بس چند برس

April 06, 2018

دنیا مسائل سےبھری پڑی ہے۔ مسائل کے اس آئینے میں ظالم کے ظلم کی تصویریں ہیں، مظلوم کی بکھری ہوئی لاشیں، لاشوں کے ٹکڑے اور بلکتے ہوئے بچے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بکھری ہوئی لاشیں، لاشوں کے ٹکڑے، بلکتے ہوئے بچے، روتی ہوئی عورتیں، بے بس افراد اورنڈھال ہوتے ہوئے انسانوں کی تصویر کا تعلق امت مسلمہ سے ہے۔ آئینہ جو یہ دو تصویریں پیش کررہا ہے تو اس کے ساتھ ہی ایک اور تصویر بڑی بھیانک ہے، آئینے کے کونے پر دکھائی دینے والی یہ بھیانک تصویر بعض مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کی ہے، جن کے گلے میں غلامی کا طوق ہے، جن کی ساری محبت مغرب پرستی ہے، جو اپنے بچوں کو مغربی درس گاہوں میں پڑھانا فخر سے کم نہیں سمجھتے، جنہیں اس بات پر فخر ہے کہ انگریزی کے دو چار لفظ ان کی زبان پر رقص کرتے رہتے ہیں، اگرچہ ان مسلمان ملکوں کے سربراہوں کی جائیدادیں اپنے اپنے ملکوں میں بھی بہت ہیں مگر پھر بھی دل کی تسلی کے لئے انہوں نے مغربی ملکوں میں جائیدادوں کے وسیع و عریض سلسلے بنا رکھے ہیں، ان غلام سربراہوں کا علاج بھی مغربی ملکوں میں ہوتا ہے، یہ غلام سربراہ اپنے اہل خانہ کا علاج بھی مغربی ملکوں کے اسپتالوں میں کرواتے ہیں، مجھے مسلمان ملکوں کے غلام حکمرانوں کے یہ اطوار اس لئے یاد آرہے ہیں کہ میرے سامنے چند شامی بچوں کی بریدہ لاشیں ہیں، چند فلسطینی بچوں اور عورتوں کی بے بسی بیان کرنے والی تصویریں ہیں، کچھ بارود میں نہائے افغان بچوں کی لاشیں اور پھر وادی جنت نظیر میں ہر طرف بکھری ہوئی موت کے سائے، لہو میں اتری ہوئی وادی، وادی میں بارود کی بو، فضا میں افسردگی اور اس عالم میں آزادی کے نعرے، نعروں میں جیوے جیوے پاکستان کی گونج،یہ وہ سب مناظر ہیں جو مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کو بہت کچھ یاد کروانے کی کوشش کررہے ہیں، مگر انہیں چند برسوں کی حکمرانی سے بہت پیار ہے کہ وہ اس پیار میں قرآن پاک کا عطا کردہ لفظ ’’امت‘‘ بھول چکے ہیں، انہیں یہ یاد ہی نہیں کہ رسول پاکؐ نے فرمایا تھا کہ ’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر کسی مسلمان کو تکلیف ہو تو ایسے ہی ہے جیسے جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہو جس سے پوراجسم درد میں مبتلا ہو جائے‘‘۔
مسلمان حکمرانوں کو اپنے جدید فلاسفر علامہ اقبال کی طرف سے دیا گیا سبق بھی یاد نہیں۔ اقبال نے مسلمانوں سے دردمندانہ اپیل کی تھی کہ وہ نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر تک ایک ہو جائیں۔ افسوس ایک صدی بعد بھی مسلمان حکمران اپنے جدید فلاسفر کا سبق نہیں سمجھ سکے۔ اسی لئے آج بھی مسلمان دنیا کے مقدر میں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
فلسطین میں کتنے برسوں سے قتل و غارت ہورہی ہے مگر مسلمان حکمرانوں کی اکثریت کے منہ پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں کب سے جنگ و جدل کا موسم اترا ہوا ہے مگر یہاں بھی خاموشی اختیار کی گئی ہے، پرامن شام کو مقتل بنا دیا گیا ہے لیکن مسلمان حکمرانوں کو اس سے کیا، قتل گاہ میں کیا ہوا، اس سے کسی کو غرض نہیں۔ کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم کی داستانیں کب سے دنیا کے سامنے ہیں، حال ہی میں چند کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا گیا، جنازوں پر گولیاں چلائی گئیں، جلوسوں پر گولیاں برسائی گئیں، گرفتاریاں کی گئیں، معصوم بچوں پر تشدد کیا گیا، اس ساری صورتحال پر مسلمان دنیا خاموش رہی خاص طور پر مسلمان ملکوں کے غلام حکمران چپ رہے، اقوام متحدہ نے تو چپ رہنا ہی تھا، وہ تو 1948ء سے کشمیر کے معاملے میں خاموش ہے، اس نے تو جاگنا نہیں بلکہ میں تو اکثر کہا کرتا ہوں کہ جب سے یہ تنظیم بنی ہے مسلمانوں کی نسل کشی ہورہی ہے، یہ کیسی تنظیم ہے جو ایسٹ تیمور کو آزادی دلوا دیتی ہے مگر اسے بوسنیا، فلسطین اور کشمیر میں ہونے والا قتل و غارت نظر نہیں آتا، اسے فلسطین اور کشمیر کی آزادی کی تحریک نظر نہیں آتی۔ اس دو رخی کا عالم تو دیکھئے کہ اسے خالصتان، منی پور، میزورام، ناگالینڈ سمیت بھارت میں چلنے والی بہت سی آزادی کی تحریکیں نظر نہیں آتیں۔
اقوام متحدہ سے شکوہ کیساکہ وہاں مسلمانوں کے ستاون ملکوں میں سے کسی ایک کو بھی ویٹو پاور حاصل نہیں ہے کیا ان ستاون میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں تھا کہ اسے ویٹو پاور دی جاتی، اپنے کسی پسندیدہ غلام ملک ہی کو ویٹو پاور دے دیتے مگر شاید غلاموں کی اوقات اتنی نہیں ہوتی۔
او آئی سی کس مرض کی دوا ہے، اس کی مسیحائی کی تو دور دور تک خبر نہیں، پتہ نہیں یہ کن لوگوں کا ہجوم ہے اور یہ جو معتمر عالم اسلامی ہے یہ پتہ نہیں کونسے مسلمانوں کی آواز ہے، اس سے منسلک راجہ ظفر الحق سینیٹ کے چیئرمین کا الیکشن ہی ہار گئے، شاید وہ جیت جاتے تو کشمیر پر بولتے مگر ایسا کہاں، کیونکہ جہاں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین چپ ہوں جہاں پوری حکومت ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی دھن بجا رہی ہو، وہاں لہو میں نہائی ہوئی وادی کی آواز کون بلند کرتا ہے۔
مسلمان ملکوں کے غلام حکمران لڑ نہیں سکتے تو اتنا تو کرسکتے ہیں کہ وہ فلسطین کے مسئلے پر اسرائیل اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں۔ وہ بھارت سے سفارتی تعلقات منقطع نہ کریں مگر اتنا تو کردیں کہ جب تک بھارت کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہیں دیتا، رائے شماری نہیں کرواتا، اس وقت تک بھارت سے تجارتی مراسم معطل رہیں گے۔ کشمیریوں پر ظلم کے جواب میں خلیجی ممالک کو چاہئے تھا کہ وہ سوائے سفارت کاروں کے تمام بھارتیوں کو نکال دیتے مگر افسوس مسلمان حکمران اپنی چند برسوں کی حکومتوں کے لالچ میں یہ سب کچھ نہیں کر پا رہے، وہ کبھی سوچتےبھی نہیں کہ ہمارے پاس بس یہی چند برس ہیں اس کے بعد بغیر جیب کے کفن ہے، منوں مٹی کا بوجھ ہے، سوالات کی بوچھاڑ ہے، ایک سوال امت کے بارے میں بھی ہوگا، ایک سوال مسلمانوں کو ایک جسم قرار دیئے جانے پر بھی ہوگا، یہ بھی پوچھا جائے گا کہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کیوں نہ کی؟
افسوس کہ شرق اوسط سے شرق بعید تک پھیلی ہوئی ستاون ریاستوں کے حکمرانوں کی اکثریت چپ چاپ تماشا دیکھ رہی ہے، جن کا مقصد حیات صرف دولت کا حصول ہے کیا یہ سب مسلمان حکمران حضرت علیؓ کا یہ قول بھول گئے جو انہوں نے حاکم بن کر کوفہ میں داخل ہوتے وقت لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ ’’اے لوگو! میں اپنے جسم پر جو لباس پہن کر اور جس سواری پر سوار ہو کر تمہارے شہر میں داخل ہوا ہوں، اگر واپس جاتے وقت اس کے علاوہ میرے پاس کوئی اور چیز ہو تو جان لینا کہ میں نے تمہارے حق میں خیانت کی‘‘۔
کیا مسلمان ملکوں کے حکمران وہ سادگی بھول چکے ہیں جس کا مظاہرہ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کیا کرتے تھے، کیا ان حکمرانوں کو وہ منظر یاد نہیں جب مسلمانوں کا خلیفہ دشمنوں کے شہر میں داخل ہوا تو اونٹ پر غلام سوار تھا جبکہ خلیفہ وقت نے نکیل پکڑ رکھی تھی۔
ہاں! یہ سب کچھ مسلمانوں پر حکومت کرنے والے غلام حکمران بھول چکے ہیں، انہیں بس اپنی چند برسوں کی حکومتوں سے پیار ہے، انہیںیہ یاد نہیں کہ یہ چند برس کی زندگی عمر بھر کی رسوائیاں بھی دے سکتی ہے، بقول محسنؔ نقوی؎
کس نے بسائے آنکھ میں اشکوں کے قافلے
بے گھر مسافروں کو وطن کون دے گیا
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اورواٹس ایپ رائے دیں00923004647998)