کراچی؛ شاہراہ فیصل پر مقصود کے قتل کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی

April 04, 2018

کراچی میں شاہراہ فیصل پر پولیس کے ہاتھوں رکشے میں سوار مقصود کے قتل کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی، پولیس ذرائع کے مطابق شارع فیصل کے پی اے ایف اسٹاپ کی 2 منٹ 35 سیکنڈ کی یہ واضح سی سی ٹی وی فوٹیج پولیس کی بربریت کی ’خوفناک مثال‘ کے طور پر سامنے آنے والی ہے۔

کراچی میں شاہراہ فیصل پر پی اے ایف فلائی اوور کے عین نیچے 20 جنوری 2018 کو پولیس گردی کی یہ واردات اس وقت ہوئی جب کراچی کی ملیر پولیس کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود اور کلفٹن میں اینٹی کار لفٹنگ سیل پولیس کے ہاتھوں بے گناہ نوجوان انتظار کے قتل کے واقعات پر ملک بھر میں خوب لے دے ہو رہی تھی۔

شارع فیصل پر پی اے ایف فلائی اوور کے نیچے لگے سی سی ٹی وی کیمرے نے تمام خوفناک مناظر ریکارڈ کرلیے تھے جو شاہراہ فیصل پولیس کے روایتی دعوے اور مقابلے کے مقدمہ کو جھوٹا ثابت کر رہے ہیں۔

پولیس تفتیش کے مطابق اس کارروائی کی شروعات 20 جنوری 2018 کی علی الصباح شارع فیصل تھانے کے سامنے ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن کے قریب ایئرپورٹ سے صدر کی طرف جانے والے شارع فیصل کے ٹریک سے ہوتی ہیں، جب سلور رنگ کی سوزوکی کلٹس پرائیویٹ کار میں سوار شاہراہ فیصل تھانے کے اے ایس آئی طارق خان، پولیس کانسٹیبل اکبر خان، عبدالوحید اور شوکت علی اور موٹر سائیکل پر سوار دو پرائیویٹ افراد کے ساتھ گشت پر تھے کہ پولیس کے دعوے کے مطابق ایئرپورٹ کی جانب سے آنے والی کار نمبر بی ڈی پی 211 کو اہلکاروں نے روکنے کی کوشش کی۔ پرائیویٹ کار اور موٹرسائیکل سوار عام افراد کے اشارے پر رکنے کے بجائے کار سواروں نے اسپیڈ بڑھا دی تھی۔

پولیس کا الزام تھا کہ کار سوار ملزمان نے فرار ہونے کی کوشش میں پولیس پر جان سے مارنے کی نیت سے فائرنگ کی تاہم پولیس ذرائع کے مطابق پولیس ٹیم کی شفاف تفتیش نے پولیس اہلکاروں کے اس دعوے کو غلط ثابت کردیا ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق ملزمان فرار ضرور ہوئے مگر انہوں نے پولیس پر فائرنگ نہیں کی بلکہ پولیس اہلکاروں نے مقدمے کے لیے یہ فرضی اور روایتی کہانی گھڑی۔

تفتیشی حکام کو دستیاب عینی شاہدین کے بیانات کے مطابق سفید کار کے تعاقب کے دوران پولیس اہلکاروں نے مذکورہ کار پر برابر سے فائرنگ کی جس سے کار پر تین گولیاں لگیں اور کار سوار ایک نوجوان اکبر معمولی زخمی ہوا،اس کے باوجود کار سوار تیزی سے گاڑی بھگا کر لےگئے۔

پولیس تفتیش کے مطابق اس کارروائی کا دوسرا حصہ شارع فیصل پر کارساز فلائی اوور سے پہلے ایف 6 مونومنٹ کے ساتھ پیش آتا ہے جب مذکورہ کار ایک ٹائر برسٹ ہونے کی وجہ سے فٹ پاتھ سے ٹکرا کر بند ہو گئی۔

پولیس کے مطابق کار میں سوار 3 افراد میں سے ایک ریلوے ٹریک کی طرف جھاڑیوں میں چھپ کر فرار ہوگیا جبکہ دو افراد اکبر اور علی شارع فیصل کی درمیانی فٹ پاتھ پیدل عبور کرکے ایئرپورٹ کی طرف جانے والے ٹریک پر چلے گئے اور ڈرگ روڈ کی طرف جانے والے رکشہ نمبر 17123 ڈی 15 میں کوئی بہانہ کرکے سوار ہوگئے۔

پولیس کے مطابق چند منٹ بعد ان کے تعاقب کرنے والے پولیس اہلکار کار ٹکرانے کے مقام پر پہنچ گئے تھے، جہاں پوچھ گچھ کرنے پر وہاں ڈیوٹی پر موجود ایک فورس کے اہلکاروں نے ملزمان کے رکشہ میں ڈرگ روڈ کی طرف جانے کا بتایا۔

تفتیشی ذرائع کے مطابق پولیس اہلکار بھی سڑک کے دوسری طرف چلے گئے اور ایک سوزوکی کیری روک کر اس میں سوار ہوکر رکشہ کے تعاقب میں روانہ ہوگئے،پولیس حکام کے مطابق اصل واقعہ شارع فیصل پر پی اے ایف فلائی اوور کے نیچے پیش آتا ہے جو سی سی ٹی وی کیمرے نے ریکارڈ کیا ہے۔

انویسٹی گیشن پولیس نے دو منٹ 35 سیکنڈ کی سی سی ٹی وی فوٹیج مقدمے کا حصہ بنائی ہے جس نے واقعہ کے اصل پہلوؤں کو کھول کر رکھ دیا ہے، اس فوٹیج میں واضح نظر آرہا ہے کہ پولیس والوں کا ممکنہ تعاقب دیکھنے کیلئے رکشہ میں سوار مبینہ ملزم علی رکشہ کی تیزرفتاری کے دوران پیچھے مڑکر دیکھنے لگتا ہے تو مرکزی شارع کی لین ون میں جاتے ہوئے رکشہ الٹ گیا، رکشہ کے الٹی طرف بیٹھا ہوا ملزم علی گرکر دونوں ٹریک کے درمیان دیوار کی گرل میں پھنس گیا، اس دوران فوٹیج میں پولیس بھی پہنچتی دکھائی دیتی ہے۔

پولیس اہل کار رکشہ کو گھیر لیتے ہیں،کار سے اتر کر فرار ہونے والے دونوں افراد کو پولیس اہلکار پکڑ لیتے ہیں، اہلکار ان کی تلاشی لیتے دکھائی دیتے ہیں جن سے اسلحہ برآمد نہیں ہوتا، پولیس اہلکار اکبر کو رکشہ کے عقب میں سڑک پر گھٹنوں کے بل بٹھا دیتے ہیں،فوٹیج میں پولیس کے ساتھ موجود پرائیویٹ گن مین فائرنگ شروع کردیتا ہے۔

پولیس پارٹی کے انچارج اے ایس آئی طارق خان کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ دونوں کو پولیس کے انداز میں گھٹنوں کے بل بٹھاتے ہیں اور پھر فائرنگ کرتے ہیں، اس دوران رکشہ ڈرائیور رؤف، اس کے ساتھ بیٹھا ہوا محمد مقصود اور مسافر مرتضیٰ اپنے ہاتھ کھڑے کرکے پولیس کو بے گناہ ہونے کا یقین دلاتے نظر آتے ہیں۔

فوٹیج میں اے ایس آئی طارق خان کی سفاکی واضح نظر آرہی ہے جو ان تین افراد پر بھی اندھا دھند فائرنگ کرتا ہے، فوٹیج میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ اے ایس آئی طارق خان لگ بھگ 10 گولیاں فائر کرتا ہے، یہی نہیں مقدمے میں نامزد 4 پولیس اہلکاروں کے علاوہ ان کے دو پرائیویٹ ساتھی بھی رکشہ اور اطراف میں فائرنگ کرتے ہیں، یہ مناظر دیکھ کر کسی اور ملک نہیں بلکہ پاکستان کے شہر کراچی کے علاقے کلفٹن میں 8 جون 2011ء کے وہ مناظر یاد آجاتے ہیں جب ایک بے گناہ نوجوان سرفراز شاہ کو ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے کے دوران فائرنگ کر کے قتل کر دیا جاتا ہے۔

سرفراز شاہ کی ہلاکت کی ویڈیو سے کہیں زیادہ خوفناک اور دہشت زدہ کردینے والی یہ ویڈیو ہے جس کے منظر عام پر آنے سے قبل ہی پولیس، جعلی مقابلے کے اس مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے کا اضافہ کررہی ہے۔

بالکل اسی طرح مقصود قتل کیس میں بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ تمام بے گناہ اور نہتے شہری ہاتھ کھڑے کرکے پولیس کو اپنی بے گناہی کا یقین دلاتے ہیں مگر سفاک اہلکار اور ان کے پرائیوٹ غنڈے ان پر اندھا دھند فائرنگ کرتے ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق اس طرح کی ریکارڈ سفاکی پولیس کی جانب سے اس سے قبل کبھی منظر پر نہیں آئی، یہی وجہ ہے کہ پولیس 2 ماہ گزرنے کے باوجود یہ سی سی ٹی وی فوٹیج عام نہیں کر رہی تاہم مقدمے میں شامل کیے جانے کے بعد یہ ویڈیو عدالت میں پیش کی جائے گی جسے متاثرہ فریق اپنے وکیل کی مدد سے لے کر میڈیا کو پیش کر سکتا ہے۔

اس رد عمل سے بچنے کے لئے پولیس نے مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، انسداد دہشت گردی کی دفعات کی شمولیت کے پیپر جمعرات کو ویڈیو کے ساتھ عدالت میں پیش کیے جائیں گے۔

واضح رہے کہ اس مقدمے کے تحت تمام چار پولیس اہلکار عدالت سے ضمانت پر ہیں جبکہ ان کے پرائیویٹ ساتھی روپوش ہوگئے ہیں۔