پاکستان کی دیہی زرعی معیشت

April 16, 2018

پاکستان کا شمار دیہی زرعی ملک میں ہوتا ہے جو اپنی معاشی ضرورتوں کا زیادہ تر نحصار مویشی بانی اور کھتی باڑی پر کرتی ہے۔ معیشت کا دارومدار زراعت پر ہونے کے باعث پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہمارے زرعی ماحول میں عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی ہے اور مویشیوں کے چارے سے لیکر فصل کی کٹائی و چھنائی کا سارا کام وہ فعال انداز میں اپنے مرد اہلِ خانہ کے ساتھ سرانجام دیتی ہے۔

پاکستان کی زمین زرخیز اور آب و ہوا زراعت کے لیے بہت موزوں ہے، شمال سے آنے والے دریا پنجاب اور سندھ کی زمین کو زرخیز کرتے ہوئے بحیرۂ عرب میں چلے جاتے ہیں۔

مزید یہ کہ کھیتوں میں آب پاشی کے لیے بہترین نہری نظام موجود ہے، مختلف موسموں میں الگ الگ فصلوں کی کاشت ہوتی ہے، فصلوں کے علاوہ طرح طرح کی سبزیاں اور پھل پاکستان میں پیدا ہوتے ہیں، یہاں کے کسان بہت محنتی اور جفا کش ہیں جو صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے فصلوں کی کاشت کاری کے عمل میں لگ جاتے ہیں۔

پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں زراعت کا حصہ 20 فی صد ہے، پاکستان کی مجموعی افرادی قوت میں سے 44 فی صد زراعت سے وابستہ ہے اور ملک کی مجموعی آبادی کا 62 فی صد حصہ دیہی علاقوں میں رہتا ہے۔ زراعت میں ملک کی معیشت کا 9 فی صد حصہ فصلوں کا ہے جب کہ مویشی بانی (Livestock) کا حصہ 12 فی صد، پولٹری اور ماہی گیری کا حصہ 0.5 فی صد ہے۔

سال 2016-17ء میں زرعی شعبے نے 3.5 فی صد کے حساب سے ترقی کی جب کہ اس سے پچھلے سال یہ شعبہ مثبت کے بجائے منفی سمت میں چلا گیا تھا۔ فصلوں کی کاشت کے لحاظ سے چار فصلیں زیادہ اہم ہیں جن میں کپاس، گندم، گنا اور چاول ہیں۔ کپاس کی فصل پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے کیوں کہ پاکستان کے اہم ترین صنعتی شعبے ٹیکسٹائل کا خام مال کپاس کی فصل سے ہی حاصل کیا جاتا ہے ۔ کپاس کی 80 فی صد پیداوار پنجاب میں ہوتی ہے لیکن پنجاب اور سندھ کے کسان کپاس کے بجائے گندم اور گنے کی کاشت کاری کو ترجیح دیتے ہیں۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ گندم اور گنے کی ہر سال حکومت ایک امدادی قیمت مقرر کرتی ہے جس کی فصل کا بڑا حصہ حکومت خرید لیتی ہے جب کہ کپاس کے معاملے میں ایسا نہیں ہے اسی لیے اس سال اطلاعات کے مطابق کپاس کی پیداوار کی زمین میں 15 فی صد کمی آگئی ہے۔ اسی طرح پچھلے سال گندم کی پیداوار 24 ملین ٹن تھی اور حکومت نے 130 روپے فی 40 کلو گرام کے حساب سے 7 ملین ٹن گندم خریدی لیکن اس خریداری کے لیے حکومت ایک مخصوص بوری جسے باردانہ کہتے ہیں فراہم کرتی ہے جس پر محکمہ خوراک کی مہر لگی ہوتی ہے۔

سندھ میں چھوٹے کسان بار دانہ ڈھونڈتے رہ گئے جب کہ محکمہ خوراک کے سرکاری اہلکاروں نے بااثر آڑھتیوں اور وڈیروں کو باردانہ پہنچادیا۔ اس طرح حکومتی اسکیم سے دیہی علاقوں کے بڑے بڑے لوگوں نے تو فائدہ اُٹھایا اور چھوٹے اور غریب کسان اپنی فصل کو اُونے پونے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہی معاملہ گنے کی فصل کا ہے، بااثر شوگر مل مالکان جن کی پہنچ حکومتی ایوانوں تک ہے غریب کسانوں سے گنا خرید لیتے ہیں مگر رقم کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرتے رہتے ہیں اور سال سال گزر جاتا ہے فصل کی قیمت ادا نہیں کرتے یہاں تک کہ گنے کے کاشت کاروں کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر آنا پڑتا ہے۔

مویشی بانی (Livestock) زراعت کا اہم جز ہے جس کا ملک کی معیشت میں 12 فی صد حصہ ہے اور پندرہ لاکھ خاندان اسی مویشی بانی سے وابستہ ہیں جو زندگی کی بنیادی ضرورتیں اسی سے پورا کرتے ہیں، دوسرے یہ کہ ملک میں گوشت اور دودھ کی فراہمی کا ذریعہ یہی شعبہ ہے پاکستان دودھ اور گوشت کی پیداوار میں دنیا میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ایشیا کے دو اہم ممالک انڈیا اور تھائی لینڈ حلال گوشت کی برآمدات میں پاکستان سے آگے ہیں، پاکستان اپنی کوالٹی، پیکنگ اور بین الاقوامی معیارات کو پورا کرکے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو حلال گوشت کی برآمدات میں اضافہ کرکے بھاری زرمبادلہ حاصل کرسکتا ہے۔

عیدالاضحی کے موقعے پر قربانی کے جانوروں کی فراہمی اسی شعبے کے ذریعے ہوتی ہے۔ پچھلے سال 35 لاکھ گائے اور 85 لاکھ بھیڑ اور بکروں کی قربانی کی گئی تھی۔ اس موقعے پر یہ شعبہ ملک میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ہر سال عیدالاضحی کے موقعے پر ملکی معیشت میںلگ بھگ 350 ارب روپے کا کاروبار ہوتا ہے جس میں 192 ارب روپے کی گائے، 127 ارب روپے کی بھیڑ اور بکروں کی فروخت اور 22 ارب روپے کا وہ کاروبار شامل ہے جس میں قربانی کے جانوروں کا چارہ، آرائشی سامان، ٹرانسپورٹیشن، قصابوں کی خدمات اور کھالوں کی وصولی شامل ہے۔ اسی طرح یہ شعبہ ملک میں چمڑے کی صنعت کے لیے خام مال کی فراہمی کا ذریعہ بنتا ہے۔

حکومت نے پچھلے سال کھاد کی قیمتوں میں کمی کے لیے زرتلافی کا اعلان کیا تھا، اسی کے ساتھ سیلز ٹیکس کی شرح 17 فی صد کے بجائے 5 فی صد کردی تھی، اس طرح کھاد کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوگئی تھی مگر جن کھاد تیار کرنے والی کمپنیوں کے ذریعے زرتلافی فراہم کی گئی تھی ان کو وہ رقم فراہم نہیں کی گئی۔ اس طرح تقریباً 20 ارب روپے اُن کمپنیوں کے پھنسے ہوئے ہیں، چناں چہ اس سال انہوں نے سستی کھاد کا سلسلہ روک دیا ہے۔

دوسری طرف اس سال زرعی شعبہ کو 600 ارب روپے کے قرضے فراہم کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے جو مختلف بینک اور نان بینک مالیاتی ادارے مہیا کریں گے۔ بجٹ 2017-18ء میں ایک ہزار ارب روپے چھوٹے کسانوں کے لیے قرضوں کی مد میں رکھے گئے ہیں، جن پر سود کی شرح 9.9 فی صد رکھی گئی ہے۔

غریب، اَن پڑھ اور بے وسیلہ کسان قرض حاصل کرنے کی کاغذی کارروائی کس طرح پورا کرے گا یہ سمجھ سے باہر ہے۔ جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا یہ تمام مراعات اور سہولتیں زرعی شعبے سے تعلق رکھنے والی بااثر طبقے، جاگیردار، وڈیرے اور چودھری ہتھیا لیں گے اور غریب کسان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا جسے صرف دو چیزیں چاہئیں ایک تو کم قیمت کھاد، بجلی اور اعلیٰ کوالٹی بیج اور دوسرے اس کی فصل مارکیٹ میں مناسب قیمت میں فروخت ہو اور اسے جلد رقم کی ادائیگی ہوجائے۔

اگر حکومت اِن دونوں چیزوں کی مناسب منصوبہ بندی کرے اور ذمے دار و باصلاحیت عملے کے ذریعے اِن پر عمل درآمد کرادے تو کسانوں کے دن پھر جائیں گے۔اس طرح ہمارے سروسز سیکٹر کے مقابلے میں زرعی شعبے کی اہمیت اور وقعت زیادہ ہے جو ہمارے لیے خوراک کی فراہمی کے ساتھ وسیع زرِ مبادلہ کے ذخائر مہیا کرتا ہے۔