہ ، ایران اور قطر ہمارے خطے میں اپنے نئے اور اہم کردار کا تعین کر رہے ہیں ۔ روس میں صدر پیوٹن اور چین میں صدر شی چن پنگ تاحیات اپنے ملکوں کی قیادت کریں گے ۔ ان دونوں ملکوں کا عالمی سیاست میں بڑا کردار بن چکا ہے ۔ امریکہ اور روس کے مابین ایک طرح سے دوبارہ سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے یہ ممالک ایک دوسرے کے ملکوں کے سفارتکاروں کو نکال رہے ہیں۔ دنیا ایک نئے بیانیہ کی طرف جا رہی ہے ہمارے ہاں کوئی سیاست دان نہیں ، جو بھٹو کی طرح ان بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان کو قائدانہ کردار دلا سکے اور پاکستان کے مفادات کیلئے عالمی لیڈر کے طور پر کام کر سکے ۔ صرف خارجہ امور ہی نہیں ، داخلی امور میں بھی سیاست دان دستبردار ہو گئے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سارا کام سیکورٹی فورسز پر ڈال دیا گیا ۔ یہاں تک کہ سیکورٹی سے جڑے ہوئے دیگر سیاسی مسائل اور پالیسیوں میں بھی سویلین حکومتوں اور سیاست دانوں کا عمل دخل نہیں رہا ۔ سیاست دان دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے تیار نہیں ہیں ، جس طرح وہ علاقائی اور بین الاقوامی سیاست میں نہیں الجھنا چاہتے ۔ اب عدلیہ سے کیا شکوہ کرنا کہ وہ انتظامی امور میں مداخلت کر رہی ہے ۔
ہمارے ملک میں 50فیصد سے زیادہ آبادی ہیپاٹائٹس جیسے موذی مرض کا شکار ہے یا اس کے وائرس کی کیریئر ہے ۔ اس کا بنیادی سبب صاف پانی کی عدم فراہمی ہے ۔ بعض لوگوں کو تو گندہ پانی بھی میسر نہیں ہے ۔ شہروں اور قصبوں کا سیوریج ، صنعتوں کا فضلہ اور دیگر زہریلے مادے پانی کےذخائر میں چھوڑ دیئے جاتے ہیں اس سنگین مسئلے کو ہماری حکومتوں نے کبھی مسئلہ ہی تصور نہیں کیا ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس مسئلے پر کارروائی کرکے کم از کم سندھ کو بہت بڑی تباہی سے بچانے کا آغاز کیا ہے اور اچھی شہرت کے حامل سابق جج جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں واٹر کمیشن تشکیل دے دیا ہے لیکن میرے خیال میں اس کمیشن کی مدت بہت کم ہے ۔ اسپتالوں میں غریب مریضوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا ۔ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس نے پنجاب اور سندھ میں اسپتالوں کی حالت کو کسی حد تک بہتر بنا دیا ہے ۔ اسی طرح تعلیمی اداروں کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے عدالتوں کے حکام پر ہی حکومتوں نے کام شروع کیا ہے ۔ عدالتوں کے مختلف فیصلوں کے بعد لوگوں کو پہلی مرتبہ ریلیف محسوس ہو رہا ہے ۔ یہ کام حکومتوں نے از خود کیوں نہیں کئے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جس طرح خارجی امور اور امن وامان کے معاملات میں سویلین حکومتیں اور سیاست دان نہیں پڑنا چاہتے اسی طرح دیگر عوامی معاملات میں بھی وہ نہ تو محنت کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی وقت ضائع کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کا معاملات کو بہتر بنانے کا وژن ہی نہیں ہے ۔ایک اور معاملے پر عدلیہ نے ابھی تک مداخلت نہیں کی ۔ وہ ملک کے اقتصادی امور ہیں ، جو اب ناقابل انتظام ہو چکے ہیں ۔ پاکستان کی معیشت اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہے ۔ سطح غربت سے نیچے رہنے والی آبادی کے تناسب میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اب حکومت نے اپنے آخری دنوں میں ممتاز اقتصادی ماہر اور بینکار شوکت ترین کی سربراہی میں جو اکنامک کمیٹی تشکیل دی ہے وہ اس مدت میںشاید ہی اپنا کوئی کردار ادا کر سکے گی ۔ معاشی بحران اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو کچھ عرصے بعد عدلیہ بھی کچھ نہیں کر سکے گی ۔ دیگر اداروں کی مداخلت کا رونا رونے کی بجائے سویلین حکومتوں اور سیاستدانوں کو اپنی اب تک کی کارکردگی ، اپنے کردار اور اپنے اہداف کا ازسر نو جائزہ لینا چاہئے ۔ میں نے ساری زندگی ایک سیاسی ورکر کے طور پر کام کیا ہے اور سوچا ہے ۔ میں سیاست اور جمہوریت کو تمام مسائل کا حل سمجھتا ہوں ۔ سیاست کی ناکامی کے اس ودسرے خوفناک آپشن کا میں نے پہلے کبھی تصور نہیں کیا تھا ۔ ان حالات میں چیف جسٹس آف پاکستان مجھے بنیادی انسانی حقوق ، انصاف ، قانون کی حکمرانی ، آئین کی بالادستی اور بہتر حکمرانی کی توانا آواز محسوس ہوتے ہیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)