وزیراعظم کی امریکی تلاشی سے شام کی تباہی تک

April 11, 2018

عراق کی تباہی کے بعد اب شام میں انسانی تباہی کے مناظر اور معصوم بچوں اور بے گناہ انسانوں کی میزائلوں اور کیمیکل ہتھیاروں سے المناک اموات کے مناظر نے بھی ہماری روش کو تبدیل نہیں کیا۔ مسلم دنیا تو اس صلاحیت اور جرات سے محروم ہوچکی ہے کہ وہ پتہ چلا سکے یا کہہ سکے کہ مسلم ممالک میں ایسی تاریخی تباہی میں کس کا ہاتھ ہے لیکن جنگ کے اہم کردار روس کے ڈرونز کی حاصل کردہ تصاویر کیساتھ روسیوں کا تازہ دعویٰ ہےکہ تازہ ترین میزائل حملے اسرائیل کے ایف 15طرز کے جنگی طیاروں نے بمباری کرکے شام میں یہ انسانی تباہی مچائی ہے۔ کچھ عرصہ قبل اسلام آباد نے واضح اعلان کردیا کہ اب ہم’’ ڈومور‘‘ کے مطالبے پر عمل نہیں کرسکتے۔ بہت ہوچکا اب ہم کچھ نہیں کرینگے۔ دوسروں کو اب کرنا ہے۔
اس بیان کے بعد چند ہفتوں میں ہی ہم نے خاموش ڈپلومیسی‘‘ اور دبائو کے باعث وہ کچھ کر ڈالا کہ ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرنے والے امریکی عہدیداروں کے عوامی بیانات سےجزوی اطمینان واضح ہونے لگا لیکن ڈومور کا مطالبہ بھی جاری رہا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ایک روزہ دورہ افغانستان کی حمایت وستائش بھی امریکی ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری ایلس ویلز کے تازہ انٹرویو کا حصہ ہے مگر ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ بھی ساتھ ہی ہے۔ ہمیں تواب اس تلخ حقیقت کی بھی پروا نہیں رہی کہ جنوبی ایشیا میں ہمارے ازلی مخالفین تو امریکی سیاستدانوں اور حکمرانوں سے اپنے اثرورسوخ کو کام میں لاکر جنوبی ایشیا میں اپنے حق میں فیصلے اور پالیسی تشکیل دے رہے ہیں اور ہم سے ان کے ماتحت انتظامی افسران اپنی پالیسی کی تعمیل کیلئے پاکستان کے دورے کررہے ہیں۔ خطے میں حالات کا دھارا ہمارے لئے چیلنج لئے ہوئے ہے اور ہم انتخابی سیاست کی جانبداریوں کے ہجوم میں اصل موضوع اور مقاصد سے دور ذیلی معاملات کو بنیادی مسئلہ قرار دے کر صرف اپنے ہم خیال لوگوں سے خوش اور مخالفین کا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں۔ ہمیں عالمی یا علاقائی صورتحال کی قطعاً کوئی فکر نہیں صرف اسلام آباد میں اقتدار کی کرسی کے حصول کی فکر ہے۔ ملک کی فرنٹ لائن کی تینوں سیاسی پارٹیوں اور ان کے قائدین کی کیفیت، سوچ اور موجودہ حکمت عملی یہی ہے۔ داخلی انتخابی سیاست میں بھی ذاتی اور طبقاتی مفادات کا عوام اور جمہوریت کے نام پر راج ہے۔ حتیٰ کہ سابق وزیر مملکت برائے امور خارجہ خسرو بختیار نے بھی جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کیلئے پریس کانفرنس کی لیکن وہ بھی پاکستان کو لاحق خارجی محاذ پر لاحق خطرات ومسائل سے لاتعلق اور اپنے انتخابی مستقبل کے بارے میں فکرمند نظر آئے ہاں! وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ’’نجی‘‘ دورہ امریکہ کے دوران امریکی ایئرپورٹ پر سیکورٹی حکام کے ہاتھوں تلاشی اور پروٹوکول کا مسئلہ نہ صرف سیاستدانوں کا موضوع گفتگو رہا بلکہ مختلف سرکاری پریس کانفرنسوں میں بھی سوال و جواب کا نمایاں حصّہ رہا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم کے ’’نجی‘‘ دورۂ امریکہ کے بارےمیں عوام کی آگاہی کیلئے ان کی امریکی نائب صدر مائیک پنس سے ملاقات اور متعدد کانگریس مینوں سے ملاقاتوں میں زیر بحث پاک امریکی معاملات کے بارے میں سوالات کے ذریعے عوام کے سامنے پردہ اٹھانے کا کام لیا جاتا، اس کی بجائے صرف وزیراعظم کی امریکی تلاشی ہمارے میڈیا اور سیاست کا اہم ’’ایشو‘‘ بنا ہوا ہے۔ کسی جانبداری سے بالاتر ہوتے ہوئے اگر حقائق اور ماضی کے ریکارڈ کو سامنے رکھا جائے تو وزیراعظم عباسی کا جواب خاصا منطقی اور معقول نظر آتا ہے، کیونکہ نہ تو وہ پہلے پاکستانی سرکاری عہدیدار ہیں جو ڈپلومیٹک پاسپورٹ کے باوجود امریکی سیکورٹی کے ہاتھوں ’’تلاشی‘‘ کے مراحل سے گزرے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ تلخ انداز کی ’’تلاشیوں‘‘ کا سامنا کر چکے ہیں جن میں میرے چند چشم دید حقائق یہ ہیں۔
(1)وزیراعظم محمد خان جونیجو صدر ریگن کے دور میں جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کیلئے اپنے وفد کے ساتھ ایک خصوصی طیارہ لے کر نیویارک پہنچے تو مجھے یاد ہے کہ ان کا طیارہ جے ایف کینیڈی کے ریگولر ایئرپورٹ کی بجائے تھوڑے فاصلے پر ہینگر نمبر 14پر ان کی واپسی تک ’’پارک‘‘ کیا گیا۔ پاکستان واپسی سے قبل امریکی حکام کو اطلاع ملی کہ وفد کے بعض اراکین امریکی اسلحہ کے شوقین ہیں اور وہ اس خصوصی فلائٹ کی اس خاموش ہینگر میں طیارہ کی پارکنگ اور پاکستان روانگی کا فائدہ اٹھا کر اپنا خرید کردہ امریکی اسلحہ پاکستان لے جانے کا پروگرام رکھتے ہیں۔ لہٰذا امریکی حکام نے اراکین وفد کے ڈپلومیٹک پاسپورٹوں، سرکاری مشن برائے اقوام متحدہ اور خصوصی فلائٹ کی کیٹگری کی پروا نہ کرتے ہوئے کینیڈی ایئرپورٹ سے فاصلے پر واقع پارک شدہ طیارے اور وفد کے اراکین کے سوار ہونے سے قبل ان کے سامان اور مسافروں کے ساتھ جو ’’سیکورٹی سلوک‘‘ اور تلاشی کا مرحلہ مکمل کیا وہ امریکی ریکارڈ کا حصّہ ہے۔ یہ پاکستان کے وقار کو منفی طور پر متّاثر کرنے کا میری یادداشت کے مطابق پہلا واقعہ تھا اور اسکے ذمہ دار بھی خود پاکستانی وفد کے وہ اراکین تھے جنہوں نے امریکی اسلحہ کی خریداری کی، امریکی ضابطوں کی تعمیل کر کے خریداری کرنے اور پاکستان لانے کی کوشش کی بجائے پاکستانی پاسپورٹ اور سرکاری وفد کے رکن ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور امریکی حکام کی نظر میں پاکستانی ساکھ کو مجروح کیا۔
(2)جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل راشد قریشی امریکہ کے بہترین اتحادی پاکستانی حکمراں کے وفد میں جنرل پرویز مشرف کے ہمراہ امریکہ آئے تو ان کے خصوصی پاسپورٹ، عہدہ اور دورہ کی نوعیت کی پروا نہ کرتے ہوئے امریکی حکام نے اسی انداز میں انہیں ’’تلاشی‘‘ کے مراحل سے گزارا۔ (3)جب شوکت عزیز بہ طور وزیراعظم امریکہ کے سرکاری دورے پر آئے تو انہوں نے ایک رات کیلئے نیویارک قیام کیا۔ ان کا خصوصی طیارہ بھی نیویارک ایئرپورٹ سے ملحقہ فاصلے پر واقع ہینگر نمبر 14میں پارک ہوا۔ دوسرے روز واشنگٹن روانگی کیلئے پاکستانی وفد اور ہمراہ صحافی جب ہینگر نمبر 14کے علاقے میں لے جائے گئے وہاں ٹینٹ نصب کر کے امریکی امیگریشن اور سیکورٹی حکام بمعہ تلاشی کیلئے مامور کتّوں کے ساتھ موجود تھے۔ گو کہ وزیراعظم کی اس خصوصی فلائٹ کیساتھ پاکستانی سیکورٹی کی ٹیم بھی سفر کر رہی تھی۔ پرواز بھی خصوصی اور صرف سرکاری وفد کے اراکین اور ہمراہیوں کے علاوہ کسی کو سفر کی اجازت نہیں تھی۔ کینیڈی ایئرپورٹ کی عمارت یا مسافروں کی حفاظت کا بھی مسئلہ نہیں بلکہ ایک ویران سے علاقے میں ہینگر سے واشنگٹن روانگی تھی لیکن وفد میں شامل تمام افراد امریکی نگراں کتے اور امریکی امیگریشن اور سیکورٹی کے تمام مراحل اور تلاشی کی تعمیل کر کے بس کے ذریعے ویران علاقے میں پارک شدہ طیارہ تک پہنچائے گئے۔ وزیراعظم شوکت عزیز کی وطن واپسی کے دوران اسی مسئلہ پر خصوصی انٹرویو بھی کیا گیا۔ بعد میں یہ بھی حقیقت معلوم ہوئی کہ امریکی امیگریشن اور سیکورٹی کے اس خصوصی انتظام کیلئے امریکی حکومت کو تمام اخراجات بھی حکومت پاکستان نے قومی خزانے سے ادا کئے تھے۔ اسکے علاوہ متعدد ایسے واقعات بھی ہیںجن میں متعدد غیر ملکی حکومتوں کے سربراہوں، وزیراعظموں، اقوام متحدہ اور واشنگٹن میں متعین غیر ملکی سفارت کار ایسی ہی تلاشیوں سے گزرتے ہیں جیسا کہ وزیراعظم خاقان عباسی اپنے نجی دورہ امریکہ کے دوران گزرے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کیلئے نہ تو امریکہ کوئی اجنبی ملک ہے اور نہ ہی امریکی ایئرپورٹس کی سیکورٹی، وہ نیویارک اور نیو جرسی کی ریاستوں میں خود ڈرائیونگ بھی کرتے ہیں، راستوں سے بخوبی واقف ہیں۔ ہاں! مسئلہ یہ بھی ہے کہ بطور وزیراعظم انہیں تلاشی کے مرحلہ سے گزرنا چاہئے تھا یا نہیں؟ ان کا یہ دورہ نجی تھا وہ کسی پروٹوکول کے بغیر سفر کر رہے تھے۔ شاہد خاقان عباسی کے اسطرح تلاشی دینے سے ایک نئی مثال اور پاکستان کے سیکورٹی حکام کو جواز ملا ہے کہ وہ بھی غیر ملکیوں کی سیکورٹی چیک کر سکیں۔
ہاں یہ ضروری سوال ہے کہ نجی دورہ امریکہ میں انہوں نے نیپلوانیا سے واشنگٹن جا کر مائیک ہنس اور دیگر ملاقاتیں کیں۔ اس بارے میں قوم کو تفصیل سے آگاہ کریں کہ ایک روزہ دورہ افغانستان کا مقصد اور تفصیل کیا ہے؟ یہ جاننا عوام کا حق ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
kk