بجٹ، ایمنسٹی اسکیم اور ضمنی مطالبات کی منظوری!

May 20, 2018

جمعہ کے روز اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی نے مالی سال 2018-19ء کے وفاقی بجٹ اور فنانس بل کی ترامیم کے ساتھ منظوری دے دی، فنانس بل میں منظور کی گئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں شامل غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے اورانہیں اندرون ملک لانے کا ایکٹ مجریہ 2008ء اور اندرون ملک اثاثوں کورضا کارانہ طور پر ظاہر کرنے کا ایکٹ بھی منظور کیاگیا۔ نان ٹیکس فائلر ڈالر اکائونٹ رکھ سکیںگے نہ 50لاکھ روپے سے زائد مالیت کی پراپرٹی خرید سکیں گے، بیرون ملک سے ایک کروڑ روپے سے زائد بھیجنے پر ذرائع آمدن پوچھے جائیں گے اور ایف بی آر تحقیقات کرے گا۔ ایمنسٹی اسکیم سے 30جون تک بیرون ملک مقیم پاکستانی دو فیصد ٹیکس دے کر دولت ظاہر کر کے اور وطن لا کر کالا دھن سفید کرسکیں گے۔ یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ جب تک ملک میں سب کو بلاامتیاز ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جاتا ہمیں ترقی و خوشحالی ملنا تو درکنار جو سہولیات میسر ہیں وہ بھی معدوم ہوتی چلی جائیں گی۔ 6اپریل 2018ء کو جب حکومت نے 5نکاتی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا تو اس کے بعد نہ صرف اپوزیشن بلکہ ملک بھر میں اس کی شدید مخالفت سامنے آئی کہ جی جان سے محنت کرنے والا سترہ فیصد ٹیکس دے اور اس کے علاوہ درجنوں دوسرے ٹیکس بھی ادا کرے جبکہ کرپشن کرنے والا محض دو فیصد دے کر اپنا کالا دھن سفید کرلے؟ تاہم دلیل یہ دی گئی کہ گرے لسٹ کے خطرات کے باعث اس طریقے سے محصولات جمع کر کے ملکی امور چلائے جاسکیں گے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ٹیکس کلچر اس لئے پروان نہ چڑھ سکا کہ مقتدر طبقات نے ہی ٹیکس ادا نہ کرنے کی روش اپنائے رکھی، عوام نے ان کی تقلید کی اوراب محض تنخواہ دار طبقہ ہی ٹیکس ادا کررہا ہے اب جبکہ حکومت کی معیاد بہت تھوڑی رہ گئی ہے، مالیاتی امور کی منظوری پر اپوزیشن کا احتجاج بے جا بھی قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ایسے اہم امور پر اتنی جلد بازی میں فیصلے عموماً نہیں کئے جاتے۔ یہ معاملہ آئندہ حکومت پر چھوڑ دینا چاہئے تھا۔