پاک ایران گیس پائپ لائن

May 26, 2018

قدرتی گیس، دنیا میں توانائی کا تیسرا عظیم ذریعہ شمار ہوتاہے جو ایران میں وافرمقدار میں پایا جاتا ہے۔تحقیقات کے مطابق ایران میں ۳۳ ٹریلین میٹر مکعب گیسکے ذخائرکا تخمینہ لگایا گیا ہے ،جبکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں گیس کے سالانہ استعمال کی افزائش کی شرح 5.5فیصد تخمینہ لگائی جاتی ہے جو اس ملک کو باہر سے گیس درآمد پر مجبور کرتی ہے ۔ ایران سے گیس درآمدات کے امتیازات واضح وروشن تھے لہذا ایران کے ساتھ پہلا گیس پائپ لائن کامعاہدہ طے پایا مگر ابھی تک عملی طور پر اس منصوبے سے بہرہ برداری ممکن نہ ہوسکا ۔اس کے اسباب میں سے ایک علاقائی اور بین الاقوامی حالات کے پیش نظر ایران کے ساتھ گیس منصوبے سے متعلق تعاون برقرار رکھ سکنے کے سلسلے میں بعض پاکستانی عہدیداروں کو درپیش شکو ک وشبہات ہیں۔
تحفظ توانائی کا مسئلہ، سبھی ملکوں کی توانائی پالیسی کا ستون ہے نیزیہی مسئلہ توانائییعنی تیل،بجلی اور گیس وغیرہ کی منتقلی کےمعاہدوں کے اجرامیں حکمرانوںکی اصل پریشانی بھی ہے جبکہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ بھی اسی قانون کے تابع ہے ۔ توانائی کے تحفظ سے مراد یہ ہے کہ توانائی کی فراہمی کا تسلسلبعض سیاسی عوامل، مختلف حوادث اوربحرانوں کے نتیجے میںتعطل کا شکارنہ ہو۔ توانائی کا تحفظ،تیل وگیس کی منتقلی کی لائنوںکےحوالے سے دو باہم مربوط حصوں پر مشتمل ہے:
۱۔تحفظ تفراہمی(Security of Supply)
۲۔ تحفظ طلب(Security of Supply)
تحفظ فراہمی سے مراد یہ ہے کہ توانائی درآمد کرنے والا کچھ ایسی ضمانت فراہم کرے کہ بعض غیرمتوقع حوادث کے نتیجے میںتوانائی کی فراہمی تعطل سے دو چار نہ ہو۔یہ مفہوم پائپ لائنوں کیدرست تنصیب اور ان کے دیکھ بھال پر تاکیدکرتاہےیعنی فریقین میں سے کسی کے بھی سیاسی عزائم یا بدامنی کےدیگر اسباب جیسے قدرتی عوامل،جنگ او ر دہشت گردی وغیرہ توانی کی فراہمی میں رکا وٹ نہ بنیں۔
تیل و گیس کے لائنوںکے اعتبارسےتحفظ توانائی ذیل کے معیاروںپر پرکھا جاتاہے:
۱۔اعتماد (Reliability):یہ معیار تیل یا گیس برآمد کرنےوالے سے متعلق صارفین کو اعتمادمیںلینےسے مربوط ہے۔
۲۔وصول پذیری (Accessibility):یہ معیار تمام سیاسی،اقتصادی اور ٹیکنالوجی عوامل جو صارفین کے لئے توانائی کیمسلسل اور بلا تعطل حصو ل میں اثر انداز ہوتے ہیں، کی طرف اشارہ رکھتاہے۔
۳۔دستیابی (Availability) :یہ مفہوم توانائی کی وافرمقدارمیں موجودگینیز برآمد کنندہکی مطلوبہ توانائی کی برآمدکو ممکن بنانے پر قادر ہونےکی طرف اشارہ ہے ۔
۴۔ قابلیت فراہمی (Affordability) اس سے مراد قیمتوںکا مناسب اور منصفانہ ہوناہے۔
ایران کے ساتھ گیس معاہدہ کرنے والے ممالک اور خریداروںکی تعداداور تنوعاس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ ایران خریداروں کی نظر میں تحفظ توانائی کے معیار (Affordability)کا بھی حامل ہے۔ایران اس وقت اپنے ۲۰سالہ اور قابل تجدید معاہدے کے تحت پائپ لائن کے ذریعے روزانہ ۸۰ لاکھ میٹر مکعب گیس ترکی کو فروخت کرتاہے۔ ایران کے گیس کو تین گنابڑھانے یہاںتک کہ اسے یورپ برآمد کرنے کی قابلیت اور امکان بھی پایاجاتاہے چنانچہ اس سلسلے میں تحقیقات ہورہی ہیں۔ یورپ کے بعض مرکزی اور جنوبی ممالک گیس کے درآمدات میں روس پرانحصار کو ختم کرنے کےلئےاس نوعیت کے منصوبوں میںشرکت کے خواہاں ہیں۔
ارمنستان اور گرجستان، جنوبی قفقاز سے تعلق رکھتے والےایران کے جدید گیس کے خریداروں میںسے ہیںجو ایران سےروزانہ ایک کروڑ میٹر معکب گیس خریدنے کی گنجائش رکھتے ہیں۔گیس کے مانند بجلی فروختکے منصوبے بھی ان ممالک کے ساتھ عمل میں لائے جارہے ہیں۔
مسلسل گیس کی فروخت نیز گیس اورمختلف مائع گیسوںکےسلسلے میںچین،جنوبی کوریااوربھارت جیسے ملکوں کے لئے قابل اعتماد ہونے کے علاوہایران تیل اور گیس سے متعلق تبادلاتی معاہدے (Sawap)کے میدان میں بھی ممتا زمقام کا حامل ہے۔ گزشتہ سالوںمیں ،جمہوریہ آذربائیجان کو توانائی کی ترسیل میں زمینی راستے کا حامل ہونے کے علاوہ ایران نے ترکمانستان اور عراق کے ساتھ تیل و گیس کے تبادلاتی معاہدوں سے متعلق تعاون میںبھی بہت مؤثر کردار کیا ہے۔
یہ موارد اس بات کی نشاندہی کرتےہیں کہ ایران اپنے ہمسایہ ممالک اور خریداروں کو تحفظ توانائی فراہم کرنے میں ReliabilityاورAffordabilityجیسے معیاروں کا بھی حامل ہے۔
بنابر یں تحفظ توانائی کی فراہمی کےبرقرار نہ رہنے اور خریداروںکی ضروریات کو پورا نہ کرسکنے کی بابت ایران کو کوئی تشویش لاحق نہیں،خاص طور پر اس حوالے سے کہ امریکہ کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیاں اس سلسلے میں ایران پر اثر انداز نہیں ہوسکتیں۔ایران نے ۴۰ سال تک امریکہ کی پابندیوں کے مختلف مراحل کامقابلہ کیا ۔لیکن اس عرصے میںنہ صرف ایران کے گیس کے پیداوار اس کی برآمدات تعطل کا شکار نہ ہوئیںبلکہ اس میںاور اضافہ ہواہے۔ ایران کی طرف سے عراق اور قفقاز کوگیس برآمدات کا سلسلہ حالیہ مہینوںاور جدید پابندیوںکے دوران ہی شروع ہواہے۔ پس اس سلسلے میں اسلام آبادکو کسی قسم کی تشویش نہیں ہونی چاہیے۔
پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ صرف اقتصادی کارکردگی کاحامل نہیں بلکہ یہ دیگر شعبوں میںبھی دوطرفہ تعاون کے فروغ کے لئے ایک اساس ہوسکتاہے نیزیہ باہمی احترام ومنافع اور روابط کے لئے بھی سنگ میل ہوسکتا ہے۔ درحقیقت امریکا کی پریشانی اسی حوالے سے ہے کہ کہیںگیس پائپ لائن دیگر سیاسی اور سیکورٹی مسائل میںبھی پاک ایران کےمشترکہ تعاون کے لئے سنگ میل ثابت نہ ہوچنانچہ ابھی تک یہ منصوبہ امریکہ کی مداخلت پسندیوںکی وجہ سے ادھورا رہ گیاہےاور مختلف قوموںاور حکومتوںخصوصاً پاک ایران کے لئے نقصان کا باعث بنا ہوا ہے ۔ افغانستان کی مسلسل بحرانی صورت حال ،شدت پسندی کے پھیلاؤ اور دہشت گردی وغیرہ ایسے امورہیں جو خطے میںامریکہ کی مداخلت پسندیوںکے نتیجے میںوجود میں آئے ہیں۔ خطے کے بعض بحرانوں جیسے کردوں کے ذریعےعراق کو تقسیم کرکے شام میںکشیدگی سے پاک خطے کو وجود میںلانے کا منصوبہ، کو روکنے میں ایران-ترکی کے باہمی تعاون کے کامیاب تجربے نے یہ ثابت کردیا ہےکہ مضبوط اقتصادی تعلقات اور خاص طور پر اسے توانائی کے شعبے میںکام میںلانا کس قدر فیصلہ کن ہوسکتاہے۔پاک ایران گیس پائپ لائن بھی ایران اور پاکستان کے لئے اس سلسلے میںراہ گشا ہوسکتی ہے۔
نتیجہ
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ عوامل کا مجموعہ دونوں ملکوں کے لئے،علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر پاک ایران گیس پائپ لائن کی بابت مؤثر ہوسکتاہے ۔ اگر دیکھا جائے تودونوں ملکوںکی سطح پر کوئی خاص مشکل دکھائی نہیںدیتی ورنہ اسلام آباد اس معاہدے کو منعقد کرنے کے لئے تیار نہ ہوتا۔یہ ایک پرامن اور قابل اعتماد منبع اور راستے کے ذریعے توانائی درآمدات کی شدید ضرورت کو پورا کرنے کےلئے پاکستانی حکام کی طرف سےاٹھایا گیا ایک ہوشمندانہ قدم تھاجو دیگر ٹرانزٹ راستوں کے پیش کیے جانے کے باوجود اپنے نسبی امتیازکا حامل ہے ۔
دو قوموں اور دو حکومتوں کی۷۰ سالہ پرامن مشترکہ زندگی اوردوستانہ تعلقات اس منصوبے کے لئے مضبوط سہار اقرار پائیںگے۔بعض سطحی اختلافات نیز پاکستان کی طرف باقی ماندہ پائپ لائننگ کی روشِتکمیل سے متعلقفنی مسائل اور قیمت کا تعین وغیرہ کوئی ایسی مشکلات نہیںجو قابل حل نہ ہوں۔ان کا حل فریقین کی خواہش اور ارادے پر منحصر ہے ۔حالیہ دنوں میں پیدا ہونے والے دوطرفہ سیاسی اور اقتصادی تحرکات کافی امید آور ہیں ۔پہلی بار دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تبادلات کا حجم ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی سطح پر پہنچی ہے ۔منصوبے کی تکمیل سے متعلق بین الاقوانی سطح پر امریکہ کی مخالفت یوںہی جاری رہے گی ۔لیکن جیسا کہ ہم نے اس تجزیے میں ملاحظہ کیا کہ خطے کی سطح پر اور یہاں تک کہ امریکہ کے دوست اور اتحادی ممالک جیسے ترکی،جمہوریہ آذربائیجان اور عراق یا عمان کے ساتھ بھی ایران کے گیس معاہدے پائے جاتے ہیں،تو ایسے میںواشنگٹن کی مخالفت کا اس منصوبے پر اثر انداز ہونا بعید معلوم ہوتاہے۔ چنانچہ بعض مغربی ایشیائی ممالک نے بھی اپنی خارجہ پالیسی میںملکی خودمختاری کو زیادہ اہمیت دیتےہوئے کامیاب انداز میںامریکہ سے کنارہ کشی شروع کی ہے ۔یہ کنارہ کشی نیزآئی پی گیس پائپ لائن کی تنصیب کے ذریعے یونائٹیڈ اسٹیٹ کے دباؤ سے مقابلہ کرنا بھی حکومت پاکستان کے لئے متوقع اور پیش بینی شدہ ہے۔
یہ کنارہ کشی اورتحفظِخود مختاری کامسئلہ ،خطے کے ایک طاقتور ملک کے عنوان سےپاکستان -جوشدت پسندی اور دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کی منافقانہ سیاست کی بھینٹ چڑھا ہے-کے وقار اور مقام و منزلت کے ساتھ بھی زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔امریکہ وہ ملک ہےجواپنے آپ کو JCPOA جیسے بین الاقوامی معاہدوں کا بھی پابند نہیںسمجھتا۔
ان مؤثر عوامل پرکیا گیا تجزیہ یہی حکم دیتاہے کہ ایران سے پاکستان گیس منتقلی کے اس منصوبے کی نسبت ہمیںخو ش بیں ہونا چاہیے ۔امید ہے کہ اسلام آباد کے فیصلے میں ملکیحکمرانوںکے طرز عمل کے ذریعے دونوں ملکوںکے توانائی کے شعبے میںایک روشن مستقبل دیکھنے کو ملے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)